ایران پر ٹرمپ کے حملے غیر قانونی تھے، امریکی سینیٹر
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
امریکی سینیٹر کریس مرفی نے ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جن میں تاکید کی گئی تھی کہ امریکہ کو ایران سے کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں ہے، کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے امریکی قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ریاست کنٹیکٹ کے سینیٹر کریس مرفی نے آج این بی سی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے غیر قانونی تھے۔ انہوں نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہ کیا ٹرمپ کا یہ اقدام ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا باعث بن سکتا ہے یا نہیں؟ کہا: "یہ فیصلہ ایوان نمائندگان کے اراکین کریں گے نہ کہ سینیٹ، لیکن واضح ہے کہ یہ حملے غیر قانونی تھے۔" اس سے پہلے ایک اور ڈیموکریٹ سینیٹر الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹس نے کہا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ٹرمپ کے فضائی حملے اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا باعث بن سکتے ہیں۔ یاد رہے امریکہ کے قوانین کی روشنی میں ایوان نمائندگان کے اراکین صدر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جبکہ سینیٹ کو حتمی فیصلہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ 1973ء کے منظور شدہ جنگی اختیارات کے قانون کی روشنی میں امریکی صدر صرف تین صورتوں میں فوجی حملہ شروع کرنے کا اختیار رکھتا ہے جو سرکاری طور پر اعلان جنگ، کانگریس کی اجازت یا قومی ایمرجنسی حالت پر مشتمل ہیں۔
اکثر ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر فضائی حملے مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے کسی کے تحت انجام نہیں پائے لہذا ان کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے سینیٹ نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا جس میں ٹرمپ کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف آئندہ فوجی اقدام کے لیے کانگریس کی اجازت لے۔ یہ فیصلہ جماعتی بنیاد پر سامنے آیا تھا۔ ریپبلکن سینیٹر رنڈ پال وہ واحد ریپبلکن سینیٹر تھے جنہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ کریس مرفی نے ٹرمپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق سوال دوبارہ پوچھے جانے پر کہا: "میں دوبارہ یہی کہوں گا کہ یہ فیصلہ ایوان نمائندگان کا ہے۔ لیکن جب ہم ٹرمپ کی حالیہ مدت صدارت کے طرز عمل کو گذشتہ ان اقدامات سے موازنہ کرتے ہیں جن کے باعث ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی تو دیکھتے ہیں کہ اس بار ان کا طرز عمل بہت زیادہ بدتر، لاقانونیت پر مبنی اور آئین کے زیادہ خلاف ہے۔" یاد رہے گذشتہ مدت صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی لیکن سینیٹ میں اس کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
اس وقت ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں ڈیموکریٹس اقلیت میں ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ سینیٹر کریس مرفی نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ایران پر ٹرمپ کے فضائی حملے غیر قانونی تھے چونکہ کانگریس کی اجازت کے بغیر انجام پائے تھے۔ مرفی نے کہا: "میں نے انٹیلی رپورٹس کا مطالعہ کیا ہے، ان میں اس بات کے کوئی شواہد نہیں پائے جاتے تھے کہ امریکہ کو ایران سے فوری خطرہ درپیش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حملے غیر قانونی تھے۔" اس نے مزید کہا: "صرف کانگریس ہی جنگ شروع کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔" کریس مرفی نے ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دینے کے دعوے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہیں۔ مرفی نے کہا: "اگر میں کمانڈنٹ ان چیف ہوتا تو ان حملوں کی اجازت کبھی بھی نہ دیتا، وہ بھی ایسے وقت جب ایرانیوں سے مذاکرات چل رہے تھے اور امن معاہدے کے حصول کی کوششیں جاری تھیں۔ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کا واحد راستہ امن معاہدہ ہے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ٹرمپ کی جانب سے ایران حملے غیر قانونی تھے ایوان نمائندگان ایران کی جوہری کریس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ فضائی حملے کی اجازت ٹرمپ کے بات پر اس بات
پڑھیں:
فاتح ایران کا دفاع
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے خطرات فی الحال معدوم ہوگئے ہیں لیکن اس جنگ کا آغاز کرنے والے ملک اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکا کے عزائم اور منصوبے اپنی جگہ موجود ہیں جو پھرکسی وقت ایک نئی محاذ آرائی کا سبب بن کر خطے کے امن کو تباہ کر سکتے ہیں۔ نیتن یاہوگریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کا خواہاں ہے اور امریکا و دیگر مغربی طاقتیں ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا چاہتی ہیں۔
