ویب ڈیسک : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن (یومِ اطفال) منایا جا رہا ہے.

اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کی بہترین پرورش کیلئے والدین میں شعور بیدار کرنا ہے تاکہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔

 اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 20 نومبر 1989 کو بچوں کیلئے مخصوص کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو درپیش مسائل کا سدباب اور ان کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا ہے۔

آئندہ برس مون سون کے نقصانات سے بچنے کیلئے ابھی سے تیاری کی جائے؛ وزیراعظم

عالمی یوم اطفال پر والدین میں بچوں کی بہترین تربیت کے لئے شعور بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ ابتدائی عمر میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ کھیل اور سیر وتفریح کے مواقع فراہم کریں تاکہ ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما میں اضافہ ہو، بچوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود اور بہترین تعلیم و تربیت کسی بھی قوم کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت گھروں، ہوٹلوں، کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دیگرکاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے جہاں ان پر مبینہ طور پر تشدد کیا جاتا ہے اور اُجرت بھی بہت کم دی جاتی ہے,معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف مؤثر کارروائی ناگزیر ہے۔

پنجاب حکومت کا غیر قانونی مقیم افغانیوں کی اطلاع دینے والوں کیلئے نقد انعام کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی یومِ اطفال کے موقع پر اپنے اہم پیغام میں کہا کہ پاکستان دنیا کے ساتھ مل کر بچوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے، رواں سال 2025ء کا عالمی یوم اطفال میرا دن، میرے حقوق کے عنوان سے منایا جا رہا ہے، جو بچوں کے بنیادی حقوق کی ادائیگی، ان کی نشوونما اور زندگی کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے بچوں سے جڑا ہوتا ہے لہٰذا عالمی سطح پر بچوں کی خوشحالی اور فلاح کے لئے مشترکہ تعاون ناگزیر ہے۔

پنجاب؛ آئمہ کرام کے وظیفے کی منظوری و نگرانی کا نیا نظام تیار

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق میں ذہنی و جسمانی نشوونما، مکمل تحفظ اور معیاری تعلیم و تربیت اہم کردار ادا کرتی ہیں، بچوں کے حقوق کی ادائیگی کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مؤثر اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، حکومت پاکستان اس سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کر رہی ہے۔

شہباز شریف نے بتایا کہ بچوں کے خلاف پرتشدد واقعات کے سدباب کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں، ساتھ ہی ملک بھر میں ہونہار بچوں کو جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لئے دانش سکول پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

نیوز نائٹ ،18 نومبر 2024

وزیراعظم نے یاد دلایا کہ تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے، جس کا بنیادی مقصد سکول سے باہر بچوں کو فوری طور پر تعلیمی دائرے میں لانا ہے۔

انہوں نے تمام والدین، اساتذہ اور معاشرے سے اپیل کی کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتر تربیت میں اپنا کردار ادا کریں، آخر میں وزیراعظم نے عہد کیا کہ پاکستان اپنے بچوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور تعلیم یافتہ مستقبل دینے کیلئے پوری قوت سے کوشاں ہے۔

امریکا نے پاکستانی طلبا کو بڑی خوشخبری سنادی

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: بچوں کے حقوق بچوں کی بچوں کو رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

ڈیجیٹل قبرستان

آج کے ڈیجیٹل دور میں، سب سے بڑی طاقت آزادی اظہار (Freedom of Expression) کی ہے۔ لیکن جب دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی یوٹیوب سیاسی دباؤ کے سامنے جھک کر سچ کو مٹانا شروع کر دے تو ذرا سوچیے کیا ہوتا ہے؟

یہ صرف سنسر شپ نہیں، بلکہ یہ جنگی جرائم کے ثبوتوں کو مٹانے کا ایک منظم عمل ہے جو کہ اہل فلسطین پر ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کیا جارہا ہے۔ اس عمل نے ایک طرح سے عالمی سچائی اور آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

یوٹیوب نے فلسطینی حقوق کی تنظیموں کی 700 سے زیادہ ویڈیوز مٹا کر ثابت کردیا ہے کہ طاقتوروں کے حق میں، سچائی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

