data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مزاج کی خرابی تعلقات خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔ دوسروں کے جذبات کا لحاظ نہ کرنا، بات بات پر غصہ ہوجانا، چھوٹی بات پر بڑا ردّعمل ظاہر کرنا، دوسروں کے مذاق کو برداشت نہیں کرنا یا دوسروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کرنا، جلدی ناراض ہونا اور دیر تک ناراض رہنا، بلند آواز میں بات کرنا، تلخ لہجے میں بات کرنا، اپنی پسند پر اصرار کرنا اور دوسرے کی پسند کو اہمیت نہ دینا، کم سننا اور زیادہ بولنا، غرض ایسی بہت سی خرابیاں ہیں جو انسان کو دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہونے دیتی ہیں۔ آپ اگر اپنی ان خرابیوں کو خود دریافت کرسکیں اور ان سے چھٹکارا پالیں تو تعلقات کی دنیا میں یہ آپ کی بڑی کامیابی ہوگی۔
اس کے علاوہ اگر آپ کے اندر یہ ظرف پیدا ہوجائے کہ دوسروں کی مزاجی خرابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے اچھے تعلقات رکھ سکیں، تو آپ تعلقات کی دنیا میں بڑی فتح حاصل کرسکتی ہیں۔
گویا کامیابی کی کلید یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں اور دوسروں کی کمزوریوں کو انگیز کرلیں۔
خوش مزاجی کی بدولت آپ عورتوں کے سماج میں آسانی سے نفوذ کرسکتی ہیں۔ جب کہ بدمزاجی ایسی کمزوری ہے جو انسان کو بہت محدود کرکے رکھ دیتی ہے۔ آ پ کی عمدہ شخصیت کے لیے خوش مزاجی ضروری ہے۔ مسکرانا نیکی ہے اور دوسروں کو مسکرانے کا موقع دینا بھی نیکی ہے۔
انصار سے تعلق رکھنے والی ایک بچی سویداءؓ تھی، وہ سیدہ عائشہؓ کے یہاں آیا کرتی، ان کو اپنے تماشے دکھاتی اور ہنساتی تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ نبی کریمؐ سیدہ عائشہؓ کے یہاں آتے اور وہ بچی وہاں ہوتی تو دونوں ساتھ ہنسا کرتے۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ کچھ عرصہ غائب رہی، نبیؐ نے اس کی کمی کو محسوس کیا اور کہا: عائشہ سویداء کا کیا حال ہے؟ انھوں نے کہا وہ بیمار ہے۔ آپ نے اس کی عیادت کی۔ اسی بیماری میں اس کی وفات ہوگئی تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور دعا کی: اے اللہ، وہ مجھے ہنسانے کی فکر کرتی تھی، اسے خوشیوں سے مالا مال کرکے ہمیشہ ہنسنے والا بنادے۔ (العقد الفرید)
لوگوں کو ہنسانے اور ماحول کو خوشگوار اور فرحت بخش بنانے والے خوش مزاج افراد انسانوں کے محسن ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت بہت سے لوگوں کا غم ہلکا ہوتا ہے اور وہ زندگی کا لطف پاتے ہیں۔
آپ خوش مزاج بنیں۔ اور اپنی خوش مزاجی سے لوگوں کو خوش مزاج بننے کی ترغیب دیں۔
جن خواتین کے دل تنگ ہوتے ہیں ان کے گھر چاہے کتنے بڑے ہوں، کشادہ نہیں لگتے، تنگ قبر یا قید خانہ لگتے ہیں۔ خاندان اور پڑوس کی خواتین ان کے گھر جانے سے کتراتی ہیں۔ ایسی عورتیں اپنے قریبی سماج سے بھی الگ تھلگ زندگی گزارتی ہیں اور اس وجہ سے خاندان اور پڑوس کی اصلاح میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔
بڑا گھر اللہ کی نعمت ہے، شرط یہ ہے کہ اس نعمت کی قدر کی جائے۔ اگر آپ کا دل اور گھر دونوں کشادہ ہیں، تو آپ کا گھر خاندان اور پڑوس کا مرکز بن جاتا ہے۔ آپ کے گھر میں دینی مجلسیں منعقد ہوسکتی ہیں، دینی تعلیم کا مدرسہ چل سکتا ہے اور سماجی بہبود کی بہت سی سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں۔
اور اگر آپ کا گھر چھوٹا ہو لیکن دل بڑا ہو تو بھی آپ کا گھر سماجی رابطے میں بہترین رول ادا کرسکتا ہے۔
اپنے گھر آنے والی خواتین کا بے تکلفی اور خندہ پیشانی سے استقبال کریں۔ مٹھائیوں سے ضیافت کے تکلف میں پڑنے کے بجائے میٹھی باتوں سے ضیافت کریں، تاکہ لوگوں کو بار بار آنے میں تکلف نہ ہو اور آپ پر بار بار کی ضیافت بھاری بوجھ نہ بن جائے۔ اس بات کا ضرور خیال کریں کہ آپ کا گھر طنزیہ باتوں، فتنہ انگیز تبصروں اور زہرناک غیبتوں کا اڈّا نہ بننے پائے، وہاں ایسی گفتگو ہو جس سے اللہ راضی ہو اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی رغبت ملے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا پ کا گھر دوسروں کے لوگوں کو
