محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہر مسلمان کے لیے صرف نئے ہجری سال کی شروعات نہیں بل کہ ایک ایسا روحانی لمحہ ہے جو وقت کے مفہوم، زندگی کے نصب العین اور انسان کے رب تعالی کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو تازہ کرتا ہے۔ اسلامی تقویم کا آغاز کسی جشن یا دنیاوی مسرت کی علامت نہیں، بل کہ فکر و احتساب کی صدا ہے، جو ہر مومن کے دل میں یہ سوال جگاتی ہے کہ ایک اور سال گزر گیا، میں نے کیا پایا، کیا کھویا اور آئندہ کی راہ کیسی ہو ؟
قرآن مجید نے جن چار مہینوں کو اشہرِ حرم کا شرف عطا فرمایا، ان میں محرم الحرام کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مہینے صرف چند دنوں کا نام نہیں، بل کہ یہ اسلام کے اس معاشرتی پیغام کی علامت ہیں جو امن، عزتِ نفس، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اشہرِ حرم کی حرمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف عبادات میں نہیں، بل کہ اخلاقی عظمت، سماجی ذمہ داری، اور باہمی رواداری میں بھی ہے۔
محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت ایک امانت ہے، جو پل پل گزر کر ہماری زندگی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت اور فراغت ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں وقت کی اہمیت کو اس خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنا ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے۔ محرم کا مہینہ ہمیں یہ شعور عطا کرتا ہے کہ ہم وقت کو بے مقصد نہ گزاریں، بل کہ ہر دن، ہر ساعت کو نیکی، خیر اور خدمتِ خلق سے روشن کریں۔
نئے ہجری سال کا آغاز تقویمی لحاظ سے اگرچہ سادہ سی تبدیلی ہے، لیکن روحانی اعتبار سے یہ ایک بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا، اپنے تعلق مع اﷲ کو گہرا کرنے کا ہے۔ ایک مومن صرف اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم نہیں ہوتا، بل کہ آئندہ کے لیے عزمِ نو بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں قرآن و سنّت کو اپنی زندگی کا راہ نما بناؤں گا، سچ بولوں گا، وقت کی قدر کروں گا، معاشرے کے لیے خیر کا سبب بنوں گا، اور دنیا میں اسلام کے امن، محبت اور عدل کے پیغام کو عام کروں گا۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں باطن کی تطہیر، نفس کی تہذیب، اور روح کی بالیدگی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صرف ظاہری عزت و وقار کا مہینہ نہیں، بل کہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو انسان کو اس کی اندرونی حالت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود سے یہ سوال کرے:
کیا میرا دل گناہوں سے پاک ہے؟
کیا میری نیت خالص ہے؟
کیا میری زبان دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہے؟
کیا میں دوسروں کے حق ادا کر رہا ہوں؟
کیا میں اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہوں؟
یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے۔ آج کا مسلمان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت، افتراق و انتشار، اور باہمی بدگمانی ہے۔ محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں، اور امت کا شیرازہ صرف اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں، اختلاف کو افتراق نہ بنائیں، اور ہر حالت میں عدل و احسان کو اپنا شعار بنائیں۔
دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بل کہ حسنِ اخلاق، حسنِ سلوک اور حسنِ تعلقات بھی دین کا جوہر ہیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف نماز، روزہ اور حج کی دعوت نہیں دی، بل کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی، سچائی، خیر خواہی اور عدل کو بھی دین کا حصہ بنایا۔ محرم ہمیں اسی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مہینہ معاشرتی خیر خواہی، اصلاحِ باطن، اور فکری بیداری کا موسم ہے۔
