جاوید شیخ کا نادیہ خان اور عمر عدیل کو منہ توڑ جواب
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
پاکستانی فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے معتبر ترین اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جاوید شیخ نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں نادیہ خان اور عمر عدیل جیسے نقادوں کی غیر منصفانہ تنقید کا دندان شکن جواب دیا ہے۔
وکی پیڈیا پوڈکاسٹ میں انٹرویو دیتے ہوئے جاوید شیخ نے ان تمام نام نہاد نقادوں کو للکارا جو اپنے مفروضوں پر مبنی رائے سے پروجیکٹس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پوڈکاسٹ کے میزبان کے سوال کے جواب میں جاوید شیخ نے واضح کیا کہ ’’فیصل قریشی نے راجہ رانی میں کوئی میک اپ استعمال نہیں کیا، میں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’تنقید برائے تنقید کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عزت اور شہرت اللہ کی طرف سے ملتی ہے – اگر اللہ کسی کو دینا چاہے تو کوئی چھین نہیں سکتا۔‘‘
جاوید شیخ نے لاہور کے ایک ڈاکٹر کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس نے ’لو گرو‘ فلم، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کے خلاف زہر اگلا تھا، حتیٰ کہ عمر کے حوالے سے توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔ لیکن اس کی غیر منصفانہ تنقید کا کیا نتیجہ نکلا؟ فلم نے 60 ملین سے زائد کمائی کر لی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر کو ڈائریکٹر سے ذاتی نفرت تھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’راجہ رانی فیصل قریشی کا پروجیکٹ ہے، نادیہ خان جو چاہے کہتی رہے۔ اصل نقاد تو ناظرین ہوتے ہیں۔ یہی لوگ کسی پروجیکٹ کو پاس یا فیل کراتے ہیں۔‘‘
جاوید شیخ نے کہا کہ یہ ٹی وی ریویو کرنے والے جو اداکاروں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کا کوئی حقیقی اثر نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن چینلز پر یہ ظاہر ہوتے ہیں، وہ انہی اداکاروں کا مذاق اڑانے والے مواد سے چلتے اور کماتے ہیں۔
جاوید شیخ جنہیں زندگی گلزار ہے، چیف صاحب، طیفا اِن ٹربل اور نامعلوم افراد جیسی کامیاب فلموں اور ڈراموں پر عوام کی بے پناہ محبت حاصل ہے، فی الحال اپنی نئی پروڈکشنز راجہ رانی اور میری تنہائی کے لیے بھی تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھا فنکار اپنے کام سے خود کو منواتا ہے، نہ کہ نقادوں کے تبصروں سے۔
یہ انٹرویو ناظرین کے درمیان کافی مقبول ہوا ہے جن کا ماننا ہے کہ صنعت کو اس قسم کے تجربہ کار فنکاروں کی رہنمائی کی ضرورت ہے جو غیر معیاری تنقید کا مقابلہ کر سکیں۔ جاوید شیخ کے الفاظ نے نہ صرف نادیہ خان اور عمر عدیل کی تنقید کو بے بنیاد ثابت کیا ہے بلکہ ان تمام نام نہاد نقادوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے جو فنکاروں کی محنت کو کم تر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: جاوید شیخ نے نادیہ خان خان اور
پڑھیں:
صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن
صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن WhatsAppFacebookTwitter 0 16 November, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
مدتوں سے صدارتی استثنیٰ کا تصور دنیا بھر کے آئینی مباحث میں اہم مقام رکھتا آیا ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک میں اس کی صورتیں مختلف ہیں، مگر اس کی بنیادی منطق ایک ہی رہی ہے؛ سربراہِ ریاست کو روزمرہ سیاسی مقدمات یا قانونی خوف سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں، لیکن کوئی بھی عہدہ دار ہمیشہ کے لیے احتساب سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اختیار اور جواب دہی کے درمیان یہی نازک توازن جدید آئینی نظامات کی روح ہے۔ اخلاقی سطح پر یہ اصول قرآن کی اس تعلیم سے ہم آہنگ ہے کہ تمام انسان، خواہ ان کا منصب کچھ بھی ہو، اللہ کے حضور جواب دہ ہیں: ”اور ہر جان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔” (الزمر 70)۔ رسول اکرم ۖ نے بھی امتیازی احتساب کی سختی سے نفی کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر فاطمہ، محمدۖ کی بیٹی بھی چوری کرتی، تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔” یہ تعلیمات یاد دلاتی ہیں کہ انتظامی ضرورت کے تحت استثنیٰ تو ممکن ہے، مگر اسے کبھی بے حساب آزادی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں صدارتی استثنیٰ عموماً دو شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلی شکل جسے ”مطلق استثنیٰ” کہا جاتا ہے، ایک موجودہ صدر کو فوجداری مقدمات یا دیوانی کارروائیوں سے محفوظ رکھتی ہے، تاکہ حکمرانی سیاسی مقدمات کے دباؤ سے مفلوج نہ ہو۔ دوسری شکل ”عملی استثنیٰ” کہلاتی ہے، جس کے تحت صدر اپنے دورِ صدارت میں سرکاری ذمہ داریوں کے تحت کیے گئے اقدامات پر منصب سے ہٹنے کے بعد بھی قانونی کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سربراہِ ریاست اہم اور کبھی کبھار غیر مقبول فیصلے بے خوفی سے کر سکے۔ تاہم عالمی رجحان واضح ہے کہ ریاستیں اپنے حکمرانوں کو ہمیشہ کے لیے قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر آمادہ نہیں رہیں۔
