اسلام آباد ( اپنے سٹا ف رپو رٹر سے ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سوات واقعہ پر پوری قوم رنجیدہ ہے، صوبائی حکومت کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو نہیں کرسکی، عوام کی فلاح و بہبود کا پیسہ اور وسائل احتجاج اور دھرنوں پر استعمال کیا گیا اور اب کہتے ہیں کہ خیمے لگانا میرا کام نہیں ، ڈی سی کو معطل کرنے کی بجائے وزیراعلی خیبرپی کے کو استعفی دینا چاہیے تھا، خیبرپی کے میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں، ملک کے خلاف ٹویٹ کرنا ہو تو تحریک انصاف سب سے آگے ہوتی ہے۔ وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کے ساتھ اہم پریس کانفرنس سے خطابمیں وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ قدرتی آفا ت کے دوران ریلیف کی فراہمی متعلقہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت صوبائی حکومتیں یہ ذمہ داری نبھاتی ہیں اور لوگوں کو ریلیف مہیا کرتی ہیں۔ پرویز الہی ہمارے سیاسی مخالف ہیں مگر ریسکیو 1122 کا قیام چوہدری پرویز الہی کا اچھا اقدام ہے، جب ہماری حکومت آئی تو 1122ریسکیو سروسز کو نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک میں پھیلایا گیا اور کے پی میں بھی یہ سروس موجود ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ دریائے سوات پر ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا وزیراعظم نے بھی اس واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔  وزیراعلی خیبرپی کے نے اڈیالہ میں بیس کیمپ قائم کیا ہوا ہے، کیا خیبرپختونخوا کی عوام نے آپ کو مینڈیٹ اس بات کا دیا تھا کہ آپ ورک فرام اڈیالہ کریں۔ عوام نے آپ کو عوامی خدمت کے لئے مینڈیٹ دیا تھا۔ سوات سیاحت کا مرکز ہے مگر 12  برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے انفراسٹرکچر کو تباہ کردیا ہے، ریسکیو کا نظام قائم نہیں کیا جاسکا کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود پھنسے لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا گیا، خیبرپی کے کا وہ ہیلی کاپٹر جو بانی پی ٹی آئی غیر قانونی طور پر استعمال کرتے تھے اور وزیراعلی بھی پورے صوبے میں اس ہیلی کاپٹر پر پھرتے ہیں، وہ ریسکیو کارروائی کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ بیچارے سیاح خواتین اور بچوں سمیت اپنی زندگی بچانے کے لئے چیخ و پکار کرتے رہے مگر اتنے گھنٹے گزرنے کے باوجود ان کی مدد کو کوئی نہیں آسکا۔ یہ سیاحوں کی نہیں تحریک انصاف کے نظام کی موت ہوئی ہے۔ علی امین گنڈا پور کا اصل کام اسلام آباد پر چڑھائی کرنا اور لوگوں کو ڈنڈے فراہم کرنا ہے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا کوئی بہادری اور کارنامہ نہیں ہے۔ اتنا بے حسی کا عالم ہے کہ 9 سے 12 لاشیں دریا سے نکالی گئیں اور وزیراعلی کہہ رہے ہیں کہ میں وہاں خیمے دینے بیٹھ جائوں ؟ یہ میرا کام نہیں ہے، کیا لوگوں کی زندگیاں بچانا آپ کا کام نہیں ہے؟ لا اینڈ آرڈر، لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو ٹھیک کرنا آپ کا کام نہیں ہے؟ اچھی یونیورسٹیاں بنانا آپ کا کام نہیں ہے؟ آپ کا کام اسلام آباد پر حملہ کرنا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، گالی گلوچ کرنا ہے؟۔ پی ڈی ایم اے کو صوبوں میں آفات سے نمٹنے کے لئے بنایا گیا ہے، عوام کے ٹیکس کا پیسہ پی ڈی ایم اے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ خیبرپی کے میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔ ڈی سی کا کیا قصور ہے، آپ کی کرپشن کے قصے ہیں، اربوں روپے کا کوہستان سکینڈل بھی سامنے آیا ہے جس کا نیب نے نوٹس لیا ہے، غریب عوام کا پچاس کروڑ روپیہ اپنے صوابدیدی فنڈ میں ڈالا گیا۔ خیبرپی کے حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، بارہ سال کی حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی تھی، اب عوام کی جانیں جانے کے بعد دریا کے کنارے تجاوزات یاد آگئیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ اینٹی انکروچمنٹ آپریشن کریں گے، آپ پنجاب سے موازنہ کرلیں، مریم نواز نے پہلے ہی پورے صوبے کے ضلعوں کے اندر اینٹی انکروچمنٹ آپریشن شروع کرادیا ہے جبکہ انہیں آئے ہوئے ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوئے۔ کیا جانیں چلی جائیں تو اس کے بعد فیصلے ہوتے ہیں، لیڈر شپ دور اندیش ہو تو یہ فیصلے کسی حادثے سے بچنے کے لئے وقت سے پہلے کرتی ہے۔ پوری ایڈمنسٹریشن چیف سیکرٹری سمیت سوات میں موجود ہے مگر لوگوں کو ریسکیو کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ورک فرام اڈیالہ کب تک چلے گا۔ کاش آپ لا اینڈ آرڈر اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں نمبر ون آتے اور ایمرجنسی سروسز اور ریلیف کے حوالے سے اپنا پورا نظام وضع کرتے تو ہم آپ کو کہتے کہ آپ نے کمال کردیا۔ آپ پورے نظام کو معطل کریں ایک ڈی سی کو معطل کرنے سے کیا ہوگا۔ کے پی حکومت کی توجہ سیاسی کاموں، انتشار اور کرپشن پر ہے، ایک سیاحتی مرکز پر پہلے سے اقدامات کئے جاتے اور لوگوں کو بروقت ریسکیو کیا جاتا۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم نے اپوزیشن سے مصافحہ کیا، پارٹی الیکشن کروانا قانون کے مطابق تحریک انصاف پر فرض تھا، جب آپ نے قانون کے تقاضے پورے نہیں کئے اس کے نتیجے میں آپ کا انتخابی نشان چلا گیا تو پھر اس جماعت کو ریزرو سیٹیں کیسے مل سکتی ہیں جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے ایم ڈبلیو ایم جوائن کرنی تھی، ایم ڈبلیو ایم کا پارلیمان میں وجود تھا مگر انہوں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا جو الیکشن میں موجود ہی نہیں تھی۔ چیف سیکرٹری کو وہاں جانے کی ضرورت نہیں تھی، وزیراعلی کو خود جانا چاہیے تھا، جب اسلام آباد میں آکر سوات کے بارے میں جواب دیا جاتا ہے تو وزیراعلی کی بے حسی پر سوال اٹھتا ہے۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

کپڑوں کا بینک

اپنے ملک کی برائیاں تو ہر دم سننے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم اس کام سے ایک منفی لذت کشید کرتے ہیں۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ مادر وطن میں خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ عرض کرنے میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اگر اچھائیاں تلاش کرنے کی سعی کی جائے تو وہ بھی ان گنت ہیں۔ سماج کے اکثر لوگ بہترین ہیں۔ ان کی اچھائی ہر منفی نکتہ پر غالب ہے۔

اس کا عموماً ذکر نہیں ہوتا۔ ایک اور سنجیدہ بات بھی ہے۔ لوگوں کی واضح اکثریت ‘ اپنی اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ بہتر کام کرنے کی تڑپ ضرور رکھتی ہے۔ اس میں عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ۔ دوسروں کی کیا بات کروں ۔ بذات خود‘ طویل عرصہ‘ اس تذبذب میں مبتلا رہا کہ کون سا ایسا راستہ اختیار کروں‘ جس سے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے میں مدد ملے۔ ذاتی طور پر خاموش طبع انسان ہوں۔ طبیعت کے برعکس بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا۔

اچھی باتیں بھی سننے کو ملیں۔ مگر‘ اکثر لوگ‘ دوسروں کی مدد‘ ذاتی شان و شوکت کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شبہ نہیں کر رہا۔ذاتی یقین ہے کہ نیکی یا اچھے کام کاڈھنڈھوراا نہیں پیٹنا چاہیے۔ کسی پسے ہوئے مرد یا خاتون کی دل سے مدد کر رہے ہیں۔ تو اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ کوئی ایسی تصویر نہ بنوائیں، جس سے چہرے پر محض ایک وہیل چیئر دینے پر مسرت کے جذبات ہوں ‘ اور جس معذور کو یہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے، اس کا سر جھکا ہوا نظر آئے۔ دراصل‘ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنا‘ بذات خود ایک انعام ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے آپ کو تمانیت اور عزت کی تھپکی ہے۔ جس کی لذت کا اندازہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔

چار برس پہلے کی بات ہے۔ چند پرانے دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کا پروگرام بنا۔ لاہور کے گلبرگ میں ان گنت ریستوران ہیں۔ ہم سات آٹھ دوست تھے۔ بوفے میں چالیس پچاس کھانے آویزاںتھے۔ لذت دہن کمال تھی ۔ بل تقریباً پچاس ہزار روپے آیا۔ میزبان کے لیے‘ یہ رقم بڑی معمولی سی تھی۔ کیونکہ وہ صاحب ثروت انسان ہیں۔

بہر حال میں سوچ میں پڑ گیا۔ اتنے پیسوں میں تو متعدد‘ مستحق انسانوں کو دو چار ہفتے کھانا مہیا کیا جا سکتا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ میرے یہ تمام دوست کاروبار سے منسلک ہیں۔ اور دولت میں کھیل رہے ہیں۔ اس کھانے کے چند ہفتے کے بعد ‘ تمام دوستوں کو مدعو کیا۔ وقت مقررہ پر جب سارے آ گئے۔ تو انھیں‘ ڈیفنس لاہور کے نزدیک ایک گاؤں کے تندور پر لے گیا۔ ڈیسپوزیبل پلیٹیں پہلے لے چکا تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی موجود تھیں۔ اس تندور پر مزدور‘ راج مستری اور اسی سطح کے پچیس تیس لوگ اطمنان سے کھانا کھا رہے تھے۔

ہم سارے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بڑے سکون سے سادہ سا کھانا کھا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آٹھ بندوں کے کھانے کابل صرف سترہ سو روپیہ آیا۔ دال اتنی لذیذ تھی کہ معلوم پڑتاتھا کہ شاید اس سے پہلے‘ دال نہیں بلکہ کچھ اور ہی کھاتے رہے ہیں۔ یقین فرمائیے۔ کسی بھی دوست نے برا نہیں منایا۔ اب تو یہ ریت سی بن گئی ہے کہ جب بھی ہم تمام دوستوں نے ملنا ہو‘ گپیں لگانی ہوں تو ہم کسی ڈرائیور ہوٹل یا تندور پر جا کر کھانا کھاتے ہیں۔ اس روٹین کو تقریباً چار برس ہو چکے ہیں۔

 سب کچھ عرض کرنے کا ایک مقصد ہے۔ ہم میں سے اکثریت ‘ حد درجہ مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کو سادگی کی طرف لے کر آئیں۔ تصنع سے نفرت فرمائیے۔ مقابلہ بازی سے مکمل پرہیز کیجیے۔ یقین فرمائیے۔ آپ کی زندگی سکون میں آ جائے گی۔ اب ذرا آگے چلیے۔ دوسرے لوگوں کے لیے آسانیاں کس طرح پیدا کی جائیں۔ ذہن میں رہے کہ اس اچھے کام کا انحصار آپ کے صاحب ثروت ہونے میں نہیں ہے۔بلکہ آپ کی ذہنی سوچ پر ہے۔ دولت‘ قدرت کا ایک انعام ضرور ہے۔ مگر یہ حاصل ِزندگی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ہاں یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ اگر آپ اپنے مال و دولت کو لوگوں کے مسائل حل کرنے پر صرف کریں ۔ تو اس شخص کی نسبت زیادہ پھیلاؤ سے کام کر سکتے ہیں۔

