Islam Times:
2025-08-16@01:13:11 GMT

تشدد صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، عاصم افتخار

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

تشدد صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، عاصم افتخار

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں اسرائیل کے جنگی طریقوں اور ہتھکنڈوں پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور مظالم اور بین الاقوامی قوانین کی دیگر خلاف ورزیوں پر فوری احتساب پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ جو سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (قابض فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی بستیوں) پر عملدرآمد سے متعلق ہے، غزہ میں تکلیف اور سفاکی کی سطح کو حیران کن اور ناقابل برداشت قرار دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ بشمول مسئلہ فلسطین پر بریفنگ کے دوران بیان دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سیکرٹری جنرل کے ان الفاظ کا حوالہ دیا، جنہوں نے رپورٹ میں کہا کہ خاندانوں کو بار بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ اب غزہ کی زمین کے پانچویں حصے سے بھی کم جگہ پر محصور ہیں، اور یہ سمٹتی ہوئی جگہیں بھی خطرے سے دوچار ہیں۔ سفیر عاصم نے کہا کہ بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، حالانکہ یونیسیف بارہا خبردار کر چکا ہے کہ غذائی قلت انتہائی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ صرف مئی کے مہینے میں چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 5,100 سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے داخل کیا گیا۔ مارچ میں عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک 6,500 سے زائد مزید جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں اسرائیل کے جنگی طریقوں اور ہتھکنڈوں پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور مظالم اور بین الاقوامی قوانین کی دیگر خلاف ورزیوں پر فوری احتساب پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ نام نہاد نیا امدادی تقسیم نظام نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی وقار کے منافی ہے بلکہ یہ بھوکے شہریوں کو براہ راست خطرے میں ڈال دیتا ہے، کیونکہ انہیں کھانے اور پانی کی تلاش میں فعال جنگی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ خوفناک ہے کہ 500 سے زائد افراد کو صرف انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعی ایک موت کا جال ہے، جیسا کہ سیکرٹری جنرل نے درست طور پر کہا۔ انہوں نے کہا کہ تشدد صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، اسرائیل نے مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں فوجی چھاپوں میں شدت، غیر قانونی بستیوں کی توسیع اور آبادکاروں کے بے لگام تشدد کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوچا کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے 19 جون 2025ء تک مغربی کنارے میں 949 فلسطینی جن میں کم از کم 200 بچے شامل ہیں، شہید کیے جا چکے ہیں اور 40,000 سے زائد افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا، جو 1967ء کے بعد سب سے بڑی جبری بے دخلی ہے۔

سفیر عاصم افتخار نے خبردار کیا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی نہ بنائے تو اس کے سنگین نتائج عالمی امن و سلامتی کے لیے پیدا ہوں گے اور خود سلامتی کونسل کی ساکھ اور اختیار کو زک پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سال اقوام متحدہ کے چارٹر کا 80 واں سال ہے، جو انصاف، امن اور تمام اقوام کی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس چارٹر کے بنیادی اصولوں کو مکمل بے خوفی کے ساتھ مسلسل پامال کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل محض تماشائی نہ بنے۔ اصل مسئلے یعنی غیر قانونی اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ اب وقت ہے کہ مشترکہ عالمی عزم کے تحت مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ مسئلہ فلسطین عرب اسرائیل تنازع کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس مسئلے کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے حل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کو فوری اور دو ٹوک اقدام کرنا ہو گا۔انہوں نے پاکستان کے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں تمام فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے۔ مستقل جنگ بندی بلا تاخیر قائم کی جائے۔ انسانی امداد پر عائد تمام پابندیاں مکمل اور غیر مشروط طور پر ختم کی جائیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کو محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی دی جائے۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب لیگ–او آئی سی منصوبے کی حمایت کی جائے۔ یہ منصوبہ امید بحال کرنے اور پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 پر عملدرآمد کے لیے قابل عمل اور وقت مقرر اقدامات کیے جائیں تاکہ دو ریاستی حل کی گنجائش باقی رہ سکے اور زمین پر مزید غیر قانونی تبدیلیاں روکی جا سکیں۔ قابل اعتبار اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے تاکہ دو ریاستی حل ممکن ہو، جو جون 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو، اور القدس الشریف (یروشلم) کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔ سفیر عاصم افتخار نے مزید کہا کہ اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کے جلد از جلد انعقاد کی حمایت کی جائے تاکہ اس مقصد کو عملی شکل دی جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سفیر عاصم افتخار انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل بین الاقوامی اقوام متحدہ کیا گیا کیا جا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