کئی ممالک میں صدر کو بہت مضبوط اور تقریباً مطلق استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکہ میں ایک طویل عرصے سے یہ قانونی تعبیر رائج ہے کہ موجودہ صدر کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری اعمال کے لیے مطلق استثنیٰ تو برقرار رکھا ہے لیکن ذاتی افعال پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ روس میں صدر کو کسی بھی فوجداری یا انتظامی جرم میں گرفتاری، تلاشی یا مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور کچھ صورتوں میں یہ استثنیٰ منصب چھوڑنے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ترکی میں بھی اسی نوعیت کی حفاظت موجود ہے، جہاں بعض اعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ کینیا میں بھی صدر کو دورِ صدارت کے دوران وسیع قانونی تحفظ حاصل ہے۔
بعض ممالک میں استثنیٰ محدود یا قابلِ تنسیخ ہے۔ بھارت کے صدر کو فوجداری کارروائی اور عدالتی طلبی سے تحفظ ضرور حاصل ہے، لیکن دیوانی مقدمات نوٹس کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں اور آئین شکنی پر مواخذے کی راہ کھلی ہے۔ اٹلی میں صدر صرف غداری یا سنگین آئینی خلاف ورزی پر مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ جرمنی نے استثنیٰ صرف سرکاری اعمال تک محدود کیا ہے اور وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں دستوری عدالت صدر کو برطرف کر سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ عملی استثنیٰ تو دیتا ہے مگر پارلیمانی طریقِ کار کے ذریعے ہٹانے کا اختیار برقرار رکھتا ہے۔ سری لنکا میں استثنیٰ ہے لیکن سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی درخواستیں صدر کے خلاف بھی سن سکتی ہے۔
کئی ممالک نے استثنیٰ کو صرف سرکاری ذمہ داریوں تک محدود کیا ہے۔ برازیل میں عام جرائم پر کارروائی پارلیمانی منظوری سے ہو سکتی ہے، جبکہ ارجنٹینا میں استثنیٰ زیادہ تر مواخذے تک محدود ہے، جس کے بعد صدر سپریم کورٹ کے سامنے مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں اصول واضح ہے: صدر قانون سے بالاتر نہیں، بلکہ صرف اس حد تک محفوظ ہے جس سے ریاستی نظام کی روانی برقرار رہے۔
عالمی قانون میں بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ روم اسٹیچوٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر حاصل کوئی بھی استثنیٰ نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم یا جارحیت کے جرم پر موجودہ یا سابق سربراہِ ریاست کے خلاف کارروائی کو نہیں روک سکتا۔ یہ اصول بتاتا ہے کہ بعض جرائم سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں اور انسانی حرمت کی پامالی منصب کی بلندی سے نہیں چھپ سکتی۔ یہ اسی قرآنی ہدایت کی یاد دہانی ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر ڈٹ جانے والے بنو، خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء 135)
پاکستان میں روایتی طور پر صدر کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم نے اس استثنیٰ کی وضاحت اور توثیق کی ہے۔ اس ترمیم نے صدر کو دورِ صدارت میں فوجداری کارروائی سے محفوظ رکھا ہے اور سرکاری اعمال کو عدالتی جانچ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، تاکہ ریاستی تسلسل سیاسی دباؤ سے متاثر نہ ہو۔
تنقید نگاروں کا مؤقف ہے کہ جمہوریت کو غیر محدود اختیارات کے محفوظ ٹھکانے نہیں بنانے چاہئیں۔ ان کے نزدیک استثنیٰ کا مقصد سہولتِ حکمرانی ہے، نہ کہ غلط کاریوں کو ڈھال فراہم کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترمیم نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ادارہ جاتی استحکام اور عوامی احتساب کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔
مگر کوئی بھی آئینی استثنیٰ اخلاقی جواب دہی سے مبرا نہیں کر سکتا۔ اسلامی تاریخ اس بارے میں نہایت روشن مثالیں رکھتی ہے۔ خلافتِ فاروقی کے دور میں مسجدِ نبویۖ میں ایک واقعہ پیش آیا جو رہنماؤں کی شفافیت کا بے مثال اثبوت ہے۔ جب حضرت عمر نے کپڑا تقسیم کیا تو ایک شخص کھڑا ہو کر پوچھ بیٹھا کہ جب سب کو ایک ایک ٹکڑا ملا ہے تو امیرالمؤمنین نے پورا کرتا کیسے بنا لیا؟ حضرت عمر نے فوراً اپنے بیٹے عبداللہ کو وضاحت کے لیے بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دے دیا تھا۔ یہ سن کر سائل مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک عام شہری کے سامنے حکمران کا اس طرح جواب دہ ہونا ہمیں بتاتا ہے کہ اصل قیادت اختیار سے نہیں، اعتماد اور دیانت سے قائم ہوتی ہے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔” استثنیٰ صدر کو قانونی کارروائی سے وقتی تحفظ تو دیتا ہے، لیکن اسے قوم یا خدا کے سامنے جواب دہی سے معاف نہیں کرتا۔ اسلامی روایت میں اختیار ایک امانت ہے، مراعات نہیں۔
دنیا بھر میں آئینی نظام صدارتی استثنیٰ کی حدود کو مسلسل بہتر بنا رہے ہیں۔ شکلیں مختلف سہی، مگر اصول ایک ہی ہے: حکمرانی کو وقار درکار ہے، اور انصاف کو احتساب۔ ریاستوں، خصوصاً پاکستان، کے لیے اصل امتحان یہی ہے کہ وہ ایسا توازن برقرار رکھیں جس میں نہ تو ادارے سیاسی انتقام سے کمزور ہوں، اور نہ کوئی فرد قانون یا اخلاق سے بالاتر ہو جائے۔ اسی توازن میں ریاست کی قوت اور عوام کا اعتماد پوشیدہ ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم