میں ناخوش وبیزارہوں مرمرکی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
علامہ اقبال کا یہ شعر جب بھی ہمارے سامنے آجاتا ہے ہم ماضی میں بہت دوربہت دورچلے جاتے ہیں ، اس مٹی کے حرم یا گھر میں جس کا ذکر اس شعر میں ہے ،آج کی لگژری مساجد والوں کو اس مٹی کے گھر کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں، اس لیے ہم آج ان کو اسی مٹی کے گھر میں لے جاتے ہیں جہاں ہم نے اپنے شعورکے ابتدائی شب و روز گزارے تھے ۔
یہ مٹی کی کچی دیواروں پر مشتمل ایک لمباساکوٹھا تھا جس میں مقامی ایک خوشبودار گھاس بچھی ہوئی تھی اوربہت دبیز ہواکرتی تھی، اس گھاس کا ایک ڈھیر کوٹھے کے دائیں کونے میں پڑا رہتا تھا جوہمارا خاص ٹھکانہ تھا ، صبح کی نماز میں جب ہم سنت پڑھ لیتے اوراستاد کاانتظار شروع ہوجاتا ، استاد دیر سے آتے تھے اوروضو سنت گھر سے کرکے آتے تھے۔
ان کے آتے ہی اقامت شروع ہوجاتی اورعشاء کی نماز کے بعد بھی ہم اس گھاس کے نرم اورگرم ڈھیر میں دیرتک لیٹے رہتے ،دوسرے کونے میں جگہ کچھ اونچی کی گئی تھی جس پر سرسوں کے تیل سے جلنے والا دیا جل رہا ہوتا ۔ کمال کی بات یہ تھی کہ اس چھوٹے سے دیے میں وہ بڑا کمرہ اتنا ہی روشن ہوتا تھا جتنا کہ آج بجلی کے بڑے بڑے قمقموں میںنظر آتا ہے ، دیے کے ساتھ ہی ایک گڑھے میں تیل بھری بوتل ہوتی تھی ،سرسوں کایہ تیل خواتین دیاکرتی تھیں وہ جب بھی کوئی منت مانتی تھی تو ’’مسجد کاتیل ‘‘ بھی ضرورمانتی تھی کہ اگر میرایہ کام ہوگیا تو میں مسجد کو اتنے پیالے تیل دوں گی، کبھی منت پوری ہونے سے پہلے بھی تیل دے دیتی تھیں، ان دنوں گاؤں کے کسان سرسوں کاایک کھیت ضرورکاشت کرتے تھے جس سے ساگ اورتیل حاصل کیے جاتے تھے، باقی مسجد کے بس دو ہی اخراجات تھے جس کے لیے کبھی کبھی چندہ اکٹھا کیاجاتا تھا ،کوزے اورکنوئیں کی رسی یاڈول چرخی کے لیے ۔
پھر یوں ہوا کہ آبادی بڑھ گئی تو اسی مسجد کے کچھ لوگ باہرکھیتوں میں رہنے لگے تو وہاں ایک اورمسجد بھی بن گئی ، پھر کچھ عرصہ بعد ہماری پرانی مسجد بھی پکی ہوگئی ، فرش وفروش اورچندے کادھندہ شروع ہوگیا ، نئی مسجد میں بھی کچھ عرصہ تک ایسا چلتا رہا پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ مسجدیں تو الگ الگ ہوگئی ہیں لیکن کم ازکم عیدین کی نماز تو ہم اکٹھی پڑھ سکتے ہیں کہ ایک قوم اورمسجد کے لوگ ہیں ،عقیدہ بھی ایک ہے ، تجویز اچھی تھی، سب نے اتفاق کرلیا ، عید آئی تو دونوں مساجد کے لوگ باہرایک پہاڑی نالے کے کنارے اکٹھے ہوگئے، بزرگوں نے نوجوان بھیج کرپہلے ہی جگہ ہموار کرائی تھی اورچونے کی لکیریں بھی کھینچی گئی تھیں ، لوگ بڑے خوش تھے، اس لیے بڑی محبت سے ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے ، امام پر بھی اتفاق ہوگیا کہ پرانی مسجد کاپیش امام عمر میں زیادہ تھے ۔
نمازپڑھی گئی تو پرانی مسجد والوں نے چادر پھرانی شروع کی، یہ چندے کاطریقہ تھا ،دوآدمی ایک چادر کو دونوں سروں سے پکڑے ہوئے تھے اورایک بڑی سی جھولی بناکر صفوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلتے تھے اورلوگ اس میں حسب استطاعت چندہ ڈالتے تھے، یہ طریقہ کچھ عرصہ پہلے شروع ہواتھا ، ہرجمعے پریہ چادر پھرائی جاتی تھی۔اب پرانی مسجد کے لوگ چادر پھرا کر وصولی کرنے لگے تو نئی مسجد والوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی جس کانتیجہ یہ نکلا کہ پرانی مسجد کی چادرجیسے ہی آخر تک پہنچ کر رک گئی، نئی مسجد کی چادر نئے سرے سے شروع ہوئی ، بیچارے نمازی تو پہلی چادر میں جتنا ڈالنا تھا ڈال چکے تھے چنانچہ نئی چادر میں بہت کم چندہ پڑا۔