’’مصور حقیقت‘‘، خواجہ افتخار صاحب

چند روز پہلے اپنے اسٹڈی روم میں ایک کتاب ڈھونڈ رہا تھا کہ دفعتاً خواجہ افتخار صاحب کی کتاب ’’جب امرتسر جل رہا تھا‘‘سامنے آگئی، اور میری آنکھوں کے سامنے برسوں پرانا وہ منظر پھر گیا،جب ایک روز خواجہ صاحب کوئنز روڈ پر ہمارے اخبارکی بلندوبالا بلڈنگ کی دوسری منزل پر میگزین روم میں داخل ہوئے۔

ان کا سانس پھول رہا تھا، اورسرخ و سپید چہرہ مزید سرخ ہو رہا تھا۔ اندر آتے ہی تقریباً لڑکھڑاتے ہوئے،کچھ بولے بغیر، میرے سامنے کرسی پر گر گئے۔ کچھ دیر میں سانس بحال ہوئی تو میں نے پانی دیا۔ پانی کاگھونٹ بھرتے ہی ان کے گول مٹول روشن چہرے پر ان کی مخصوص بچوں کے ایسی معصوم مسکراہٹ لوٹ آئی۔ معلوم ہوا کہ لفٹ خراب ہے اور سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آئے ہیں۔ میں نے چائے کے لیے ملازم کو آواز دی، تو کہنے لگے،’ نہیں، آج چائے نہیں پیوں گا‘۔

بڑھاپے، کمزوری اور ناسازی طبع کے باعث کچھ عرصہ سے ان کے ہاتھوں میں رعشہ کی سی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ چنانچہ، یوں ہی کانپتے ہاتھوں سے یہ کتاب، جو اس وقت میرے سامنے پڑی ہے، اس کا پہلا صفحہ کھولا، اور میرے نام کے ساتھ محبت اور شفقت بھرے بہت سارے القابات رقم کیے، اورکہا، ’’یہ کتاب آپ نے پڑھ رکھی ہے اور آپ کے پاس بھی ہے، مگر یہ نسخہ اس خاکسارکی یادگار کے طور پرآپ کے پاس رہے گا، مولا خوش رکھے۔‘‘ اس نسخہ پر ان کے دستخطوں کے نیچے 19مئی2006 کی تاریخ درج ہے، اور یہ وہ ایام ہیں، جب ان کا چراغ حیات آخری دموں پر تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اگست1980میں جب پہلی بار یہ کتاب شایع ہوئی، تو مسلم ہائی اسکول گجرات میں ہمارے ٹیچر سہیل شاہ صاحب نے، جو کمال کے مقرر بھی تھے، اس پر اسکول اسمبلی میں بڑی جذباتی تقریرکی تھی۔ یہ تقریر اس قدر پُراثر ثابت ہوئی کہ اس روز شام کو، ان کے پاس سے ٹیویشن پڑھ کے واپس آتے ہوئے، میں ضد کرکے یہ کتاب لے آیا، اور رات بھر اس کو پڑھتا رہا، تاکہ دوسرے روز ان کو واپس کر سکوں۔

اس کتاب کا ایک صفحہ تو دل پر نقش ہو گیا، جس پر اوپر نیچے دو تصویریں ہیں۔ یہ کمپنی باغ امرتسرکی ٹھنڈی کھوئی کے دو مناظر ہیں: ایک میں مسلمان بچی کو اوک سے پانی پلایا جارہا ہے، جب کہ دوسری میں ہندوکے لیے گلاس میں پانی ڈالا جا رہا ہے۔

حقیقتاً، یہ ایک تصویر تحریک پاکستان پر لکھی جانے والی سیکڑوں کتابوں پر بھاری ہے۔ خواجہ صاحب نے جلتے ہوئے امرتسر کی یہ داستان خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھی ہے، اور اس پر ان کو بجاطور پر ’مصور حقیقت‘ کے خطاب سے نوازا گیا، مگر اے حمید صاحب نے، جو خود انھی کی طرح امرتسری تھے، اس کا جو دیباچہ تحریرکیا ہے، وہ بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا نثری مرثیہ ہے۔ بعدازاں، خواجہ صاحب کی ’’دس پھول اور ایک کانٹا‘‘ کے نام سے ایک اورکتاب بھی شایع ہوئی، جوگیارہ سیاسی شخصیتوں کے قلمی خاکوں کا مجموعہ ہے،جس میں، شیخ مجیب الرحمان اور آغا شورش کاشمیری کے قلمی خاکے بہت معلومات افزا اور خاصے کی چیز ہیں۔