یہ خوفناک حقیقت امریکی ویب سائٹ ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ (The Intercept) کی رپورٹ میں سامنے آئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یوٹیوب نے اکتوبر 2025 میں خفیہ طور پر فلسطینی انسانی حقوق کی تین اہم ترین تنظیموں کے اکاؤنٹس کو اپنے پلیٹ فارم سے مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔ یہ تنظیمیں الحق (Al-Haq)، المیزان سینٹر (Al Mezan Center)، اور فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق (PCHR) تھیں۔

یہ تینوں تنظیمیں طویل عرصے سے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کی دستاویزی ریکارڈنگ میں مصروف تھیں۔ یوٹیوب نے ان چینلز کے آرکائیوز سمیت تمام مواد کو مٹادیا، جس میں شیرین ابو عاقلہ (Shireen Abu Akleh) کے قتل کی تحقیقات اور غزہ میں نسل کشی سے متعلق ویڈیوز شامل تھیں۔

یوٹیوب کے اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ عالمی اداروں کے لیے اب ان 700 سے زیادہ شواہد تک پہنچنا ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ ایک طرح سے تاریخی ریکارڈ کو مٹانے کا عمل ہے۔

یوٹیوب کی اس کارروائی کی جڑیں امریکی حکومتی دباؤ میں پیوست ہیں۔ ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، یہ فیصلہ ایک منظم مہم کے تحت کیا گیا جس کا مقصد فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے احتساب کی کوششوں کو کچلنا تھا۔ یہ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب یہ تینوں تنظیمیں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے ساتھ تعاون کر رہی تھیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ان تنظیموں پر خصوصی پابندیاں عائد کردیں۔ یوٹیوب نے ان پابندیوں کو اپنی پالیسی کا حصہ قرار دیا اور اکاؤنٹس بند کردیے۔

یوٹیوب نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ وہ امریکی محکمہ خارجہ کی پابندیوں کی تعمیل کےلیے پابند ہے۔ یہ عمل واضح کرتا ہے کہ یوٹیوب نے اخلاقی اصولوں پر سیاسی اور تجارتی مفادات کو ترجیح دی۔ ڈان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لیا وِٹسن نے کہا کہ یوٹیوب کا اس طرح آسانی سے جھک جانا افسوسناک ہے اور یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تحریکوں کےلیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اسی طرح الضمیر (Addameer) قیدیوں کی حقوق کی تنظیم کا اکاؤنٹ بھی برطانوی لابی (UK Lawyers for Israel) کے کہنے پر بند کیا گیا تھا، جو دباؤ کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔

مسبار (Misbar) کی ادارتی ٹیم نے اس معاملے پر گہرا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یوٹیوب برابری کا سلوک نہیں کررہا۔ مسبار نے نشاندہی کی کہ یوٹیوب نے ایک طرف فلسطینیوں کے شواہد پر مبنی مواد کو ہٹایا، لیکن دوسری طرف اسرائیلی پروپیگنڈا کو پلیٹ فارم پر کھلی چھوٹ دی۔ مثال کے طور پر، یوٹیوب نے اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایسے نفرت انگیز اشتہارات اور مواد کو نہیں روکا جو جنگ کی حمایت کرتے تھے اور فلسطینیوں کے خلاف غصہ اور تشدد کو بڑھاوا دیتے تھے۔ یہ ایک دہرے معیار کی واضح مثال ہے۔

یوٹیوب نے اسرائیل پر تنقید کرنے والے مواد بنانے والوں پر سخت پابندیاں لگائیں، جیسے ان کی ویڈیوز سے کمائی بند کردی گئی، تاکہ وہ مالی دباؤ میں آکر سچ بولنا چھوڑ دیں۔ یہاں تک کہ یوٹیوب کے اپنے ملازمین نے بھی اندرونی طور پر اس ناانصافی پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے ایک اسرائیلی ریپ گانے کا حوالہ دیا جس میں فلسطینیوں کے خلاف واضح اکساہٹ تھی، مگر کمپنی نے اسے نہیں ہٹایا۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ یوٹیوب کا مقصد کمیونٹی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا نہیں، بلکہ طاقتور فریق کے ایجنڈے کو فروغ دینا ہے۔

