آم کے شوقین افراد ہوشیار ہوجائیں!کہیں آپ یہ آم تو نہیں کھا رہے ؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
آم کے شوقین افراد ہوشیار ہوجائیں ، کیا آپ کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم تو نہیں کھا رہے؟
تفصیلات کے مطابق گرمی کے آتے ہی بازار مختلف قسم کے آموں سے بھر جاتے ہیں، آم کھانے کے شوقین پھلوں کے بادشاہ کا مزہ لینے کے لیے اس کا بے صبری کے ساتھ انتظار بھی کرتے ہیں۔
اس وقت مارکیٹ میں آموں کی بہت سی اقسام دستیاب ہیں، جس میں انور رٹول، لنگڑا، سندھڑی، چونسہ، طوطا پری اور دسہری وغیرہ شامل ہیں۔کوٹ ادو میں آموں کو پکانے کیلئے ممنوعہ کیلشیم کاربائیڈ استعمال کرنیوالوں کیخلاف ایکشن ہوا۔ڈائریکٹرآپریشنز فوڈ اتھارٹی شہزاد مگسی کی زیرنگرانی 216 مقامات پر انسپکشن کیا گیا اور اس دوران 117 کلو کیلشیم کاربائیڈ اور 95 کلو آم تلف کر دیے گئے۔
فوڈ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ حفظان صحت کی خلاف ورزی پر94 ہزارروپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ فروٹ منڈی میں دکانوں اورگاڑیوں کی انسپکشن کی گئی، باغات کا دورہ کیا گیا آم پکانے کیلئے کاربائیڈ استعمال کیخلاف کارروائیاں کیں۔خیال رہے آموں کو پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کا استعمال ممنوع ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کیلشیم کاربائیڈ
پڑھیں:
بجلی کمپنیوں کی غفلت سے 30 اموات، نیپرا کا 5 کروڑ 75 لاکھ جرمانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے غفلت اور ناقص حفاظتی انتظامات ایک بار پھر سنگین سانحے کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جس نے نہ صرف اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے بلکہ ملک میں انسانی جانوں کے تحفظ کے حوالے سے موجود کمزور نظام کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔
مالی سال 2023-24 کے دوران مختلف شہروں میں ہونے والے بجلی سے متعلق حادثات میں 30 افراد کی جانیں چلی گئیں، جن کا ذمہ دار نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے براہِ راست تین بڑی تقسیم کار کمپنیوں لیسکو، فیسکو اور گیپکو کو قرار دیا ہے۔
اتھارٹی کی جانب سے اپنے الگ الگ فیصلوں میں ان کمپنیوں کی سنگین کوتاہی ثابت ہونے کے بعد مجموعی طور پر 5 کروڑ 75 لاکھ روپے کا بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
نیپرا کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق لیسکو پر 3 کروڑ روپے، گیپکو پر 1 کروڑ 75 لاکھ روپے جبکہ فیسکو پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ اس بنیاد پر عائد کیا گیا کہ تینوں کمپنیاں حادثات کے وقت بروقت اور مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں۔
تحقیقات کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ ان واقعات میں زیادہ تر ہلاکتیں اُن مقامات پر ہوئیں جہاں بجلی کے نظام کی مرمت یا دیکھ بھال کے کاموں کے دوران مناسب حفاظتی پروٹوکول موجود نہیں تھے۔ کئی مقامات پر لائن مین اور دیگر عملہ بغیر حفاظتی آلات کام کرتا پایا گیا، جبکہ بعض حادثات میں ٹوٹی ہوئی تاریں اور بے حفاظتی پولز عوام کے لیے براہِ راست خطرہ بنے رہے۔
نیپرا کی رپورٹ کے مطابق لیسکو کے زیرِ انتظام علاقوں میں سب سے زیادہ 13 اموات رپورٹ ہوئیں، جو کہ کمپنی کی کارکردگی پر سخت سوالیہ نشان ہے۔ گیپکو میں 9 جب کہ فیسکو میں 8 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ تینوں اداروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے تاہم وہ اتھارٹی کو قائل کرنے یا اپنی پالیسیوں اور ذمہ داریوں میں بہتری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔
اس ناکامی نے یہ واضح کردیا کہ متعلقہ کمپنیاں نہ صرف حفاظتی اقدامات میں غفلت برت رہی تھیں بلکہ اندرونی نظام بھی اس قابل نہیں تھا کہ انسانی جانوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دے سکے۔
اتھارٹی نے اپنے حکم نامے میں مستقبل کے لیے نہایت سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ بجلی تقسیم کار ادارے انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لیے واضح، مضبوط اور قابلِ عمل حفاظتی حکمتِ عملی بنائیں۔
نیپرا کی جانب سے یہ بھی لازم قرار دیا گیا کہ لائن اسٹاف کے لیے حفاظتی تربیت اور آلات کو معیار کے مطابق یقینی بنایا جائے جب کہ فیلڈ انسپیکشنز کو مزید سخت اور مسلسل رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ غفلت کے باعث پیش آنے والے یہ حادثات دوبارہ جنم نہ لیں۔