جس کے وسائل محدود ہیں۔ پر یہ پھر خدائی فیصلہ ہے۔ کہ اگر ایک شخص ‘ حد درجہ کم وسائل میں بھی ‘ لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرتا ہے تو اس کا اجر‘ کتنا کثیر ہو گا؟ س کو صرف اور صرف خدا کی مرضی پر چھوڑ دیجیے۔ انسانوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو وسائل سے زیادہ ‘ پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔ شاید آپ کو میری اس بات پر بالکل یقین نہ آئے۔ مگر سچ یہی ہے۔ اپنے گھر میں ذاتی کپڑوں پر نظر دوڑائیے۔ اندازہ ہو گا کہ بہت سے ایسے لباس ہیں۔ جو آپ کی نظر سے اوجھل ہیں۔ اسے عرصے سے استعمال ہی نہیں کر رہے۔ ان تمام کپڑوں کو جمع کیجیے۔

انھیں دھلوائیے‘ لفافے میں پیک کیجیے ۔ باہر جایئے۔ آپ کی دانست میں کوئی بھی ایسا شخص نظر آئے۔ جو مستحق ہو‘ اسے کپڑوں کا ایک جوڑادے دیجیے۔ کسی صلہ کی توقع مت کریں۔ اجنبی شخص کے چہرے پر جو وقتی مسکراہٹ نمودار ہو گی۔ وہی آپ کا زاد راہ ہے۔ یہ بہت آسان کام ہے۔ اس کے لیے اضافی وسائل بھی درکار نہیں ہیں۔ خواتین کو نئے کپڑے بنانے کا فطری شوق ہے۔ یہ جبلت ‘انھیں قدرت نے ودیعت کی ہے۔ اکثر خواتین ‘ فرامو ش کر جاتی ہیں۔ کہ ان کی الماری میں کتنے پرانے سوٹ موجود ہیں جو عرصے سے انھوں نے زیب تن نہیں کیے۔ گمان ہے۔

کہ پچاس سے ساٹھ فیصد ملبوسات ایسے نکل آئیں گے۔ جنھیں کافی مدت سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ بلکہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی موجود ہیں۔ فیصلہ فرمایئے ۔ جو ملبوسات ‘ آپ کی ضرورت سے زیادہ ہیں ‘ جنھیں فراموش کیا جا چکا ہے۔ انھیں جمع کیجیے۔ صاف کیجیے ۔ اور پھر کسی بھی مستحق خاتون کو تحفتاً دے دیجیے۔ اس بہترین عطیہ سے جو سکون آپ کو خدا کی طرف سے نصیب ہو گا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ امیر‘ متوسط ‘ بلکہ ہر سطح کے مرد اور خواتین‘ یہ سادہ سا کام کر سکتی ہیں۔ یہ کئی معاشرتی اور معاشی مشکلات کا حل بھی ہے۔ ذاتی بات بھی عرض کرتا چلوں۔ کیونکہ یہ نہ ہو کہ آپ کے ذہن میں آئے کہ کیا میں بھی یہ کر رہا ہوں یا صرف اور صرف لفاظی ہے۔

سرکاری اور نجی سطح پر‘ ان گنت ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔شرٹس‘ جوتے‘ پرفیوم اور استعمال کی دیگر اشیاء غیر ممالک سے خریدتا تھا۔ ٹائیاں جمع کرنے کا شوق بھی تھا۔ دس برس پہلے‘ ذہن میں ایک نایاب فکر نمودار ہوئی۔ جو پختہ درپختہ ہوتی چلی گئی۔ مکمل طور پر سادگی کی طرف آ گیا۔ قیمتی لباس پہننے ختم کر ڈالے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ بیش قیمت ترین ملبوسات ‘ جوتے اور ٹائیاں‘ ان لوگوں اور نوجوانوں میں تقسیم کر دیں جن کو انھیں‘ مجھ سے زیادہ ضرورت تھی۔

