data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ سیاستدان آپس میں بات کریں فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ترجمان پاک فوج نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں، فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے، جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ انٹرویو 18 مئی کو آئی ایس پی آر میں ریکارڈ کیا گیا تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بعض بین الاقوامی میڈیا ٹیموں کو انٹرویوز دیے تھے جن میں بی بی سی بھی شامل تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟جس پر ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں، میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا، ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔ غیر ملکی نشریاتی ادرے کے صحافی نے سوال کیا کہ حال ہی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ کا الزام لگا، ان تمام واقعات کے دوران یہ تاثر بھی موجود رہا کہ انہی سیاسی مداخلت کے الزامات کی وجہ سے فوج کی صفوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کے لیے پھیلائی گئی افواہ قرار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے، لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے، یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے،اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں، ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ غیر نشریاتی ادارے کے نمائندے نے سوال کا کہ پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ فوج اپنی اصل ذمے داری یعنی دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اب وہ دیگر شعبوں جیسے معیشت، ٹیکنالوجی اور انتظامی امور میں بھی اثر انداز ہو رہی ہے، فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سویلین معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور فوج اپنے مینڈیٹ سے ہٹ رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب میں کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے، میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے، جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں، ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں، یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے، ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے، یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر لیفٹیننٹ جنرل کرتے ہیں ہیں اور کے لیے ہے اور کہا کہ

پڑھیں:

سیاست جمہوریت اور آئین کی حکمرانی

پاکستان میں سیاست ،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کو اقتدار میںموجود طبقات اپنی سیاسی طاقت کے طور پر بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔یہ روایت نئی نہیں بلکہ ماضی کی سیاسی،قانونی اور آئینی تاریخ اسی بنیادی نقطہ کے گرد گھومتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری ریاست کا تصور کمزور جمہوریت اور کمزور آئینی حکمرانی کے گرد گھومتا ہے۔

اس وقت بھی پاکستان سیاسی ،جمہوری اور آئینی یا قانونی جدوجہد کے عمل سے گزر رہا ہے کیونکہ اس عمل نے ہمیں ایک کمزور سطح کی ریاست کے طور پرکھڑا کردیا ہے ۔ حکومت کا آئین میں ترمیم کرنا اس کا سیاسی و قانونی حق ہے ۔لیکن جائزہ اس نقطہ پر لیا جاتا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی مدد سے جو کچھ ترمیم کرنا چاہتی ہے، اس کی ضرورت کیونکر پیش آرہی ہے اور کیا ترامیم میں جو طور طریقہ اختیار کیا جارہا ہے وہ جمہوری اور آئینی تقاضوں کو کس حد تک پورا کرتا ہے یا یہ عمل سیاست ،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی پر کیا مثبت اور منفی اثرات ڈالے گا۔اسی بنیاد پر ترامیم اپنی ساکھ کو ریاست کے نظام میں قابل قبول بناتی ہیں۔

یہ امر بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جو ترامیم کی جارہی ہیں وہ اداروں یا حکومت کو جوابدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور کیا اسی اصول کی بنیاد پر ترمیم کی جا رہی ہے۔اگر ایسا نہیں تو اس کے پیچھے آئین اور قانون سے زیادہ سیاسی مقاصد کا ہونا لازمی امر ہے اور اس سیاسی مقصد میں بھی حکومتی یا شخصی مفاد کی اہمیت زیادہ ہے۔کیونکہ اگر ترامیم کا عمل ادارہ جاتی نظام کی بہتری کے بجائے عملی سطح پر شخصی افراد کے گرد گھومتا ہے تو اس کا دائرہ انھیں افراد کی طاقت تک محدود ہے۔