پڑھیں:
یقیں نہ کرنا، بہت اندھیرا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-03-7
باباالف
زمانہ اور اس کے روزو شب بدل رہے ہیں۔ بالکل بدل جانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ پرانی دنیا اختتام پذیر ہورہی ہے۔ مغربی نظریات، تصورات، احساسات اور کوششیںسند باد کے بحری اسفار کی طرح پیچھے رہ گئی ہیں۔ جنات، حسین دوشیزائیں، دیو قامت مغربی جنگی پرندے اور نظام، ایک دروازہ تھا جو بتدریج بند ہورہا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں لاکھ آوارہ گردی رہی لیکن واپس اپنے ماضی کی طرف ہی آنا ہے۔ خلافت راشدہ کے اسلامی نظام کی طرف۔
پاک سعودی معاہدے کے پیدا کردہ جوش وخروش میں ابھی تک یہ علم نہیں کہ یہ باقاعدہ پیکٹ ہے یا پھر عام معاہدہ یا اگریمنٹ۔ بجا طور پرایک سرخوشی اور نشاط کا عالم ہے۔ سعودی بھائی اور ہم یک جان دو قالب تو ابتدا سے رہے ہیں اب شہر کے چھٹے ہوئے غنڈوں اور مسٹنڈوں کے خلاف بھی معاہدے کی ڈوری میں بندھ گئے ہیں۔
ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف تو اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس معاہدے میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اشارہ اس طرف تھا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی نیو کلیئر شیلڈ یا کور فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی پھیلائو (Nuclear proliferation) کی حدود وقیود سے یہی وہ تجاوز ہے مغربی اور بھارتی میڈیا نے ابھی سے جس کا طبلہ سارنگی بجانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے یہاں خراب وخوار ہونے کی ایک دورخی ریت چلی آرہی ہے کہ مخاطب اپنے مسلمان بھائی ہوں تو اسلامی جذباتیت کا ایٹم بم ہمراہ ہوتا ہے اور اگر خطاب رائٹرز (Reuters) سے ہوتو مسلم وابستگی کا ہیجان زنگ آلود اور نیم جان ہوکر انکار میں بدل جاتا ہے۔
اس معاملے میں ابہام ہے کہ اگر ہم سعودیہ کو نیو کلیئر چھتری مہیا نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ کیا ہے جس کی سعودیہ کو کمی ہے۔ معاملہ بس اتنا تو نہیں ہے کہ عربوں کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ’’اربوں‘‘ کی۔ یا پھر یہ کہ امریکا اپنی دفاعی چھتری کی بہت زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتا تھاجب کہ پاکستان سے یہ سستے داموں مل گئی ہے۔ معاہدے کے ضمن میں امریکا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی گرہیں بھی پیٹ پھاڑ کر کلیجہ چبانے تک آگئی ہیں کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک کو امریکا پر بھروسا نہیں رہا۔ بیوگی کی چادر عرب بھائیوں سے امریکا تک تن گئی ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے جاپان امریکا طرز کے دفاعی معاہدے میں ’’نکی جئی نا‘‘ حائل ہوگئی ہے اور بس۔
امریکا ہمیں جو دے ہے نہیں لیتے ہم
کونین بھی گو دے ہے، نہیں لیتے ہم
ہم لیتے ہیں جس ڈھب سے نہیں دیتا وہ
جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے نہیں لیتے ہم
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا میلہ اور بازار پہلی مرتبہ نہیں لگا۔ یہ سلسلہ 1967 سے شروع ہوا۔ 1979 میں مسجد الحرام پر قبضے کے بعد محبت میں اضافہ مزید گہرا ہوا جب پاکستانی اسپیشل فورسز نے سعودی فوجیوں کو مسجد الحرام پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد دی۔ 1982 میں سیکورٹی تعاون کے معاہدے کے ذریعے سعودی فوجیوں کو پاکستانی تربیت، مشاورت اور معاونت سعودی سرزمین پردی جانے لگی جس میں بعض اوقات 20 ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔
دسمبر 2015 میں ’’اسلامی ملٹری کائونٹر ٹیررازم کو لیشن IMCTC‘‘ وجود میں آیا جو 43 اسلامی ممالک کے درمیان دہشت گردی کی بے چہرہ امریکی جنگ میں شرکت کا اتحاد تھا۔ 6 جنوری 2017 کو اس اتحاد کو بوسہ دینے کے لیے پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فورس کے پہلے کمانڈر جنرل کے عہدے کے لیے سعودی عرب کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ آج بھی وہی اس فورس کی کمان کررہے ہیں۔ یہ فورس آج کہاں ہے؟ سعودی فرمانروائوں کے کن محلات کی حفاظت کررہی ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ اگر یہ اسلامی دنیا کا اتحاد اور مسلم ناٹو تھا تو غزہ میں مداخلت کیوں نہیں کررہا ہے جہاں ناپاک صہیونی وجود بنام اسرائیل ہر مسلمان مردو عورت کو شہید اور ہر عمارت کو تباہ کررہا ہے۔ کیا صرف سعودیوں اور پاکستانیوں کے خون کی حرمت کعبہ کی حرمت سے سوا ہے؟ اہل غزہ کے خون، جان اور مال کی کوئی حرمت نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے اتحاد کی موجودگی میں نیا اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک سنی اتحاد تھا۔
پاکستان اور سعودی عرب کا ہی سنگم نہیں ہوا ہے آج کل ترکی اور مصر کا اتحاد بھی بغیر کسی اعلان کے جاری ہے جن کے درمیان 2016 کے بعد خاصے اختلافات رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان آج کل فوجی مشقیں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی قطر کے ساتھ ساتھ دیگر سات اسلامی ممالک پر اسرائیل کے حملے قراردیے جارہے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ مصر کا فرعون جنرل سیسی بھی امریکی ڈارلنگ ہے جس کو سالانہ ایک سے دو ارب ڈالر امریکی امداد ملتی ہے، آئی ایم ایف کے قرضے بھی ملتے ہیں صرف اس ایک شرط پر امریکا کے سامنے سرتسلیم ہی نہیں پورے کا پورا سربسجدہ رہنا ہے۔ اسرائیل بھی امریکا کا بغل بچہ ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوان بھی امریکا کی گڈ بک میں ہیں۔ تینوں کی امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ہے۔ پاک سعودی اتحاد ہو یا ترک مصر اتحاد ان ممالک کی حکمران اشرافیہ اپنے اپنے فائدے کے لیے نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہورہا امریکا کی رضا اور مرضی سے۔ امریکا چاہتا ہے کہ خطے کے بڑے ممالک آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ ان کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی ہوحالانکہ ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہیں ہے مگر امریکا کے سب قابل قدر شراکت دار ہیں تاکہ امریکا ایران، روس اور چین پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھے۔
تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے جو اپنے حکمرانوں سے شدید نا خوش ہیں خصوصاً امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے۔ ان اتحادوں سے حکمران عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکا سے دور ہورہے ہیں اور امریکا اور اسرائیل کے خلاف باہم متحد ہورہے ہیں۔ یہ اتحاد عوام کو ٹھنڈا اور خوش کرنے کے لیے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کا اس سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ عوام کو خوش کن ترانے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ان مسلم حکمرانوں کی کوئی شخصیت ہے اور نہ یہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اسرائیل سے اتنی ہی نفرت ہے تو قطر پر حملے کے فوری بعد امارات اور تل ابیب کے درمیان فلائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ سفارتی تعلقات کیوں منقطع نہیں کیے گئے۔ آج بھی ائر دبئی کی روزانہ تین مرتبہ فلائٹس اسرائیل جاتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے معاہدوں سے ان حکمرانوں کی مدت اقتدار طویل ہوجاتی ہے، پاکستان جیسے ملک کے حکمرانوں کو عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے وافر ڈالرز مل جاتے ہیں۔ رہے عوام اور ملک وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلام کا نظام چاہتے ہیں۔ آج بھی ان کے خوابوں، خیالوں اور نظریات میں خلافت راشدہ کے نظام کے سوا کچھ نہیں۔ آخر میں کالم کی ابتدائی سطریں دوباہ پڑھ لیجیے۔