ایران ایک سے زائد مرتبہ یہ یقین دہانی کرا چکا ہے کہ اس کا یورینیم افزودگی پروگرام صرف توانائی کے حصول کے لیے ہے۔ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے جس نے ایران پر اسرائیلی حملے سے چند روز قبل ایرانی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ فی الحال ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود نہیں، البتہ چار سوگرام یورینیم موجود ہے۔
اسرائیل نے اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اکیلا ایران کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن ایران نے جوابی میزائل حملوں سے اسرائیل کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے اس کے غرور، طاقت کے نشے اور گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں جو تباہی پھیلائی اس کا اعتراف تو اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کر دیا ہے کہ ایران نے بہت بہادری سے جنگ لڑی۔ اسرائیل کو ایران سے بہت مار پڑی۔
ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل میں کافی تباہی پھیلائی اور کئی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعتراف در حقیقت اسرائیل کی شکست اور ایران کی فتح کا اعلان ہے کہ اس جنگ میں ایران فاتح بن کر سامنے آیا اور مسلم امہ کا پرچم سر بلند کیا۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے ایران پر اپنے ابتدائی حملوں میں ایران کی ٹاپ فوجی قیادت اور سائنس دانوں کو شہید کردیا تھا لیکن ایران کے سپریم رہنما علی خامنہ ای نے پیرانہ سالی اور بڑے نقصانات کے باوجود اسرائیل پر حملے جاری رکھے اور اسے شکست ماننے پر مجبورکردیا۔
نیتن یاہو نے اپنی ممکنہ شکست کے خوف اور اس کی شدت کو کم کرنے اور رسوائی سے بچنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے اکسایا نتیجتاً امریکا نے تمام تر عالمی قوانین، اصولوں اور اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کردیا۔ امریکا کو اپنی فوجی قوت، صلاحیت اور جدید ترین حربی ہتھیاروں پرکامل بھروسہ ہے کہ وہ ہر میدان میں امریکا کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔
اسی بھروسے پر امریکا نے اپنے سب سے قیمتی، جدید ترین اور محفوظ سمجھے جانے والے طیارے B-2 بمبارکے ذریعے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان کو بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا جو زمین کے اندر 60 فٹ گہرائی یا 200 فٹ مٹی میں گھسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حکومتی اکابرین کو یقین ہے کہ ایران پر حملہ کامیاب رہا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ اب وہ ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا۔ اس کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی قوت ختم کردی گئی ہے۔
دوسری طرف ایران کا دعویٰ ہے کہ امریکی حملے سے قبل ہی اس نے اپنے جوہری اثاثے محفوظ مقام پر منتقل کر دیے تھے۔ امریکی حملے سے صرف متعلقہ ایٹمی مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس اور خبریں بھی ایرانی دعوے کو تقویت اور امریکی دعوے کی نفی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر سی این این، اے بی سی اور این بی سی کی رپورٹس کے مطابق امریکی حملے سے ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں۔ ٹرمپ میڈیا رپورٹس پر شدید برہم دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں پھیلا کر ہماری کامیابی اور کارکردگی کو کمزور ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ادھر ایرانی پارلیمنٹ نے امریکی حملے کے ردعمل میں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا بل منظور کرایا ہے جس کے مطابق عالمی ایجنسی کو اب کوئی گارنٹی نہیں دی جائے گی، نہ عالمی ادارے انسپکٹرز کو انسپکشن کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی انھیں رپورٹس جمع کرائی جائیں گی تاوقت یہ کہ ایرانی جوہری تنصیبات سے متعلق سیکیورٹی کی ضمانت نہ دی جائے۔ ایرانی پارلیمنٹ کے فیصلے پر عالمی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران کا تعاون سے انکار اس کی عالمی تنہائی کا سبب بن سکتا ہے جب کہ روس کا موقف ہے کہ ایران کا یہ فیصلہ اس کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کا ردعمل ہے جو بجا طور پر قابل فہم بات ہے۔
صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ایران سے اگلے ہفتے معاہدہ ہو سکتا ہے۔ چوں کہ صورت حال امریکی حملے سے سنگین ہوئی ہے، لہٰذا اسے درست کرنا بھی صدر ٹرمپ کی ذمے داری ہے۔ انھیں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں بھی آگے بڑھ کر نیتن یاہو کے ہاتھ روکنا ہوں گے تب ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔فاتح ایران کو اپنے دفاع کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ امریکا اور عالمی برادری کو کسی بھی ملک کی آزادی، خود مختاری اور قومی سلامتی کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