حکومت نے اس وقت 27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے اپنا سیاسی لنگوٹ کس رکھا ہے ۔وفاقی کابینہ نے اس ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے اور حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی میں ترمیم مسودہ پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر گفتگو جاری ہے۔پیپلز پارٹی نے ابتدائی طور پر آرٹیکل 243اور ملک میں آئینی عدالتوں کی تشکیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔جب کہ این ایف سی ایوارڈ،18ویں ترمیم میں ترمیم کی مدد سے تعلیم یا صحت سمیت پاپولیشن کے شعبوں کو صوبوں سے وفاق میں منتقل کرنے،ججز ٹرانسفر،دوہری شہریت اور الیکشن کمیشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

جب کہ مولانا فضل الرحمن کے بقول اگر آرٹیکل 243میں ترمیم سے سویلین بالادستی ،آئین اور پارلیمنٹ یا جمہوریت پر اس کے منفی اثرات پڑے یا صوبوں کے اختیارات میں کمی کی گئی تو اس کی کھل کر مخالفت کی جائے گی ۔اسی طرح ان کے بقول 26ویں ترمیم کے دست بردار ہونے والے نکات 27ویں ترمیم میں بھی قابل قبول نہیں ہونگے۔

اگرچہ حکومت کا موقف ہے کہ27ویں ترمیم اتفاق رائے سے لائی اور منظور کی جائے گی۔لیکن جو حالات ہیں وہ یہ دکھا رہے ہیں کہ جس طرح سے حکومت نے 26ویں ترمیم کو سیاسی افراتفری اور عجلت میں ارکان اسمبلی کو اعتماد میں نہ لیا اور اس پر کھل کر پارلیمانی یا پارٹی یا میڈیا فورم پر گفتگو سے گریز کیا تھا، وہی حکمت عملی اس وقت 27ویں ترمیم کی منظوری کی صورت میں بھی دیکھی جارہی ہے۔بلکہ حکومت کے سیاسی اور صحافتی پنڈت جو بااثر ہیں ان کے بقول 27ویں ترمیم ہر صورت منظور ہوگی اور اس کی منظوری کے سوا حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں یا حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ 26ویں ترمیم کی منظوری کے فوری بعد 27ویں ترمیم کیونکر ضروری ہے ۔فیصل واڈا ایک قدم آگے جاکر کہتے ہیں کہ اس ترمیم کی منظوری کا بڑا ٹاسک حکومت کو دیا گیا ہے اور اس کی منظوری ہر صورت ہونی ہے ۔ ان کے بقول اگر معاملات اس حالیہ 27ویں ترمیم کے تحت بھی پورے نہیں ہوئے تو پھر 28ویں ترمیم کو بھی لایا جاسکتا ہے ۔سوال یہ بنتا ہے کہ اگر یہ ترمیم واقعی حکومت کی ضرورت نہیں تو پھر یہ کس کی ضرورت ہے اور کس نے حکومت کو یہ ٹاسک دیا ہے اور وہ اس ترمیم کی مدد سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پہلے ہی اس نظام کو ہم جمہوری نظام کے مقابلے میں ہائبرڈ نظام کا نام دے رہے ہیں یا کچھ اسے ہارڈ ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔اس نظام میں جمہوریت کہاں ہے یا کہاں کھڑی ہے اس پر حکمران طبقہ نہ صرف خاموش ہے بلکہ وہ ہمیں ہائبرڈ نظام کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بقول یہ ہی نظام ہمیں ترقی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔

27ویں ترمیم کے تحت ملک میں آئینی عدالتوں کا قیام،مجسٹریسی نظام کی بحالی ،ججز کے تبادلے میں رضامندی کی شق کا خاتمہ،کمانڈ آف آرمڈ فورس کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی ،قومی مالیاتی کمیشن میں ترمیم ، تعلیم، صحت اور آبادی کے نظام کو صوبوں سے وفاق میں منتقلی ،الیکشن کمیشن سے متعلق ڈیڈ لاک کا خاتمہ یا نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں موجود رکاوٹ ،فیلڈ مارشل کے آئینی عہدے کو تحفظ دینا یا تاحیات برقرار رکھنا یا کمانڈر ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، صدر، وزیر اعظم کو استثنیٰ ،از خود نوٹس کا اختیار ختم ،عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ پر بھی لاگو ،نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا نیا عہدہ ،جیسے امور شامل ہیں ۔

کہا جارہا ہے کہ اگر 27ویں ترمیم حکومتی ایجنڈے کے تحت منظور ہوجاتی ہے تو اس سے یہ ترامیم آئین کے نمایاں خدوخال کو متاثر کرسکتی ہے۔اس ترمیم کے پیچھے بہت سے قانونی ماہرین کے بقول بنیادی مقصد اس وقت آئین کے آرٹیکل 243میں ترمیم ہے جو مسلح افواج کو کنٹرول اورکمانڈ کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کی تقرری سے متعلق ہے اور اسی طرح عدلیہ کو اپنے ماتحت کرنا یا اس کی آزادانہ حیثیت یا خود مختاری کو کمزور کرنا بھی حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ہر حکومت ہر سطح پر عدالت اور ان کے فیصلوں کی مزاحمت سے خود کو بچانا یا محفوظ کرنا چاہتی ہے۔یعنی اس کا مقصد ایگزیکٹو کو مزید طاقت دینا اور قانونی تحفظ فراہم کرنا مقصود ہے ۔

اصولی طور پر جمہوری نظام میں سب سے اہم بات کسی بھی طرز کی بڑی آئینی ترامیم یا منظوری سے قبل ایک بڑی سیاسی مشاورت کو ممکن بنانا ہوتا ہے ۔یہ کام پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث کا تقاضہ بھی کرتا ہے ۔کیونکہ اگر حکومت یہ کام اپنی عددی برتری پر کرتی ہے اور سب کو اعتماد میں لینے سے گریز کرتی ہے تو اس سے ہونے والی ترامیم عملاً متنازعہ شکل میں سامنے آتی ہے جو ایک بڑی سیاسی اور قانونی تقسیم کے عمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔اب بھی 27ویں ترمیم کے پس منظر میں حکومت اور اتحادی جماعتوں پر دباؤ کی سیاست یا اتحادی جماعتوں کی طرف سے اس ترمیم کی حمایت پر سیاسی جوڑ توڑ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

پیپلزپارٹی پر دباؤ سب سے زیادہ ہے اور 18ویں ترمیم میں مجوزہ ترمیم پر اس کے تحفظات ہیں ۔وہ ان تحفظات کی بنیاد پر اپنی سیاسی طاقت کو ہر صورت بچانا بھی چاہتی ہے اور وہ آزاد کشمیر میں بننے والی نئی حکومت میں اپنا بڑا حصہ بھی دیکھنا چاہتی ہے۔موجودہ حالات میں ترمیم کی منظوری بالخصوص ہائبرڈ یا ہارڈ اسٹیٹ کی موجودگی میں یہ سب کچھ ممکن ہے اور اسی بنیاد پر اس کا سیاسی اسٹیج سجایا گیا ہے۔لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس ترمیم کی منظور ی کے بعد یہاں سیاست،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کا کیا سیاسی مستقبل ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • سیاست جمہوریت اور آئین کی حکمرانی
  • “غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا”، اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگے گا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ کی زمین پرترکیہ کے کسی فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا؛اسرائیل
  • پی ٹی آئی جتنا پارلیمنٹ سے دور جائیگی اتنا سیاست سے دور جائیگی،طلال چودھری
  • افغان طالبان حکومت دہشتگردوں کو پناہ دے رہی ہے ،غلط بیانی سے گریز کریں،پاکستان کا انتباہ
  • پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
  • شاہد آفریدی کونسی سیاسی پارٹی میں آنا چاہتے تھے؟ ویڈیو وائرل
  • بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی عبوری حکومت سے مذاکرات پر رضامند