عبادت و بندگی کے اعتبار سے بھی محرم کا مہینہ بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ’’شہر اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کا مہینہ فرمایا اور اس میں روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی۔ گو کہ عبادات کا دائرہ پورے سال پر محیط ہے، لیکن محرم کی روحانی فضا دلوں کو عبادت کی طرف کھینچتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں عبادات کے ذریعے اﷲ سے قرب حاصل کریں، دعا کریں کہ یا اﷲ! ہمیں اس نئے سال میں گناہوں سے بچا، نیکیوں کی توفیق دے، اور ہمارے دلوں کو ایمان، محبت، اور خیر سے منور کر۔
جو قومیں وقت کے ساتھ اپنے اہداف مقرر نہیں کرتیں، وہ اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔ محرم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل بنائیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم خود کو قرآن کے قریب کریں گے، جھوٹ، غیبت، فریب اور بدگمانی سے بچیں گے، سماج میں نرمی، انصاف اور خیر کو فروغ دیں گے، اور اپنے ہر عمل کو رضائے الٰہی کے تابع بنانے کی سعی کریں گے۔
محرم الحرام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ روحانی بیداری کے بغیر سماجی فلاح ممکن نہیں، اور فرد کی اصلاح کے بغیر امت کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے، اپنے کردار کو سنوارنے، اور معاشرے میں بھلائی عام کرنے کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو رسمی تقویمی تبدیلی نہ سمجھیں، بل کہ اسے ایک بیداری، تجدیدِ عہد، اور عملی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔
اﷲ رب العزت ہمیں اس مہینے کی روح کو سمجھنے، اس کے پیغام پر عمل کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو تقویٰ، اخلاص، اور حسنِ اخلاق سے مزین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محرم الحرام مہینہ ہمیں چاہیے کہ کا مہینہ دیتا ہے کے ساتھ کرتا ہے بل کہ ا ہے کہ ا میں یہ کے لیے
پڑھیں:
دور ہوتی خوابوں کی سرزمین
امریکا جسے برسوں سے لوگ خوابوں کی سرزمین کہتے ہیں، اس سرزمین پر ایک نیا حکم جاری ہوا ہے، ایچ ون بی ویزا جو برسوں سے لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کی ڈور بنا ہوا تھا، اب ایک نئی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی درخواست کے ساتھ کمپنیوں کو ایک لاکھ ڈالر جمع کرانا ہوگا۔
بعد میں وضاحت آئی کہ یہ صرف نئی درخواستوں پر لاگو ہوگا مگر خبرکا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ ہزاروں گھروں میں بیٹھے طلبہ ان کے والدین اور وہ ادارے جو اس ویزے پر انحصارکرتے ہیں، سب کو ایک لمحے کے لیے لگا جیسے مستقبل تاریک ہوگیا ہو، جیسے خواب ٹوٹ گئے ہوں۔
امریکا کی طاقت اس کی فوجی برتری یا اسلحہ خانوں میں نہیں بلکہ ان یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ہے جنھوں نے دنیا کے ذہین ترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ایک پاکستانی نوجوان، ایک بھارتی انجینئر، ایک ایرانی سائنسدان یا ایک افریقی ڈاکٹر یہ سب امریکا کی لیبارٹریوں اور کمپنیوں میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتے رہے۔ یہ ایک ایسی گردش تھی جسے دنیا نے برین ڈرین کہا اور امریکا نے اس ڈرین کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ مگر آج جب ٹرمپ جیسے حکمران امریکی نوکریاں صرف امریکیوں کے لیے کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ سوچنا بھول جاتے ہیں کہ ان نوکریوں کو پیدا کرنے والے دماغ کہاں سے آتے ہیں۔
یہ فیصلہ محض ایک ویزا پالیسی نہیں بلکہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے۔ کیا امریکا اپنے گرد حصار اونچے کر کے خود کو محفوظ کر لے گا یا اپنی کھڑکیاں بند کر کے خود اپنا دم گھونٹ دے گا؟ جب عالمی طلبہ امریکا کا رُخ کم کریں گے، جب یونیورسٹیوں کی کلاسیں خالی ہونے لگیں گی اور جب ریسرچ پروجیکٹس فنڈنگ کے بوجھ تلے دبیں گے تو نقصان صرف ان نوجوانوں کو نہیں ہوگا، جو امریکا کا خواب دیکھتے ہیں بلکہ خود امریکا کے لیے یہ ایک پیچھے کی سمت کا سفر ہوگا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ ایک بڑی صنعت بھی ہیں۔ نجی یونیورسٹیاں لاکھوں ڈالر کی فیسوں پر چلتی ہیں، اگر بین الاقوامی طلبہ کا رخ مڑ جائے اگر ان کے والدین یہ سوچنے لگیں کہ اتنی بھاری فیسیں دے کر بھی نوکری نہیں ملے گی تو ان اداروں کے مالی ڈھانچے لرزنے لگیں گے اور یہاں میرا دل یہ سوچ کر لرزتا ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کئی تعلیمی ادارے یا کارخانے وقت کے ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بدل گئے کہیں امریکا میں بھی ایسا نہ ہو۔ کہیں یہ علمی مراکز جو انسانیت کی سب سے بڑی کامیابی ہیں، سرمایہ دارانہ لالچ کے ہاتھوں صرف زمین اور کنکریٹ کی سوداگر منڈیوں میں نہ بدل جائیں۔