یوٹیوب کی اس کارروائی کے نتائج انتہائی خوفناک اور طویل مدتی ہوں گے۔ یہ صرف ایک پلیٹ فارم کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ عالمی ڈیجیٹل نظام کے زوال کا اشارہ ہے۔

احتساب کا قتل: ان ثبوتوں کے مٹ جانے سے، جنگی جرائم کے ملزمان کو سزا دلوانا ناممکن ہوجائے گا۔ فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ یوٹیوب کا یہ فیصلہ ’’مجرموں کو احتساب سے تحفظ‘‘ فراہم کرتا ہے۔ جب عالمی عدالتوں کے پاس ثبوت ہی نہیں ہوں گے، تو عالمی قوانین بے معنی ہوجائیں گے۔

سچ کی موت اور خود سنسر شپ: جب حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کا مواد بھی محفوظ نہیں رہے گا، تو عام شہری اور کارکن خوفزدہ ہو کر سچ بولنا چھوڑ دیں گے۔ انہیں ڈر ہوگا کہ ان کی محنت ضائع ہوجائے گی اور ان کے اکاؤنٹس بند ہوجائیں گے۔ یہ رجحان خود سنسر شپ (Self-Censorship) کی ایک لہر پیدا کرے گا، جس سے صرف طاقتوروں کا جھوٹا بیانیہ عالمی سطح پر غالب آجائے گا۔ ہماری آئندہ نسلیں صرف ایک ہی سچ کو تاریخ مانیں گی۔

ٹیکنالوجی پر کنٹرول: یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں حکومتوں کے سامنے جھکنے پر تیار ہیں۔ یوٹیوب کی پیرنٹ کمپنی گوگل نے ایک فلسطینی حامی طالب علم کی ذاتی جی میل کی معلومات امریکی امیگریشن ایجنسی (ICE) کو فراہم کی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا نجی ڈیٹا بھی محفوظ نہیں۔ حکومتیں اب ٹیک کمپنیوں کو استعمال کر کے نہ صرف مواد ہٹا رہی ہیں بلکہ شہریوں کی نگرانی بھی کر رہی ہیں۔

عالمی نظیر کا خطرہ: سارہ لیا وِاٹسن نے خبردار کیا کہ یہ اقدام ایک خطرناک نظیر ہے۔ آج اگر یوٹیوب امریکی دباؤ پر جھکتا ہے، تو کل اسے چین، روس، یا کسی بھی دوسرے ملک کے دباؤ پر اس کے مفادات کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانا پڑے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کے ذریعے آمریت (Digital Dictatorship) کو عالمی سطح پر مضبوط کرے گا۔

یوٹیوب کا یہ فیصلہ ہمارے لیے ایک آخری وارننگ ہے۔ اگر ہم نے آج اس ڈیجیٹل سنسر شپ کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل ہماری اپنی آزادی، تاریخ اور سچائی بھی اسی طرح مٹا دی جائے گی جیسے آج فلسطینیوں کی ویڈیوز مٹا دی گئی ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر ان کمپنیوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ انصاف کے اصولوں پر قائم رہیں، اور ہمیں متبادل پلیٹ فارمز کی تلاش کرنی ہوگی جو حکومتی دباؤ سے آزاد رہیں۔ اس جنگ میں خاموش رہنا، ظلم کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • بچوں کے عالمی دن پر صبا قمر کا اہم پیغام
  • عالمی یومِ اطفال 2025: صدرِ مملکت اور وزیراعظم کا بچوں کے حقوق کے تحفظ اور معیاری تعلیم کی فراہمی پر زور
  • عالمی یومِ اطفال، وزیراعظم شہباز شریف کا بچوں کے حقوق اور تعلیم پر خصوصی پیغام
  • تعلیم، تحفظ اور نشوونما بچوں کا بنیادی حق، وزیر اظم کا عالمی چلڈرن ڈے پر خصوصی پیغام
  • علماء خطبات جمعہ میں ملکی حالات سمیت اسلامی تربیتی امور پر گفتگو کریں، علامہ افتخار نقوی
  • ڈیجیٹل قبرستان
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروسزمتاثر: کلاؤڈ فلیئراور پی ٹی اے کا بیان بھی آگیا
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’ایکس‘ کی سروس ڈاؤن
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی فعال، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 90ہزار جانوں کی قربانیاں دیں، عطا تارڑ