UrduPoint:
2025-09-26@06:17:16 GMT

یوکرین کا بنگلہ دیش پر’چوری شدہ‘ گندم خریدنے کا الزام

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

یوکرین کا بنگلہ دیش پر’چوری شدہ‘ گندم خریدنے کا الزام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) یوکرین نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلہ دیش روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں سے لی جانے والی چوری شدہ گندم خرید رہا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تجارت نہ رکی تو وہ یورپی یونین سے بنگلہ دیشی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی درخواست کرے گا۔ یہ بات جنوبی ایشیا میں تعینات ایک اعلیٰ یوکرینی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتائی۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ روسی افواج 2014 ء سے اس کے جنوبی زرعی علاقوں پر قابض ہیں اور 2022 ء کی مکمل یلغار سے پہلے ہی روس یوکرینی اناج چوری کرتا رہا ہے۔ روس ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جن علاقوں سے اناج حاصل کیا گیا، وہ اب روس کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، اس لیے کوئی چوری نہیں ہو رہی۔

(جاری ہے)

روئٹرز کے مطابق انہیں دستیاب دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے سفارت خانے نے اس سال بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کو کئی خطوط بھیجے، جن میں روسی بندرگاہ قفقاز سے بھیجے گئے مبینہ طور پر چوری شدہ ایک لاکھ 50 ہزار ٹن سے زائد اناج کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یوکرین کے بھارت میں سفیرآلیکسانڈر پولشچک نے اس بات کی تصدیق کی کہ بنگلہ دیش نے ان خطوط کا جواب نہیں دیا اور اب یوکرین اس معاملے کو یورپی یونین میں اٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی کمپنیاں مقبوضہ یوکرینی علاقوں سے حاصل کی گئی گندم کو روسی گندم میں ملا کر برآمد کرتی ہیں تاکہ اس کا پتا نہ چل سکے۔

پولشچک نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ جرم ہے۔

ہم اپنی تحقیقات یورپی یونین کے ساتھیوں سے شیئر کریں گے اور ان سے مناسب اقدام کی درخواست کریں گے۔‘‘

یہ سفارتی تنازع پہلے منظرِ عام پر نہیں آیا تھا۔ بنگلہ دیش اور روس کی وزارتِ خارجہ نے روئٹرزکے تبصروں کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ تاہم بنگلہ دیش کی وزارت خوراک کے ایک اہلکار نے کہا کہ اگر کسی اناج کی اصل روس کے زیرِ قبضہ یوکرینی علاقے سے ہو تو بنگلہ دیش اس کی درآمد کی اجازت نہیں دیتا اور ملک میں کوئی چوری شدہ گندم درآمد نہیں ہو رہی۔

یوکرین کے مطابق جنگ کے باوجود اس کی زرعی برآمدات، جن میں گندم، خوردنی تیل اور تیل دار بیج شامل ہیں، بدستور ملکی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔ اپریل میں یوکرین نے اپنی سمندری حدود میں ایک غیر ملکی جہاز کو روک لیا تھا جس پر چوری شدہ اناج کی ترسیل کا الزام تھا اور گزشتہ برس بھی ایک جہاز اور اس کے کپتان کو اسی شبے میں حراست میں لیا گیا تھا۔

یورپی یونین اب تک روس کے نام نہاد ''شیڈو فلیٹ‘‘سے وابستہ 342 بحری جہازوں پر پابندیاں عائد کر چکی ہے، جن کے ذریعے ماسکو تیل، ہتھیار اور اناج پر مغربی پابندیوں کو چکمہ دیتا ہے۔ روس ان پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

یوکرینی قانون کے مطابق، مقبوضہ علاقوں میں یوکرینی کسانوں یا دیگر تجارتی اداروں کی روسی اداروں سے کسی قسم کی رضاکارانہ تجارت ممنوع ہے۔

یوکرین نے بنگلہ دیشی حکومت کو بھیجے گئے چار میں سے ایک خط میں خبردار کیا کہ ''چوری شدہ گندم‘‘ کی خریداری پر بنگلہ دیش کو ''سنگین نتائج‘‘ بھگتنا پڑ سکتے ہیں اور یہ تجارت ''انسانی المیے کو ہوا دیتی ہے۔‘‘

ایک روسی اناج تاجر نے، شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ روسی بندرگاہ پر، جب گندم برآمد کے لیے لادی جاتی ہے، تو اس کی اصلیت کا پتا چلانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تاجر کے بقول، ''یہ نہ تو سونا ہے نہ ہی ہیرے۔ گندم میں شامل اجزاء سے اس کی شناخت ممکن نہیں۔‘‘

شکور رحیم، روئٹرز کے ساتھ

ادارت: امتیاز احمد

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین بنگلہ دیش چوری شدہ

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر  کے تناظر میں ’روس‘ کا شملہ اور لاہور معاہدوں کا ذکر کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

روسی سفیر البرٹ پی خوروف نے گزشتہ روز روسی سفارتخانے میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور کے تحت حل ہونا چاہیے۔

شملہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتا ہے، یعنی اقوامِ متحدہ یا کسی تیسرے ملک کی ثالثی کو خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ جبکہ معاہدہ لاہور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر جامع بات چیت پر زور دیتا ہے۔

اگرچہ یہ پریس کانفرنس روس اور یوکرین کے تنازع پر پاکستانی میڈیا کو بریفنگ کے لیے منعقد کی گئی تھی اور ایسی بریفنگز کچھ عرصے سے جاری ہیں، لیکن ایک سوال کے جواب میں روسی سفیر نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے شملہ اور لاہور معاہدوں کا حوالہ دیا۔

مزید پڑھیں:یوکرین تنازع میں عدم مداخلت کے مؤقف پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، روسی سفیر

مسئلہ کشمیر پر روس کا تاریخی مؤقف کیا ہے؟

پہلگام واقعے کے بعد روس نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی۔ 4 اور 5 مئی کو روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے پاک بھارت وزرائے خارجہ سے الگ الگ بات کی اور دہشتگردی کے سیاسی حل کے لیے مدد کی پیشکش کی، بشرطیکہ دونوں ممالک آمادہ ہوں۔ روس نے شملہ معاہدے کے تحت دوطرفہ مذاکرات کی حمایت کی۔

1947، 1950، 1957 اور 1961 میں جب مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں زیر بحث آیا تو اُس وقت کے سوویت یونین نے بھارت کے مؤقف کی حمایت کی اور سلامتی کونسل میں پاکستان کی حمایت یافتہ قراردادوں کو ویٹو کیا، جو کشمیر میں ریفرنڈم یا بین الاقوامی مداخلت کا تقاضا کرتی تھیں۔ سوویت یونین کا مؤقف تھا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

البتہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین نے نسبتاً غیر جانبدار ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تاشقند معاہدہ (10 جنوری 1966) میں سوویت وزیرِ اعظم الیکسی کوسیگن نے پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے درمیان مذاکرات کرائے۔ اس معاہدے نے جنگ کے خاتمے اور فوجی انخلا پر تو زور دیا لیکن کشمیر کے مستقل حل کے لیے کوئی ٹھوس تجویز نہ دی، البتہ دوطرفہ بات چیت پر حوصلہ افزائی ضرور کی گئی۔

مزید پڑھیں:شملہ معاہدے کی ‘خفیہ شق’ اور دائروں کا سفر

شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور میں کیا تھا؟

شملہ معاہدہ 1972 میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہوا جبکہ معاہدہ لاہور فروری 1999 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد طے پایا، جب دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔

شملہ معاہدہ بھارت کے لیے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح سے ہٹا کر صرف پاک بھارت دو طرفہ فریم ورک تک محدود کردیا گیا۔ معاہدہ لاہور برابری کی سطح پر طے پایا اور اس میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام تنازعات پر جامع مذاکرات پر اتفاق کیا۔ تاہم اس کے فوراً بعد کارگل جنگ چھڑ گئی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔

گزشتہ کئی برس سے بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشتگردی پر بات ہوگی، سرحدی تنازعات پر نہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرکے یہ مؤقف مزید سخت کرلیا اور اب وہ صرف دہشت گردی یا پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر پر بات کرنے کی بات کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع

ظاہر ہوتا ہے کہ روس مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرتا ہے، سابق سفیر وحید احمد

پاکستان کے سابق سفیر وحید احمد نے کہا کہ روسی سفیر کا بیان اہم ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرتا ہے اور ثالثی کی پیشکش بھی کر چکا ہے۔ تاہم ثالثی اُس وقت ناکام ہوتی ہے جب ایک فریق اسے ماننے سے انکار کر دے۔ بھارت ہمیشہ اس مسئلے پر بات چیت سے گریز کرتا آیا ہے، اس لیے روس زور دیتا ہے کہ دونوں ممالک اسے دوطرفہ طریقے سے حل کریں۔

بیان ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش لگتا ہے، سابق سفارتکار نغمانہ ہاشمی

سابق سفارتکار نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ روسی سفیر کا بیان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے متنازع مسائل دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونے چاہئیں۔ چونکہ روس تاریخی طور پر بھارت کا اسٹریٹیجک اتحادی رہا ہے، اس لیے یہ بیان ایک طرح سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش بھی لگتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

البرٹ پی خوروف روس روسی سفیر شملہ معاہدہ لاہور معاہدہ مسئلہ کشمیر

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں خود ساختہ مذہبی رہنماؤں کے جرائم اور اندھی عقیدت کا سلسلہ جاری
  • مسئلہ کشمیر  کے تناظر میں ’روس‘ کا شملہ اور لاہور معاہدوں کا ذکر کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
  • کراچی میں زیرِ زمین سرنگ کے ذریعے تیل چوری کا بڑا اسکینڈل بے نقاب
  • ایشیا کپ سپر فورمرحلہ: بھارت کی بنگلہ دیش کو شکست دے کرفائنل میں رسائی
  • تائیوان میں جھیل کا بند ٹوٹنے سے تباہی، متعدد افراد ہلاک
  • یوکرین تنازع میں غیر جانبداری پر پاکستان کے شکرگزار ہیں، روسی سفیر
  • جماعت اسلامی ہمیں کام کرنے نہیں دیتی، مرتضیٰ وہاب کا الزام
  •   روس کا پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • بھارت میں بے روزگاری کا براہ راست تعلق ووٹ چوری سے ہے، راہل گاندھی
  • محمود عباس کا مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے نئے آغاز کا مطالبہ