ایران کیخلاف جنگ، صیہونی وزیراعظم عوام کا اعتماد کھونے لگے، مقبولیت میں تیزی سے کمی
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 59 فیصد اسرائیلی شہری چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی واپسی کے بدلے غزہ میں جاری لڑائی ختم کر دی جائے، جبکہ نیتن یاہو پر الزام ہے کہ وہ سیاسی فائدے کیلئے اسرائیلی قیدیوں کی محفوظ واپسی کی قربانی دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کے خلاف جنگ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو عوام کا اعتماد کھونے لگے۔ اسرائیل میں کرائے گئے تازہ ترین سرویز کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اسرائیلی عوام کا اعتماد کھو رہے ہیں، ان کی مقبولیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ قبل ازوقت انتخابات کرا کر ایک بار پھر اقتدار سنبھالنے کے منصوبے بنانے والے نیتن یاہو کو ایران کے خلاف جنگ سے وہ مقبولیت نہیں مل پائی، جس کی وہ امید کر رہے تھے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 59 فیصد اسرائیلی شہری چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی واپسی کے بدلے غزہ میں جاری لڑائی ختم کر دی جائے، جبکہ نیتن یاہو پر الزام ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے اسرائیلی قیدیوں کی محفوظ واپسی کی قربانی دے رہے ہیں۔ 49 فیصد اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ غزہ کی جنگ اب بھی جاری رہنے کی وجہ صرف نیتن یاہو کی سیاسی خواہشات ہیں۔ اسرائیلیوں کی اکثریت اب نیتن یاہو پر اعتماد نہیں کرتی۔
واضح رہے کہ ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اسرائیل میں سیاسی سانس لینے کا ایک مختصر موقع تو دیا، تاہم ان پر 50 سے زائد اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانے اور غزہ جنگ ختم کرنے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں نیتن یاہو پر مختلف مقدمات میں 3 بار فرد جرم عائد ہوچکی ہے، اس وقت بھی نیتن یاہو کو ایک بڑے کرپشن کیس کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ جنگی جرائم کے ارتکاب پر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق حتمی فرد جرم عائد ہونے سے اسرائیلی وزیراعظم پر استعفے کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر قیدیوں کی
پڑھیں:
معلوم نہیں کہ غزہ میں کب تک جنگبندی قائم رہے، نتین یاہو
اپنی ایک رپورٹ میں صیہونی نیوز ویب کا کہنا تھا کہ بدامنی اور اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کے امکان کے باعث دوسرے ممالک، غزہ میں اپنی افواج بھجوانے سے کترا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" نے کہا کہ ہتھیاروں سے پاک غزہ منصوبہ ترک نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس مسئلے کو کابینہ میں اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ غزہ میں کب تک جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔ اس سلسلے میں عبرانی ویب سائٹ واللا نے رپورٹ دی کہ ٹرمپ انتظامیہ، اسرائیل پر جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لئے دباو ڈال رہی ہے، جس سے صیہونی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی صیہونی پریشانی کا سبب ہے کہ بدامنی اور اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کے امکان کے باعث دوسرے ممالک، غزہ میں اپنی افواج بھجوانے سے کترا رہے ہیں۔ مذکورہ نیوز ویب نے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ اب تک کسی بھی ملک نے غزہ بھیجی جانے والی امن فورس کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، جس سے اسرائیلی سیکورٹی اداروں میں اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے امریکی دباؤ پر تشویش بڑھ گئی ہے۔
اسی دوران صیہونی براڈکاسٹنگ اتھارٹی نے رپورٹ دی کہ اسرائیل نے آخری لمحات تک امریکی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ آئندہ کل سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی امریکی قرارداد کے مسودے کو نرم کرے اور صیہونی رژیم کے مفادات کے مطابق تبدیل کرے۔ واضح رہے کہ اس مسودے میں غزہ کی پٹی میں ملٹی نیشنل فورسز اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا معاملہ زیر بحث ہے۔ امریکی قرارداد کے اس مسودے میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ غزہ میں استحکام کے لئے مصر اور اسرائیل کے تعاون سے بین الاقوامی فورس تعینات کی جائے گی۔ اس کے علاوہ حماس کی حکومت کی تبدیلی اور اسرائیلی فوج کا انخلاء کیسے عمل میں آئے گا، جب کہ سرحدوں کی نگرانی کے لئے ایک فلسطینی پولیس فورس تعینات کی جائے گی۔ استقامتی محاذ کو غیر مسلح کرنے کا منصونہ بھی اس مسودے میں شامل ہے۔ حالانکہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہ بارہا یقین دلا چکے ہیں کہ جب تک صیہونی قبضہ باقی ہے وہ اسلحہ نہیں پھینکیں گے۔