امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خصوصی انٹرویو میں ایران کے ایٹمی پروگرام، علاقائی صورتحال اور مستقبل کے ممکنہ معاہدوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران امن کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کرے تو امریکہ اقتصادی پابندیاں ختم کرنے پر غور کر سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے بجائے ایٹمی پروگرام کو ترجیح دیتے ہیں، جو عالمی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے دوبارہ ایٹمی طاقت کے حصول کی جانب پیش قدمی کی تو یہ اس کا ”آخری اقدام“ ہو گا۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران جوہری طاقت کے حصول کے قریب پہنچ چکا تھا، لیکن ان کی انتظامیہ نے اس خواہش کو ”ختم“ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی عزائم کو روکنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور امریکہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

انہوں نے ابراہم اکارڈز (Abraham Accords) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے میں پہلے ہی کئی بہترین ممالک شامل ہو چکے ہیں، اور دیگر ممالک بھی اس میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ ان کے مطابق ایران کو بھی اس معاہدے میں شامل ہو کر علاقائی امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے لیے ایران کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی فضا ایک بار پھر گہری ہو رہی ہے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ایران: جالوت کے مقابلے میں داؤد (ع)

اسلام ٹائمز: ایلکس ویٹینکا اپنے تجزیے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا گولیتھ یا جالوت جیسی مستکبر قوت امن کے عمل میں شراکت دار ہوسکتی ہے؟ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی فوجی مہمات جو غزہ، لبنان، شام اور یمن تک پھیلی ہوئی ہیں، انہوں نے ایران پر اسرائیل کے براہ راست حملے نے بہت سے خلیجی حکام کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ اسرائیل اب محض ”ڈیٹرنس“ نہیں، بلکہ غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے علاقائی نظام کو الٹانے کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں ایسی ہیں جس سے صرف نظر وہی کر سکتا ہے جو اس کے جرائم میں اس کا برابر کا شریک ہو۔ عرب ممالک کو یہ زعم تھا کہ اگر ہم اسرائیل کی جارحیتوں کو پس پشت ڈالیں گے تو اسے کے صلے میں اسرائیل کو ہماری آمریتوں سے کوئی پرخاش نہیں ہوگی۔ اسرائیل جس طرح روز بروز اپنے ارادوں کو مہمیز دے رہا ہے اسے دیکھ کر اب اکثر عرب ممالک گبھرائے ہوئے ہیں۔ ”مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ ان واشنگٹن ڈی سی“  کے ایک سینئر فیلو ”ایلکس ویٹینکا“ (Alex Vatanka) نے اپنے ایک تازہ ترین تجزیے میں اسرائیل کی خواہشات کا رخ دیکھتے ہوئے عرب ممالک کی بدلتی ہوئی ترجیحات پر ماہرانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

اپنے آرٹیکل میں ایلکس رقم طراز ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اگرچہ ”ابراہم معاہدے“ کو مشرق وسطیٰ، قفقاز اور وسطی ایشیا میں وسعت دینے پر زور دے رہی ہے لیکن یہ انتظامیہ عرب اور مسلم دنیا کے تاثرات میں پیدا ہونے والی ڈرامائی تبدیلی کو نظر انداز کر رہی ہے۔ جہاں کبھی اسرائیل کو یہودیوں کے بقول اس ”ڈیوڈ“ (حضرت داؤدؑ)کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو گولیتھ (جالوت) جیسی عرب دنیا سے لڑ رہا تھا، آج خود یہ دونوں کردار الٹ نظر آتے ہیں۔ بے قابو فوجی طاقت اور غیر متزلزل امریکی حمایت سے اسرائیل کو نہ صرف ایک علاقائی طاقت کے طور پر بلکہ امریکی حمایت یافتہ علاقائی تسلط پسند طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خلیجی عرب ریاستوں کے لیے نئے منظر نامے میں یہ اچانک تبدیلی ایک مخمصے کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔

ایلکس ویٹینکا اپنے تجزیے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا گولیتھ یا جالوت جیسی مستکبر قوت امن کے عمل میں شراکت دار ہوسکتی ہے؟ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی فوجی مہمات جو غزہ، لبنان، شام اور یمن تک پھیلی ہوئی ہیں، انہوں نے ایران پر اسرائیل کے براہ راست حملے نے بہت سے خلیجی حکام کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ اسرائیل اب محض ”ڈیٹرنس“ نہیں، بلکہ غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے علاقائی نظام کو الٹانے کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اگر ابراہم معاہدہ، ایران اور اس کے "محور مزاحمت" کے خطرے کے خلاف ”اسٹیٹس کو“ کی حامی طاقتوں کے درمیان ایک متحدہ محاذ بنانے کے حوالے سے تھا، تو اس محاذ کے کلیدی کردار میں اب تغیر آ چکا ہے۔