سرمایہ داری کا یہ جبر نیا نہیں، وہ ہر بحران کو موقع بنا لیتی ہے یہاں بھی یہی ہوگا، ایک طرف حکومت کہے گی کہ امریکیوں کے لیے نوکریاں بچا رہے ہیں اور دوسری طرف کارپوریٹ کمپنیاں نئے ماڈلز تلاش کریں گی۔ وہ اپنے منافع کو بچانے کے لیے نئی راہیں نکالیں گی، چاہے اس کے لیے ریسرچ کے منصوبے کاٹنے پڑیں یا سستی محنت والے ممالک میں پورے پورے شعبے منتقل کرنے پڑیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نوکری کے تحفظ کے نام پر یہ پالیسی لائی گئی ہے وہی نوکریاں دراصل غائب ہونا شروع ہو جائیں گی۔
ہماری دنیا کی خوبصورتی اس میں ہے کہ علم اور ہنر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ جب سرحدیں اونچی ہو جاتی ہیں تو علم کے دریا اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کئی ممالک جو کبھی صرف امریکا کو دیکھتے تھے اب یورپ، کینیڈا یا ایشیائی مراکز کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب برین ڈرین کا رُخ پلٹ سکتا ہے۔ امریکا جس نے برسوں تک دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا وہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کو واپس دھکیل سکتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ صورتحال ایک دوہرا امتحان ہے۔ یہاں لاکھوں نوجوان دن رات یہ سوچتے ہیں کہ اگر امریکا کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تو ان کی زندگی بدل جائے گی۔ وہ اپنے والدین کا سہارا بن سکیں گے ، اپنے سماج کو بہتر بنانے کے خواب دیکھ سکیں گے۔ مگر جب خبر آتی ہے کہ لاکھ ڈالرکی شرط لگا دی گئی ہے تو یہ خواب ایک لمحے میں چکناچور ہو جاتے ہیں۔ ان گھروں میں مایوسی اترتی ہے جہاں والدین نے زیور بیچ کر بچوں کی فیس جمع کی ہوتی ہے۔ ان گلیوں میں خاموشی پھیلتی ہے جہاں نوجوان اپنے سفری کاغذات کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ صرف امریکا کا امتحان نہیں بلکہ ہماری دنیا کے نوجوانوں کا بھی ہے۔ یہ نوجوان اپنی محنت اپنی ذہانت اور اپنے خوابوں کو بیچنے نہیں بلکہ بانٹنے کے لیے نکلتے ہیں۔ مگر جب ان کے راستے بند کردیے جائیں تو وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں رہ کر کسی اور راستے کی تلاش کریں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا ہم کب تک اپنے بہترین دماغوں کو اس امید پر پالیں گے کہ وہ ایک دن کسی اور ملک کے لیے روشنی بنیں گے؟ اور جب وہ راستہ بند ہو جائے تو کیا ہم اپنے ملک میں ان کے خوابوں کے لیے جگہ بنا سکیں گے؟
یہی وہ سوال ہے جو ہر ترقی پذیر ملک کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ امریکا نے اپنی پالیسی سے ہمارے نوجوانوں کو ایک پیغام دیا ہے ’’ہمیں تمہاری محنت نہیں چاہیے۔‘‘ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم انھیں یہ پیغام دیں ہمیں تمہاری محنت تمہارا خواب اور تمہارا مستقبل سب چاہیے، اگر ہم یہ موقع نہ لیں تو یہ نوجوان نہ امریکا کے رہیں گے اور نہ اپنے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اصل طاقت دیواریں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان پُل ہیں۔ ٹرمپ کے اس نئے حکم نے شاید وقتی طور پر ایک طبقے کو خوش کر دیا ہو مگر یہ خوشی عارضی ہے۔ آنے والے برسوں میں جب امریکا کی یونیورسٹیاں اپنا بین الاقوامی رنگ کھو دیں گی اور جب امریکی کمپنیاں اپنے منصوبے سست روی کا شکار دیکھیں گی تو تب سمجھ میں آئے گا کہ ایک لاکھ ڈالرکا یہ مطالبہ کتنا مہنگا ثابت ہوا۔ علم، تحقیق اور خواب یہ وہ چیزیں ہیں جو کبھی پیسوں سے نہیں تولی جا سکتیں اور جب کوئی قوم انھیں پیسے سے تولتی ہے تو وہ دراصل اپنے مستقبل پر قفل ڈالتی ہے۔