اسرائیلی حملوں میں شہید سائنسدانوں، فوجی کمانڈرز کی نماز جنازہ تہران میں ادا کردی گئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے ایرانی سائنسدانوں، فوجی افسران اور عام شہریوں کی نمازِ جنازہ تہران کے مرکزی علاقے میں ادا کی گئی، جہاں ہزاروں سوگواروں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ شہداء کو الوداع کہا۔
ایرانی خبررساں ادارےکے مطابق شہداء کی آخری رسومات کے لیے تہران کی سڑکیں انسانی سمندر میں تبدیل ہو گئیں۔ جنازے کا جلوس مرکزی انقلاب چوک سے شروع ہو کر تہران یونیورسٹی تک پہنچا، جہاں صدر مسعود پزشکیان، کابینہ کے اراکین، اعلیٰ عسکری قیادت اور ہزاروں شہریوں نے شہداء کے تابوتوں کو قومی پرچم میں لپٹا دیکھ کر احترام میں سر جھکا دیے۔
فضا نعرہ تکبیر، لبیک یا حسین اور اسرائیل مخالف نعروں سے گونجتی رہی۔ جنازے کے موقع پر عوامی جوش و جذبے نے ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم اپنے شہداء کو بھولنے والی نہیں، اور ہر قدم پر ان کے خون کی حرمت کا دفاع کرے گی۔
شہداء میں وہ اعلیٰ جوہری سائنسدان اور فوجی کمانڈرز بھی شامل تھے جو 13 جون کو اسرائیل کے اُس فضائی حملے میں شہید ہوئے، جس نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا تھا۔ حملے کے ردعمل میں ایران نے فوری طور پر جوابی کارروائی شروع کی، جس میں تل ابیب، حیفہ اور دیگر اسرائیلی علاقوں میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
12 دن تک جاری رہنے والی شدید جھڑپوں میں دونوں جانب سے تابڑ توڑ حملے کیے گئے۔ 22 جون کو حالات اس وقت مزید بگڑ گئے جب امریکا نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا اور ایرانی شہروں فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری مراکز پر بمباری کی۔
اس کے اگلے ہی روز، ایران نے آپریشن “بشارتِ فتح” کے تحت عراق اور قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مشرقِ وسطیٰ کی فضا مزید کشیدہ ہو گئی۔
صورتحال میں تبدیلی اس وقت آئی جب قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا، جس کے بعد ایرانی قیادت نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی جنگ روکنے پر رضامندی ظاہر کی۔
فی الوقت ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نافذ العمل ہے اور خطے میں ایک عارضی سکون قائم ہو چکا ہے، تاہم عوامی غم و غصے اور تہران کی سڑکوں پر امڈتے ہوئے ہجوم اس تلخ حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، عزت و وقار اور خودمختاری کی جنگ بھی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیلی حملے میں بچوں سمیت مزید 11 فلسطینی ہلاک
اسرائیلی حملے میں بچوں سمیت مزید 11 فلسطینی ہلاک اٹلی نے فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے دوسرا بحری جہاز بھیج دیا بھارت: لداخ میں خونریز احتجاج کے بعد کرفیو نافذ حوثی باغیوں کا ڈرون حملہ، جنوبی اسرائیل میں 22 افراد زخمییمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغے گئے ایک ڈرون کے نتیجے میں بدھ کے روز جنوبی اسرائیلی شہر ایلات میں کم از کم 22 افراد زخمی ہوئے۔
یہ اسرائیل کی انتہائی جدید میزائل دفاعی نظام کی ایک نایاب خلاف ورزی تھی، جس نے ایسے حملوں سے ہلاکتوں کو بہت حد تک روکا ہوا ہے۔ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغی اسرائیل پر باقاعدگی سے ڈرون اور میزائل داغتے رہے ہیں، جسے وہ فلسطینیوں کی حمایت قرار دیتے ہیں۔
حوثیوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اسرائیل پر دو ڈرون داغے۔
(جاری ہے)
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایکس پر ایک پوسٹ میں حوثیوں کو خبردار کیا کہ ’’جو بھی اسرائیل کو نقصان پہنچائے گا، اسے سات گنا نقصان پہنچایا جائے گا۔‘‘اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے ڈرون کو روکنے کی کوشش کی۔ میگن ڈیوڈ ایڈم ریسکیو سروس نے بتایا کہ زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا، جن میں سے دو شدید زخمی ہیں۔
اسرائیلی حملے میں بچوں سمیت مزید 11 فلسطینی ہلاکجمعرات کو وسطی غزہ میں ایک گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہو گئے، جہاں نقل مکانی کرنے والے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیل نے تباہ حال فلسطینی علاقے پر اپنے حملے مزید تیز کر دیے ہیں۔
غزہ سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل نے کہا، ’’ایک اسرائیلی فضائی حملے نے الزوائدہ کے شمال میں ایک گھر کو نشانہ بنایا، جس میں نقل مکانی کرنے والے لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔
اس حملے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور کئی لاپتہ یا زخمی ہو گئے۔‘‘ایمرجنسی سروسز نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں کئی بچے بھی شامل ہیں اور ان کی لاشیں قریبی ہسپتال منتقل کی گئی ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دو سال سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں کم از کم 65,419 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد سمجھتا ہے۔یہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی، جس میں 1,219 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