ایران کے حوالے سے ایلیکس لکھتے ہیں کہ مڈل ایسٹ کے عرب ممالک کے لیے اب ایرانی خطرہ بہت کم ہوگیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اسرائیل علاقائی استحکام کے لیے اپنا ایک نیا چیلنج پیش کر رہا ہے جو گذشتہ معاہدوں کے حوالے سے بنیادی سوالات اٹھا رہا ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ایلیکس مذید کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کے تشویش پر مبنی گذشتہ اقدامات، جن میں جولائی 2024ء کی کسی بھی مستقبل کی فلسطینی ریاست کو مسترد کرنے والی کنیسٹ کی قرارداد اور جولائی 2025ء میں دو ریاستی حل کے لیے سعودی فرانس تجویز کو مسترد کرنا شامل ہے جو اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس سے سامنے آئی تھی، اسرائیل کے حوالے سے پائے جانے والے عرب دنیا کے نئے تاثر کو مضبوط کرتی ہے۔

غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے 60,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت، اور اسرائیل اور ایران کی 12 روزہ جنگ کے نتیجے میں یہ تاثر  بڑھتا جا رہا ہے کہ اسرائیل نہ صرف اپنے دفاع کے لیے، بلکہ خطے کی تزویراتی تبدیلی کے سفر کو مزید آگے بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ تبدیلی میدان جنگ کی تبدیلی سے بھی آگے ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ دونوں کے بین الاقوامی دباؤ کو بغیر کسی نتیجے کے مسترد کرنے کی اسرائیل کی صلاحیت ایک گہری سیاسی تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔ خلیجی مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے ایلکس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن بھی اسرائیل کو دشمنی ختم کرنے، یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے یا ایران کے ساتھ کشیدگی سے بچنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔

جون 2025ء میں امریکی اعتراضات کے باوجود اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر اپنا حملہ امریکہ اور ایران کے جوہری مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے سے چند دن پہلے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر خود ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا۔ ان واقعات نے امریکی ڈیٹرنس اور اسرائیلی تحمل کے بارے میں دیرینہ مفروضوں کو توڑ دیا۔ اس پس منظر میں خلیجی رہنما ”ابراہیم معاہدے“ کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ اصل میں جو معاہدہ بظاہر امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایک فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا، اب وہ سمجھوتہ اسرائیل کی علاقائی بالادستی کو قانونی حیثیت دینے کا وسیلہ بن گیا ہے۔ یہ خاص طور پر اس سعودی عرب کے لیے زیادہ تشویشناک ہے جس نے علامتی طور پر اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول کر اصل معاہدے کی حمایت کی تھی۔ آج ریاض جس دو ریاستی حل پر اصرار کرتا ہے اور جو معمول پر لانے کا واحد راستہ ہے، اسے بھی اسرائیل کھلے عام مسترد کرتا ہے۔

دریں اثنا ان کے خیال کے مطابق آذربائیجان اور قازقستان جیسی مسلم اکثریتی ریاستوں کو ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے کی کوششیں امن کے نئے معاہدوں کے بارے میں کم اور امریکی قیادت کا اشارہ دینے اور ایران اور روس کے خلاف علاقائی صف بندی کو مضبوط کرنے کے بارے میں زیادہ ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے اس عمل نے انہیں عوامی ردعمل سے محفوظ نہیں رکھا۔ آذربائیجان میں غزہ جنگ کے دوران مظاہروں نے فلسطینیوں کے لیے انصاف کی عدم موجودگی میں معمول پر آنے کی حدوں کو واضح کیا ہے۔ یہ 2020ء نہیں ہے۔ آج فلسطین کے حامی جذبات گہرے ہیں اور عرب اور مسلم معاشروں میں زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔

خلیجی ریاستوں کے لیے بنیادی تشویش یہ ہے کہ پیشگی طور پر اپنے دشمن پر حملہ کرنے والے اسرائیل کے "لمبے بازو “ اب خالصتاً دفاعی نہیں، بلکہ اب انہیں ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد علاقائی ٹکڑے کرنا ہے۔ اس کا مطلب ملکوں کے نہ صرف فوجی انفراسٹرکچر پر بلکہ جیلوں اور نیم فوجی اڈوں پر بھی حملے ہیں اور اس کے ساتھ خوزستان، بلوچستان اور کرد علاقوں جیسے اقلیتی علاقوں میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں ہیں۔ اسی طرح کا نمونہ شام میں پہلے ہی سامنے آچکا ہے، جہاں اسرائیل نے اقلیتوں کے تحفظ کے جھنڈے تلے ”دروز“ اکثریتی علاقوں میں کارروائیوں کو جائز قرار دیا ہے۔ خلیجی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اگر یہ نظریہ معمول پر آ جاتا ہے، تو بالآخر اس کا اطلاق دیگر کمزور ریاستوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ خود عراق یا سعودی عرب پر بھی۔ یہ بڑھتا ہوا خوف کہ اسرائیل ایک علاقائی ”جالوت“ بن رہا ہے، مشکل سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کیا عرب ریاستوں کو ایسے فریم ورک کی حمایت جاری رکھنی چاہیئے جو اسرائیل کو اس لائق بنائے یا پھر انہیں علاقائی ترجیحات کی عکاسی کے لیے کسی نئے معاہدے کا حصہ بننا چاہیئے؟ قطر اور عمان جیسی خلیجی ریاستیں پہلے ہی ایران اور مغرب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر چکی ہیں۔ سعودی عرب ایک محتاط درمیانی راستے پر گامزن ہیں جو ایران کے ساتھ تعلقات کو بحال کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ راستے کھلے رکھنا اور اندرونی سطح پر ریاست کی تعمیر پر زور دینا چاہتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں عراق کو مستحکم کرنے، شام کے خاتمے کو روکنے اور یمن کے حوثیوں کو دوبارہ میز پر لانے کی کوششیں شامل ہیں۔ مقصد علاقائی توازن ہے، تسلط نہیں۔ 12 روزہ جنگ نے اس تبدیلی کو تقویت دی۔

ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں اور قطر میں العدید ایئر بیس پر ایران کے جوابی حملوں نے خلیجی ممالک کے امریکہ پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی تیل کی اہم تنصیبات پر 2019ء کے حملوں کا جواب دینے میں ناکامی نے ان کی حالیہ ناکامی کے ساتھ مل کر، خلیجی بادشاہتوں کو سمجھا دیا ہے کہ امریکی ضمانتیں مشروط ہیں، اور یہ کہ اسرائیلی عسکریت پسندی ان کی دہلیز پر تباہی لا سکتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف اس صورت حال میں ایران بھی ترقی کر رہا ہے۔ 12 روزہ جنگ کے بعد سے تہران نے اپنے قومی سلامتی کے آلات کی تنظیم نو کی ہے، صدر مسعود پیزشکیان اور علی لاریجانی جیسے مرکز پرستوں کی قیادت میں ایک نئی دفاعی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔

ایران کے جنگ کے بعد کے پیغامات میں سفارت کاری پر زور دیا گیا ہے، جس میں پاکستان اور برکس کے رکن ممالک کی طرف اشارہ بھی شامل ہے۔ خلیجی حکام تیزی سے ایران کو ”گولیاتھ“ یا جالوت سے زیادہ ”ڈیوڈ“ یعنی داؤد (ع) جیسا سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال میں خلیجی ریاستوں کو ایک قابل عمل علاقائی ترتیب پر دوبارہ غور کرنا چاہیئے۔ اسرائیل کے رویے میں تبدیلی کے بغیر ابراہیم معاہدے کو وسعت نہیں دی جا سکتی۔ امن غلبہ سے نہیں بلکہ تعاون سے آئے گا۔ اس کے لیے اسرائیل کو خطے کے ایک شہری کی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ قابض طاقت کی طرح۔ حقیقت پسندی یہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران: جالوت کے مقابلے میں داؤد (ع)
  • مودی کا اشتعال اور خوف بے نقاب: ایٹمی میں بلیک میلنگ میں نہ آنے کی گیدڑ بھبکی
  • پیوٹن یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے تیار، ایٹمی ہتھیاروں کے معاہدے کا عندیہ: ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایران کے اسپیکر قومی اسمبلی کو پاکستان کے دورے کی دعوت
  • فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار
  • ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
  • یوٹیوب کا نیا قدم، کم عمر صارفین کے لیے پابندیاں تیار
  • برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر پابندیوں کے لیے اقوام متحدہ کو خط
  • امریکی پابندیوں کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کا وقت آ گیا ہے، عراقچی
  • بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر امریکی پابندیاں، کیا اب دہشتگردوں کو حاصل بھارتی حمایت ختم ہو پائےگی؟