اسلام آباد: دنیا کی بہترین جامعات کی درجہ بند کرنے والے ادارے کیو ایس کی 2026 کی درجہ بندی جاری کردی گئی ، جس میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہیں سکیں۔

کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2026 کے مطابق اس درجہ بندی میں دنیا کی سرفہرست 1500 جامعات کو شامل کیا گیا، جو دنیا بھر کے 100 مختلف مقامات پر قائم ہیں۔
اعداد وشمار میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 500 جامعات کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، جن میں ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی کی درجہ بندی میں 120 سے زائد درجہ بہتری آئی ہے، جو سب سے بہتری کارکردگی ہے۔
کیو ایس رینکنگ کے مطابق درجہ بندی 2026 میں پاکستان کی 18 جامعات کو عالمی سطح کے 1500 اعلیٰ اداروں میں شامل کیا گیا تاہم پاکستان کی ایک بھی جامعہ دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔
پاکستان کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والی جامعات میں وفاقی دارالحکومت میں قائم قائد اعظم یونیورسٹی ہے جو 354 اور نسٹ 371 نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
 جامعہ کراچی 1001 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ سندھ کی کوئی اور جامعہ 1500 جامعات میں بھی جگہ نہیں بناسکی۔
 اسی طرح پنجاب یونیورسٹی 542، لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنس 555 نمبر پر، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد 654 ویں نمبر میں شامل ہے، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد 664، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجنئیرنگ اینڈ اپلائڈ سائنز 721 نمبر پرہے۔
 پاکستان کی دیگر جامعات میں یو ای ٹی لاہور 801، پشاور یونیورسٹی 901 اور لاہور یونیورسٹی کا 951 نمبر ہے، بہأالدین زکریا یونیورسٹی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی 1201 نمبر اور اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور 1401 درجہ پر رہی۔
دنیا کی 10 بہترین جامعات میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا پہلے نمبر پر، امپیریل کالج لندن برطانیہ دوسرے، اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکا تیسرے، یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ چوتھے، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا پانچویں اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چھٹے نمبر پر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: یونیورسٹی ا ف پاکستان کی جامعات میں دنیا کی

پڑھیں:

دنیا بھر میں گردوں کے بڑھتے امراض عالمی بحران  کی شکل اختیار کر گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کے مختلف خطوں میں صحت کے نظام اس وقت ایک ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس کی جانب ماہرین برسوں سے توجہ دلا رہے تھے۔

نئی سائنسی رپورٹ کے مطابق گردوں کے دائمی امراض کی شرح ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اموات کا سبب بننے والی بڑی بیماریوں میں مسلسل اوپر جا رہے ہیں۔ اس مشترکہ تحقیق کو امریکا اور برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوں اور ہیلتھ میٹرکس کے اداروں نے مل کر تیار کیا ہے، جس میں تین دہائیوں کے اعدادوشمار کا نہایت باریک تجزیہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر میں تقریباً 38 کروڑ افراد گردوں کے امراض کا شکار تھے، مگر آبادی میں اضافے، طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور طبی سہولیات تک عدم رسائی جیسے عوامل کے باعث یہ تعداد 2023 تک بڑھ کر تقریباً اناسی کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ یعنی گزشتہ 30 برس میں گردوں کے مسائل دوگنے سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور یہ اضافہ نہ صرف انتہائی تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک بڑے بحران کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد حصہ کسی نہ کسی درجے کے گردوں کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا، کیونکہ گردوں کے بیشتر مسائل ابتدائی مراحل میں کوئی نمایاں علامات ظاہر نہیں کرتے۔

تحقیق کاروں نے بتایا کہ جب تک مریض کو اپنے اندر کچھ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے، تب تک بیماری اکثر اس سطح پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں علاج پیچیدہ تر ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ صرف سال 2023 میں گردوں کے امراض کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 15 لاکھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔

تحقیق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گردوں کی کارکردگی کمزور ہونے سے دل کے مریض بننے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ جسم میں زہریلا مواد جمع ہونا شریانوں اور اعصاب پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس مرض کو ایک خاموش قاتل قرار دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرتا ہے۔

رپورٹ میں عام علامات کی تفصیل بھی دی گئی ہے جنہیں نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً مسلسل تھکاوٹ، نیند میں خلل، جلد پر خارش اور دانوں کا ظاہر ہونا، ہاتھوں، چہرے یا پیروں میں سوجن، مسلز میں کھچاؤ، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، بھوک میں کمی اور وزن کا تیزی سے گھٹ جانا وہ علامات ہیں جو گردوں کے خراب ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے 133 ممالک کے طبی ڈیٹا اور 2230 تحقیقی مقالہ جات کا تجزیہ کیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ گردوں کے امراض اب ان مسائل میں شامل ہیں جن کے علاج اور احتیاط دونوں پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے سرطان، دل کے امراض اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ دی جاتی ہے ویسے ہی گردوں کی صحت کو بھی عالمی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا، ورنہ آنے والے برسوں میں اس بیماری کا بوجھ صحت کے نظام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
  • نیوزی لینڈ کو ون ڈے فارمیٹ میں 46 سال بعد بڑا اعزاز حاصل
  • آئی سی سی رینکنگ جاری، ڈیرل مچل ون ڈے کے نمبر ون بیٹر بن گئے
  • ون ڈے رینکنگ میں بابراعظم کو بہترین کارکردگی کا انعام مل گیا
  • بھارت کے روہت شرما کی ایک روزہ کرکٹ میں حاکمیت ختم، پاکستان کے ابرار احمد ٹاپ 10 میں شامل
  • دنیا بھر میں گردوں کے بڑھتے امراض عالمی بحران  کی شکل اختیار کر گئے
  • عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ
  • اسرائیل کی جنگ معاہدے کی خلاف پرعالمی طاقتوں کی خاموشی افسوسنا ک ہے
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروسزمتاثر: کلاؤڈ فلیئراور پی ٹی اے کا بیان بھی آگیا
  • پاکستانی طلبا کے لیے سنہری مواقع، اس مہینے سے شروع ہونے والی دنیا کی بہترین اسکالرشپس کونسی ہیں؟