اگلی عید پر لوگ اکٹھے تو ہوئے لیکن نئی مسجد والوں نے پھڈا ڈال دیا کہ پہلی چادر ہم پھرائیں گے، بالائی اس مرتبہ ہم لیں گے ۔بحث شروع ہوئی ہرمسجد والے اپنی اپنی مسجد کے منتظمین کی تائید کرنے لگے ۔ جھگڑا تیز ہوتا گیا شوربڑھتا گیا ، آخر نوبت گالیوں تک پہنچ گئی وہ تو اچھا ہوا کہ چند بزرگوں نے دونوں فریقوں کو الگ کرکے معاملہ قابو میں کرلیا اورخون خرابہ ہوتے ہوتے رہ گیا، لیکن دونوں فریقوں نے وہ نماز اسی ایک جگہ پر الگ الگ پڑھی اورچادر بھی الگ الگ پھرائی گئی۔ اتفاق سے نئی مسجد کاامام ویزہ لگنے پر بیرون ملک چلا گیا تو نئی مسجد والوں نے دانستہ ایسا امام چنا جو ایک نئے عقیدے کاعلم بردار تھا اورپرانے عقائد کے خلاف بولتا تھا چنانچہ مساجد کے نام بھی الگ الگ پڑگئے ۔
لاؤڈ اسپیکر تو دونوں کے پاس تھے اس لیے خوب گولہ باری ہونے لگی ، عیدوں پر بھی اختلاف ہونے لگا ۔ جب ایک مسجد والے عید ہونے کااعلان کرتے تو دوسرے مسجد والے عید نہ ہونے کااعلان کردیتے، اس طرح ایک مسجد کے ایک پرجوش مسلمان کی رگ جہاد پھڑکی تو دوسری مسجد کے لوگ جب عید کی نماز پڑھ رہے تھے اس نے کلاشن کوف سے باران شہادت کردی۔زخمی تو بہت سارے ہوئے لیکن چار شہادت کو پہنچ گئے، پورے علاقے کے لوگوں نے امن کی کوشش کی تو امن قائم ہوگیا پھر شہیدوں کے معاملے پر بھی راضی نامہ ہوگیا، جرم جرمانے ہوئے اورآیندہ کے لیے سخت ضمانتیں لی گئیں۔
آج کل خیریت ہے لیکن دونوں مساجد والے احتیاط کے طورپر مسلح نماز پڑھتے ہیں بلکہ مسجدوں میں بھی اسلحہ موجود رہنے لگا ہے ۔شاید چندوں سے خریدا ہوا۔
جو میں سربسجود ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نمازمیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسجد والوں الگ الگ مسجد کے کی نماز کے لوگ
پڑھیں:
پنجاب سے ’را‘ کے 6 سہولت کار گرفتار، مسجد اور ریلوے اسٹیشن پر حملوں کی منصوبہ بندی بے نقاب
لاہور:کراچی سے بھارتی ایجنسی را کے چار دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی پنجاب نے مختلف اضلاع سے را کے چھ سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا۔
اس حوالے سے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب شہزادہ سلطان، ایس ایس پی آپریشنز سی ٹی ڈی پنجاب وقار عظیم نے لاہور میں پریس کانفرنس کی۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کے سینئر افسران نے مشترکہ پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کو دشمن ملک کی سازش کی تفصیلات اور سی ٹی ڈی کی کامیابیوں سے آگاہ کیا۔
یہ پڑھیں : کراچی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے 4 دہشت گرد گرفتار، اہم انکشافات
پولیس کے مطابق سی ٹی ڈی نے چھاپے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے دھماکا خیز مواد اور ڈیٹونیٹرز برآمد کرلیے، بہاولپور میں دبئی سے فنڈنگ کرنے والا ’’را‘‘ کا سہولت کار رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا، بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) سے براہ راست IEDs حاصل کرنے والے 2 افراد بہاولنگر سے گرفتار کرلیے گئے۔
سی ٹی ڈی نے بہاولپور میں مسجد اور ریلوے اسٹیشن پر حملے کی منصوبہ بندی بے نقاب کر دی۔ ’’را‘‘ افسران میجر رویندرا راٹھور اور انسپکٹر سنگھ کی آڈیو انٹرسیپٹس (intercepts) حاصل کرلی گئیں۔
دہشت گردوں سے IEDs، حفاظتی فیوز اور خفیہ نقشے برآمد ہوئے۔ بھارت سے ملنے والی ہدایات میں ٹارگٹ کلنگ اور حساس مقامات پر حملے شامل تھے۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب شہزادہ سلطان نے بتایا کہ انڈین دہشت گرد ایجنسی ’’را‘‘ کے گرفتار 6 سہولت کار پاکستانی شہری ہیں، یہ سہولت کار پاکستان میں رہ کر بھارتی ایجنسی را کے لئے کام کرتے تھے، را اپنی فنڈنگ دبئی سے کرپٹو کرنسی اور برانچ لیس کے ذریعے بھیجتی ہے۔