Express News:
2025-11-10@14:57:32 GMT

محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہر مسلمان کے لیے صرف نئے ہجری سال کی شروعات نہیں بل کہ ایک ایسا روحانی لمحہ ہے جو وقت کے مفہوم، زندگی کے نصب العین اور انسان کے رب تعالی کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو تازہ کرتا ہے۔ اسلامی تقویم کا آغاز کسی جشن یا دنیاوی مسرت کی علامت نہیں، بل کہ فکر و احتساب کی صدا ہے، جو ہر مومن کے دل میں یہ سوال جگاتی ہے کہ ایک اور سال گزر گیا، میں نے کیا پایا، کیا کھویا اور آئندہ کی راہ کیسی ہو ؟

قرآن مجید نے جن چار مہینوں کو اشہرِ حرم کا شرف عطا فرمایا، ان میں محرم الحرام کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مہینے صرف چند دنوں کا نام نہیں، بل کہ یہ اسلام کے اس معاشرتی پیغام کی علامت ہیں جو امن، عزتِ نفس، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اشہرِ حرم کی حرمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف عبادات میں نہیں، بل کہ اخلاقی عظمت، سماجی ذمہ داری، اور باہمی رواداری میں بھی ہے۔

محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت ایک امانت ہے، جو پل پل گزر کر ہماری زندگی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت اور فراغت ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس حدیث میں وقت کی اہمیت کو اس خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنا ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے۔ محرم کا مہینہ ہمیں یہ شعور عطا کرتا ہے کہ ہم وقت کو بے مقصد نہ گزاریں، بل کہ ہر دن، ہر ساعت کو نیکی، خیر اور خدمتِ خلق سے روشن کریں۔

نئے ہجری سال کا آغاز تقویمی لحاظ سے اگرچہ سادہ سی تبدیلی ہے، لیکن روحانی اعتبار سے یہ ایک بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا، اپنے تعلق مع اﷲ کو گہرا کرنے کا ہے۔ ایک مومن صرف اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم نہیں ہوتا، بل کہ آئندہ کے لیے عزمِ نو بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں قرآن و سنّت کو اپنی زندگی کا راہ نما بناؤں گا، سچ بولوں گا، وقت کی قدر کروں گا، معاشرے کے لیے خیر کا سبب بنوں گا، اور دنیا میں اسلام کے امن، محبت اور عدل کے پیغام کو عام کروں گا۔

محرم الحرام کا مہینہ ہمیں باطن کی تطہیر، نفس کی تہذیب، اور روح کی بالیدگی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صرف ظاہری عزت و وقار کا مہینہ نہیں، بل کہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو انسان کو اس کی اندرونی حالت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود سے یہ سوال کرے:

کیا میرا دل گناہوں سے پاک ہے؟

کیا میری نیت خالص ہے؟

کیا میری زبان دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہے؟

کیا میں دوسروں کے حق ادا کر رہا ہوں؟

کیا میں اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہوں؟

یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے۔ آج کا مسلمان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت، افتراق و انتشار، اور باہمی بدگمانی ہے۔ محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں، اور امت کا شیرازہ صرف اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں، اختلاف کو افتراق نہ بنائیں، اور ہر حالت میں عدل و احسان کو اپنا شعار بنائیں۔

دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بل کہ حسنِ اخلاق، حسنِ سلوک اور حسنِ تعلقات بھی دین کا جوہر ہیں۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف نماز، روزہ اور حج کی دعوت نہیں دی، بل کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی، سچائی، خیر خواہی اور عدل کو بھی دین کا حصہ بنایا۔ محرم ہمیں اسی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مہینہ معاشرتی خیر خواہی، اصلاحِ باطن، اور فکری بیداری کا موسم ہے۔

عبادت و بندگی کے اعتبار سے بھی محرم کا مہینہ بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ’’شہر اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کا مہینہ فرمایا اور اس میں روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی۔ گو کہ عبادات کا دائرہ پورے سال پر محیط ہے، لیکن محرم کی روحانی فضا دلوں کو عبادت کی طرف کھینچتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں عبادات کے ذریعے اﷲ سے قرب حاصل کریں، دعا کریں کہ یا اﷲ! ہمیں اس نئے سال میں گناہوں سے بچا، نیکیوں کی توفیق دے، اور ہمارے دلوں کو ایمان، محبت، اور خیر سے منور کر۔

جو قومیں وقت کے ساتھ اپنے اہداف مقرر نہیں کرتیں، وہ اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔ محرم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل بنائیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم خود کو قرآن کے قریب کریں گے، جھوٹ، غیبت، فریب اور بدگمانی سے بچیں گے، سماج میں نرمی، انصاف اور خیر کو فروغ دیں گے، اور اپنے ہر عمل کو رضائے الٰہی کے تابع بنانے کی سعی کریں گے۔

محرم الحرام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ روحانی بیداری کے بغیر سماجی فلاح ممکن نہیں، اور فرد کی اصلاح کے بغیر امت کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے، اپنے کردار کو سنوارنے، اور معاشرے میں بھلائی عام کرنے کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو رسمی تقویمی تبدیلی نہ سمجھیں، بل کہ اسے ایک بیداری، تجدیدِ عہد، اور عملی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔

اﷲ رب العزت ہمیں اس مہینے کی روح کو سمجھنے، اس کے پیغام پر عمل کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو تقویٰ، اخلاص، اور حسنِ اخلاق سے مزین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محرم الحرام مہینہ ہمیں چاہیے کہ کا مہینہ دیتا ہے کے ساتھ کرتا ہے بل کہ ا ہے کہ ا میں یہ کے لیے

پڑھیں:

دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے

ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔

تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔

ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔

امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔

اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔

یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔

اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔

ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔

طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔

ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔

ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔

اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد سائٹ ایسوسی ایشن کو انڈسٹریز کی نماندگی کرنے پر اعزاز حاصل
  • یہ سنگدل مائیں اور بیویاں
  • جدہ میں سوشل میڈیا پرجھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کے خلاف آگاہی نشست
  • بیوی کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا،احسن خان نے شادی کے بعد کی قربانیاں پہلی بار بتا دیں
  • صدر پاکستان کیلئے تاحیات استثنیٰ ہر اعتبار غلط و شرمناک ہے، حافظ نعیم الرحمنٰ
  • ہمیں اقبالؒ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور امن کے لیے کوشاں رہنا ہوگا: وزیر داخلہ محسن نقوی  
  • ہوائے نفس اور اس کے خطرات
  • گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے معلم قاری عبدالمنان ناصر ملاقات کررہے ہیں
  • دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
  • ہمیں بچوں کو دل ٹوٹنے جیسے مشکل مراحل کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے : صائمہ قریشی