اب دو چار کرتے شلوار ہیں۔ تین چار عام سے کوٹ پینٹ ہیں۔ ضرورتیں محدود سے محدود تر کر دی ہیں۔یہ نہیں کہ اجلے کپڑے زیب تن نہیں کرتا۔ صاف ستھرے لباس استعمال کرتا ہوں۔ آج ذہنی طور پر حد درجہ آسودہ اور مطمئن ہوں۔ یہ ذاتی تجربہ اگر سہل نہ ہوتا ۔ تو شاید میں سادہ زندگی کی طرف کبھی مائل ہی نہ ہو پاتا۔اس معمولی سے ذاتی تجربہ نے کم از کم میری زندگی کو بہتری کی طرف تبدیل کردیا۔

اب اسی نکتے کو یکسر دوسری طرح دکھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پورے ملک کے لوگوں سے مخاطب ہوں۔ بچے‘ بوڑھے ‘ نوجوان‘ بچیاں ‘ گھریلو خواتین‘ ورکنگ وومن‘ سب سے گزارش کررہا ہوں۔ ذاتی سطح پر تو آپ فالتو لباس تقسیم ضرور کیجیے۔ مگر اس کو ایک نظام سے مربوط فرما دیجیے۔ جس شہر‘ قصبہ‘ دیہات میں قیام پذیر ہیں۔ رشتہ داروں‘ دوستوں‘ سہیلیوں کو جمع کیجیے۔ بتایئے کہ آپ کو پرانے کپڑوں کی ضرورت ہے۔ مدعا بیان کیجیے کہ مقصد صرف اور صرف حاجت مند لوگوں کو صاف ستھرا لباس مہیا کرنا ہے۔ اس کوشش کو آپ کوئی نام بھی دے دیجیے۔ ’’کلاتھ بینک‘‘ کپڑوں کا بینک یا کوئی بھی دوسرا نام۔کسی بھی نام میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ اس بینک کو محلہ کی سطح سے شروع کیجیے۔

ہو سکتا ہے کہ چند لوگ‘ آپ کا مذاق اڑائیں۔ انھیں ٹھٹھہ لگانے دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا پر پختہ یقین فرمائیے۔ معمولی سا نظر آنے والا کام‘ پورے ملک کے سفید پوش لوگوں کو تن ڈھانپنے کا باعزت ذریعہ بن جائے گا۔ اور ہاں‘ کوشش کیجیے ۔ کہ کپڑوں کو تقسیم کرتے وقت کوئی تصویر نہ بنائیں۔ اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ یہ کام خدا کی راہ میں کرنا ہی صائب ہے۔ بے خوف ہو جایئے۔

قدرت ‘ آپ کو ‘ اس کوشش میں ایسے تھامے گی‘ کہ ششدر رہ جائیں گے۔اس اس انہونی جگہ سے خدا‘ وسائل اور عظم عطا فرمائیں گے جن کے متعلق آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ویسے تو یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نکمی‘ نکھٹو اور بے درد حکومتوں سے کسی قسم کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے آج ہی پختہ ادارہ فرمائیے۔ لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کی کوشش تو کیجیے۔ پھر دیکھیے ‘ رب العزت کی ذات آپ کے لیے کون کون سے دروازے کھولتی ہے۔ یقین فرمائیے کہ قدرت کی فیاضی کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • قائد اعظم کےپاکستان سے نوآبادیاتی قوانین کو ختم کرنا چاہئے ،تجزیہ کار
  • اگر ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیاں ہیں تو مودی کو استعفیٰ دے دینا چاہیئے، ابھیشیک بنرجی
  • میں نے کوئی استعفیٰ نہیں دیا؛ خواجہ آصف
  • میں نے کوئی استعفیٰ نہیں دیا، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • مریم نواز وزیراعلیٰ بعد میں ہے پہلے میری بیٹی ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف کی استعفیٰ دینے کی خبروں کی تردید
  • انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
  • خیبر پختونخوا، بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کے بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
  • 7 ڈمپرز جلنے کا واقعہ، غفلت برتنے پر 3 ایس ایچ اوز معطل، علاقے میں آپریشن
  • کپڑوں کا بینک