علاقے میں میڈیا پر پابندیوں اور کئی علاقوں تک رسائی میں مشکلات کی وجہ سے نیوز ایجنسیاں سول ڈیفنس یا اسرائیلی فوج کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتیں۔
غزہ شہر پر اسرائیلی حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب اقوام متحدہ کے ایک تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیل پر غزہ پٹی میں ’’نسل کشی‘‘ کا الزام عائد کیا۔ اسرائیل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
اٹلی نے فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے دوسرا بحری جہاز بھیج دیا
اٹلی نے غزہ تک امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والے بین الاقوامی امدادی قافلے فلوٹیلا کی حمایت میں مزید ایک بحری جہاز بھیجا دیا ہے۔
فوٹیلا کو ڈرون حملوں کا خطرہ لاحق ہے۔گلوبل صُمُوڈ فلوٹیلا (جی ایس ایف) تقریباً 50 سول کشتیوں پر مشتمل ہے تاکہ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑی جا سکے۔ ان کشتیوں پر بہت سے وکلاء اور کارکن موجود ہیں، جن میں سویڈش ماحولیاتی مہم جو گریٹا تھن برگ بھی شامل ہیں۔
اطالوی وزارت دفاع کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’ہم نے ایک جہاز بھیجا ہے اور دوسرا رستے میں ہے، جو کسی بھی حالات کے لیے تیار ہے۔
‘‘اٹلی نے بدھ کو پہلا فریگیٹ بھیجا تھا، جب ’جی ایس ایف‘ کو بین الاقوامی پانیوں میں ڈرونز نے نشانہ بنایا۔ جی ایس ایف نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس الزام کا براہ راست جواب نہیں دیا بلکہ فلوٹیلا کو دعوت دی کہ وہ امدادی سامان کو اسرائیلی بندرگاہ پر چھوڑ دیں، جہاں سے اسرائیلی حکام اسے غزہ پہنچائیں گے ورنہ نتائج بھگتیں۔
دریں اثنا اسپین نے بھی فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے ایک فوجی جنگی جہاز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارت: لداخ میں خونریز احتجاج کے بعد کرفیو نافذبھارت کے ہمالیائی علاقے لداخ میں جمعرات کو سکیورٹی فورسز نے سڑکوں پر گشت کیا، جہاں ایک دن قبل پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس علاقے کے کئی حصوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
لداخ میں مقامی لوگ ریاستی حیثیت کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کے کوٹے کی بحالی کے مطالبات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصادم میں زخمی ہونے والے 80 افراد میں سے چھ کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے اور پولیس نے تشدد کے سلسلے میں 50 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا کہ احتجاج میں 30 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
ٹیلی ویژن فوٹیج میں فوجیوں کے گشت کے مناظر دکھائے گئے، جبکہ کرفیو کی وجہ سے اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کی جانب سے ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کی کال کے باعث دکانیں اور کاروبار بند تھے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس علاقے کے سیاسی، سماجی اور تجارتی گروہوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
لداخ سے پارلیمنٹ کے رکن محمد حنیفہ نے ایکس پر لکھا، ’’میں طلبہ کی ہلاکتوں کی منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور وقت پر تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے سوگوار خاندانوں کے لیے امداد اور ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو جوابدہ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
لیہ میں جمعرات کو سڑکوں کے کناروں پر ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں والی خراب شدہ گاڑیاں اب بھی کھڑی تھیں۔
یہ بدھسٹ-مسلم اکثریتی علاقہ، جو چین سے متصل ہے، سن 2019 میں اپنی خودمختاری سے محروم ہو گیا تھا، جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اسے جموں و کشمیر سے الگ کر کے نئی دہلی کے براہ راست زیر انتظام لے آئی تھی۔
لیہ اور مسلم اکثریتی کارگل، جہاں 1999 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع ہوا تھا، اس علاقے کے دو سب سے زیادہ آبادی والے اضلاع ہیں۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے بدھ کو کہا کہ پولیس کو فائرنگ کا سہارا لینا پڑا، جب ایک ہجوم نے ایک سیاسی جماعت کے دفتر پر حملہ کیا اور پولیس کی ایک گاڑی کے ساتھ ساتھ لیہ کے چیف ایگزیکٹو کونسلر کے دفتر کو نذر آتش کر دیا۔
کے ڈی اے کے قانونی مشیر حاجی غلام مصطفیٰ نے بدھ کی پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی اور کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے لداخ میں ہونے والے احتجاج ہمیشہ پرامن رہے ہیں۔
انہوں نے اے این آئی نیوز ایجنسی کو بتایا، ’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا۔‘‘