خواجہ افتخار نے ستمبر1928میں امرتسر کے ایک سفید پوش کشمیری خاندان میں آنکھ کھولی۔ بچپن اور لڑکپن محلہ چوک بجلی والاکی خوابیدہ گلیوں،کمپنی باغ کے درختوں کے جھرمٹ اور اس کی ٹھنڈی کھوئی کی خنک ہواؤں میں گزرے ۔ ان کے گھر والے پکے احراری تھے اور وہ بھی محلہ کے چوک میں احراریوں کی مخصوص سرخ قمیص پہنے تن کے کھڑے نظر آتے تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ایک روز احراری دوست گام لالہ کے ہمراہ امرتسر کے قریب گاؤں اجنالہ احرارکے جلسہ میں شرکت کرنے جا رہے تھے کہ بس میں سوار ان کی ٹولی کو رستے میں مسلمانوں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ خواجہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور وہیں سے لوٹ آئے، اور سیدھے ماموں خواجہ صادق کے پاس پہنچ گئے، جو قائداعظم کے شیدائی تھے۔ ماموں نے بھانجے کے مجلس احرار سے تائب ہونے کا اس طرح جشن منایا کہ اسی وقت لڈو منگوا کے تقسیم کیے۔ اس کے بعد نوجوان خواجہ کی ساری توانیاں تحریک پاکستان کے لیے وقف ہو گئیں۔ تقسیم ہندوستان کے فسادات کے عینی شاہد تھے، بلکہ ان دنوںکلکتہ میں اپنے بھائی خواجہ مختار کے پاس گئے، تو شہر میں خونریزی کے ہولناک مناظر دیکھ کے بیمارہوگئے۔ 24 اگست 1947 کی شام کو جو ٹرین لاہور پہنچی ، اس میں خواجہ اور ان کے گھروالے بھی تھے۔ وہ ہوائی فائرنگ کے خوف سے اپنے سامان کے ٹرنک کی اوٹ میں بیٹھے تھے کہ دیکھا رضاکاروں کی ایک ٹولی لٹے پٹے مہاجروں میں روٹیاں تقسیم کر رہی ہے۔ ’’سخت بھوک لگی تھی عبداللہ صاحب، چنانچہ رضاکار قریب آئے تو میں نے بھی بے ساختہ ہاتھ پھیلا دیا‘‘، اور یہ بتاتے ہوئے خواجہ صاحب کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی تھی،’’ اس رضاکار نے میرے ہاتھ کی طرف دیکھ کر ایک روٹی، جس کے اوپر ہی دال پڑی تھی، میری طرف بڑھا دی، اور یہ پاکستان کی پہلی روٹی کھائی، جو میں نے کھائی اور شکر ادا کیا کہ بحفاظت پاکستان پہنچ گئے ہیں۔‘‘

لاہور میں خواجہ صاحب کو میں نے پہلی مرتبہ اپنے یونیورسٹی دور میں اولڈ کیمپس کے سامنے ٹاون ہال میں دیکھا۔ سقوط مشرقی پاکستان پر کوئی تقریب تھی ا ور اس سانحہ پر وہ اپنی شعلہ بیانی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ذاتی طور پر ان سے شناسائی کچھ عرصہ بعد ایک قومی ہفت روزہ میں ہوئی، جہاں وہ وقتاً فوقتاً آتے رہتے تھے۔ اس وقت بھی پینسٹھ کے پیٹے میں ہوں گے، مگر ہنوز چہرے پر بچوںکے جیسا بھولپن تھا۔ سردیوں میں عام طور پر کوٹ پینٹ اورگرم گلو بند میں نظر آتے، اور جب کبھی شلوار قمیص میں ہوتے، تو اس کے اوپر v گلے والی واسکٹ ضرور پہنتے تھے۔گال سرخ سیب کی طرح، ہونٹ ادھ کھلے گلابی اوربڑی بڑی کشمیری آنکھیں، بات کرتے تو اتنی حلاوت اور شائستگی سے کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب کبھی کسی بات پر غصہ ہوتے ہوں گے، تو اس کا اظہار کیسے کرتے ہوں گے۔ دوست احباب کو آداب بجا لانے کا انداز بھی منفرد تھا۔ کمرے میں داخل ہوکر چند لمحوں کے لیے دروازے کے پاس ہی رکتے، اورسیلوٹ کے انداز میں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر بلند آواز سے سلام کرتے، اور اس کے بعد’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملاتے۔ ’’مولا خوش رکھے‘‘ان کا تکیہ کلام تھا۔ ان کے تعلقات اخباری اداروں میں نیچے سے اوپر تک پھیلے ہوئے تھے، اور وہ ان کو نبھانے کا گُر بھی جانتے تھے۔ آج کل کی اصطلاح کے مطابق وہ سماجی رابطے کی چلتی پھرتی ویب سائٹ تھے۔ بیمہ کمپنی سے وابستہ تھے، اور بے شک اس شعبہ کے لیے ان کی شخصیت آئیڈیل تھی۔

