سندھ حکومت کا دو بڑے تعلیمی بورڈز کا چارج ایک افسر کو دینے کا تجربہ ناکام
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی:حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے دو بڑے تعلیمی بورڈز میٹرک بورڈ اور انٹر بورڈ کا چارج ایک ہی افسر کو دینے کا فیصلہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے، انتظامی کمزوریوں اور چیئرمین کی عدم توجہی کے باعث بالخصوص اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ (انٹر بورڈ) کے اہم امور، امتحانی نظام اور اسکروٹنی کے نتائج شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ چیئرمین غلام حسین سوہو اپنی مصروفیات کے باعث نہ میٹرک بورڈ اور نہ ہی انٹر بورڈ کو بھرپور وقت دے پا رہے ہیں، اس کا براہ راست اثر انٹر سال اول کے طلبہ کے اسکروٹنی نتائج پر پڑا ہے، جنہیں تاحال جاری نہیں کیا جا سکا۔
نتائج میں تاخیر سے کراچی کے سیکڑوں طلبہ و طالبات کی تعلیمی پیش رفت خطرے میں پڑ گئی ہے جو انٹر سال دوم کے امتحانات دے چکے ہیں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے منتظر ہیں، اسکروٹنی کے نتائج نہ ملنے کے باعث ان کے داخلے کھٹائی میں پڑ گئے ہیں اور قیمتی سال ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
دوسری جانب انٹر بورڈ کراچی کے دفتر کے باہر طلبہ اور والدین نے احتجاج کیا، مظاہرین نے چیئرمین غلام حسین سوہو کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے فوری طور پر اسکروٹنی نتائج کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کئی ماہ سے بورڈ کے چکر لگا رہے ہیں، لیکن چیئرمین سے ملاقات تک ممکن نہیں ہو رہی۔
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن (سپلا) اور ایپکا انٹر بورڈ یونٹ نے بھی اسکروٹنی نتائج کے اجرا میں تاخیر، اساتذہ کے واجبات کی عدم ادائیگی اور دیگر مسائل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سپلا کراچی ریجن کے ترجمان سید محمد حیدر کے مطابق بورڈ کی جانب سے تعاون کے باوجود کالج اساتذہ کے واجبات تاحال ادا نہیں کیے گئے، اگر معاملات حل نہ ہوئے تو اساتذہ بورڈ سے وابستہ تمام امور کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایپکا یونٹ نے ملازمین کی میڈیکل فائلوں کے التوا اور طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
طلبہ، والدین، اساتذہ اور ملازمین نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے انٹر بورڈ میں انتظامی بحران ختم کریں اور اسکروٹنی نتائج فوری طور پر جاری کروائیں تاکہ طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
بورڈ ذرائع کے مطابق چیئرمین غلام حسین سوہو اسکروٹنی نتائج پر دستخط سے گریزاں ہیں، جس کی وجہ سے درجنوں کیسز زیر التوا ہیں۔ علاوہ ازیں، انٹر کے امتحانات کے دوران 26 مئی کو ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج (ایوننگ) میں نقل کی شکایات پر بورڈ کی مانیٹرنگ ٹیم نے چھاپہ مارا، جہاں چھت پر قائم کمروں سے 44 موبائل فونز اور نقل کا مواد برآمد ہوا، ان فونز کو بعد میں مبینہ طور پر نقل مافیا کے حوالے کر دیا گیا اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسکروٹنی نتائج
پڑھیں:
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا احتجاجی پروگرام ملتوی، دہلی حکومت پر اجازت منسوخ کرنے کا الزام
لاء بورڈ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں اور مشکلات سے ہرگز بھی مایوس نہ ہوں بلکہ جرات اور حوصلے کیساتھ بورڈ کیجانب آنے والے اعلانات کا اسیطرح خیرمقدم کریں، جسطرح کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی مونسپل کارپوریشن نے 16 نومبر 2025ء کو رام لیلا میدان پر ہونے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے احتجاجی اجلاس کی اجازت یہ کہہ کر صرف 8 دن قبل منسوخ کر دی کہ رام لیلا میدان دہلی حکومت کے پروگرام کے لئے مطلوب ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ دہلی حکومت اور مونسپل کارپوریشن کے اس غیرذمہ دارانہ حرکت پر اپنی برہمی کا اظہار کر تے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کر تا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ جب میونسپل کارپوریشن اس اجلاس کے انعقاد کے لئے تین ماہ قبل اجازت دے چکی تھی، اس اجازت کو صرف ایک ہفتہ قبل منسوخ کر دینا قانوناََ اور اخلاقاََ غلط اور ظالمانہ اقدام ہے جس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یاتو دہلی کے پروگرام کو آگے بڑھایا جاتا یا انھیں متبادل جگہ فراہم کی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء کی مخالفت میں کئے جانے والے اس پروگرام کی تشہیر بڑے پیمانے پر ملکی سطح پر ہوچکی تھی، چنانچہ ہزاروں افراد دہلی کے لئے اپنا ٹکٹ بناچکے تھے۔ بورڈ کے ذمہ دار بھی اس کے لئے مغربی اترپردیش، ہر یانہ، راجستھان اور دہلی کی قریبی ریاستوں میں مسلسل دورے کرکے ماحول بنا چکے تھے۔ ظاہر ہے مونسپل کارپوریشن دہلی کے اس فیصلے نے ان سب لوگوں کو نہ صرف مایوس کیا ہے بلکہ ہوائی جہاز اور ٹرینوں کے ٹکٹ کی منسوخی کی وجہ سے انہیں خاصا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اسی طرح مغربی اترپردیش اور ہریانہ سے جو بسیں بک کی جا چکی تھیں اس کا نقصان بھی ان علاقوں کے مسلمانوں کے حصہ میں گیا۔
ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید اور احتجاج ہمارا بنیادی و دستوری حق ہے اور جمہوری ملک میں اس کے لئے جگہیں اور مقامات مختص کئے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی وقف ترمیمی قانون 2025ء پر احتجاجی تحریک کو جو پذیرائی مل رہی ہے اس سے حکومت گھبراگئی ہے اور 16 نومبر کی اجازت کی منسوخی حکومت کی اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے اس طرح کے بزدلانہ اقدامات کے آگے سپر نہیں ڈالے گا اور ملتوی شدہ پروگرام کو دوبارہ رمضان المبارک کے بعد دہلی میں ہی منعقد کرے گا۔ توقع ہے کہ حکومت کی طرف سے آئندہ کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جائے گی۔ بورڈ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں اور مشکلات سے ہرگز بھی مایوس نہ ہوں بلکہ جرات اور حوصلے کے ساتھ بورڈ کی جانب آنے والے اعلانات کا اسی طرح خیر مقدم کریں، جس طرح کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں۔