خواجہ صاحب سے میرا تعلق واجبی سطح سے بڑھ کے کچھ خاص اس طرح ہوا کہ ایک بار میں نے ان کو بتائے بغیر ہی ان کی تحریکی زندگی پر دو صفحہ کا ایک مضمون تحریر کیا۔ جس روز یہ مضمون ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میںشایع ہوا، پہلے تو خواجہ صاحب کا محبت بھرا فون آیا، گزشتہ روز بنفس نفیس دفتر تشریف لے آئے، اورکمرے کے اندر داخل ہو کے پہلے تو اسی اپنے مخصوص انداز میں دروازے کے پاس ہی چند لمحوں تک رکے رہے، پھر’ مولا خوش رکھے‘ کہہ کے آگے بڑھ کر شفقت سے گلے لگا لیا، ’’یہ واحدمضمون ہے‘، کہنے لگے، ’’جس کے چھپنے کی مجھ کو پہلے سے خبر نہ تھی، اور اسی وجہ سے مجھے اس کی سب سے زیادہ خوشی ہوئی ہے۔‘‘ اس کے بعد تا دم آخر، جب بھی اور جہاں بھی ملتے، اسی محبت اور شفقت سے ملتے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں آکے ان سے رابطہ اوربھی مستحکم ہو گیا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے بھی ان کی گہری وابستگی تھی۔ خواجہ صاحب کو مگر تحریک پاکستان کی فلسفیانہ موشگافیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی جنم بھومی امرتسر کو جلتے ہوئے، مسلمان مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کٹتے اور خون میں نہاتے ہوئے، اور ان کے گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اوریہی ان کا ’’نظریہ پاکستان ‘‘تھا،جس کی ترویج واشاعت کو وہ اپنی باقی زندگی کا واحد مقصد اور توشہ ء آخر ت سمجھتے تھے۔

اب یاد نہیں کہ اس روزجب انھوں نے اپنی کتاب بطور ِیادگار عنایت کی، اس کے بعد ان سے کوئی ملاقات ہوئی یا نہیں، کہ چندماہ بعدہی یادگار زمانہ اور فسانہ ہو گئے، اور اب ان کو بچھڑے ہوئے بھی سترہ برس بیت چکے ہیں، اور وہ بلندوبالا بلڈنگ، جہاںکبھی وہ بے تابانہ آیا کرتے تھے، آج کسی آسیب زدہ ویران حویلی کا منظر پیش کر رہی ہے، اور ہمارے کمرے کے سامنے سے گزرنے والی وہ سیڑھیاں، جن پر رات گئے تک کسی مصروف شاہراہ کی طرح چہل پہل رہتی تھی،سنا ہے اب قدموں کی چاپ کو بھی ترستی ہیں، جیسے سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی ا ور سب کچھ تنکوں کی طرح بہہ چکا ہو، مگر شاعر نے کہا تھا ،

گفتم زمان عشرت دیدی کہ چوں سر آید

گفتا خموش حافظؔ کاین غصہ ہم سرآید

متعلقہ مضامین

  • ’’مصور حقیقت‘‘، خواجہ افتخار صاحب
  • خوشحال پاکستان کے قیام کیلئے اپنی کوششیں دوگنی کریں، عاصم افتخار
  • سوڈان خانہ جنگی: سلامتی کونسل نے متوازی حکومت کا قیام مسترد کر دیا
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی کامیابی پر دنیا حیران رہ گئی: مریم نواز
  • 14اگست اور دوسرے قومی دنوں پر پی ٹی آئی کا پر تشدد احتجاج معمول بن گیا: خواجہ آصف
  • پاک فوج روایتی، غیر روایتی اور ہائبرڈ خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح لیس ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • سوزوکی نے اپنی مشہور زمانہ گاڑی پر بڑی آفر لگا دی ، ساڑھے4 لاکھ بچت کا موقع
  • 14اگست اور دوسرے قومی دنوں پر پی ٹی آئی کا پر تشدد احتجاج روٹین بن گیا: خواجہ آصف
  • پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے، ڈاکٹر محمد طاہر القادری
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے آذربائیجان کے چیف آف جنرل سٹاف کی ملاقات،عالمی و علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال