اولمپکس 2028: کرکٹ کے مقابلوں میں پاکستان کی شمولیت کیسے ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
پاکستان نے لاس اینجلس میں 2028 کے اولمپک کھیلوں میں کرکٹ کی تاریخی واپسی کے لیے اپنی بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یہ کرکٹ کی پہلی بار پیرس 1900 کے بعد دوسری بار اولمپکس میں شمولیت ہوگی۔
ایل اے 2028 کی تنظیمی کمیٹی مردوں اور خواتین کے کرکٹ مقابلے یکم جولائی سے 29 جولائی تک منعقد کرے گی، جس میں ہر کیٹگری میں 6 ٹیمیں شامل ہوں گی۔ امکان ہے کہ کوالیفائنگ مرحلہ علاقائی بنیادوں پر ہوگا۔ بھارت (ایشیا) اور آسٹریلیا (اوشیانا) اپنے رینکنگ کی بنیاد پر براہ راست کوالیفائی کر جائیں گے، جبکہ دیگر ممکنہ ٹیموں میں برطانیہ، جنوبی افریقہ اور میزبان امریکا شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: اولمپکس 2028: کرکٹ کے کوالیفائنگ فارمولے پر اتفاق، پاکستان کے لیے بُری خبر
چھٹی اور آخری جگہ کے لیے مختلف ممالک میں مقابلہ ہوگا جس میں کیریبین ممالک یا کوئی اور ایشیائی ٹیم شامل ہو سکتی ہے۔ موجودہ کوالیفیکیشن معیار کے باعث پاکستان اور نیوزی لینڈ کے اولمپکس میں شامل ہونے کے امکانات خطرے میں ہیں، تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اپنی جگہ یقینی بنانے کے لیے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی سی بی ذرائع کے مطابق وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور ایل اے گیمز کمیٹی کو خطوط بھیجے گا تاکہ کم از کم ایک سال قبل کوالیفیکیشن کی واضح تاریخ مقرر کی جائے۔ سابق کپتان راشد لطیف نے بھی پی سی بی سے کہا ہے کہ وہ ان اداروں سے رابطہ کرکے مارچ 2028 میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے نتائج کو کوالیفیکیشن معیار بنانے کی سفارش کرے۔
مزید پڑھیں: 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ سمیت 5 نئے کھیل شامل
آئی سی سی ٹی 20 رینکنگ میں پاکستان 8ویں نمبر پر ہے اور آنے والے میچوں میں اچھی کارکردگی سے ٹیم اپنی پوزیشن بہتر کرکے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
پی سی بی اس موقع کو قومی فخر بڑھانے اور پاکستانی کرکٹ کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اگلے چند ماہ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہوں گے تاکہ وہ 2028 کے اولمپک کرکٹ مقابلوں میں اپنی جگہ پکا کر سکے اور کرکٹ کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا اولمپکس 2028 پاکستان کرکٹ پی سی بی نیوزی لینڈ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا اولمپکس 2028 پاکستان کرکٹ پی سی بی نیوزی لینڈ پی سی بی کے لیے
پڑھیں:
کراچی کی تقسیم جائز ہے توسندھ کی غلط کیسے؟ پنجاب میں صوبہ بن سکتاہے توسندھ میں کیوں نہیں؟ خالد مقبول
وفاقی وزیرِ تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی کی تقسیم جائز ہے تو سندھ کی تقسیم غلط کیسے ہے؟ پنجاب اور کے پی کے میں صوبے بن سکتے ہیں تو سندھ میں صوبہ کیوں نہیں بن سکتا، مرتضی وہاب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، مرتضیٰ وہاب پر ان کی اپنی پارٹی بھی اعتماد نہیں کرتی۔
خالد مقبول صدیقی نے کراچی چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا یہاں موجود ہے، صرف اتنا سچ بولوں گا جتنی جمہوریت آزاد ہے کیونکہ میں نے نصف زندگی جلا وطنی میں گزاری ہے، جماعت اسلامی کا مشکور ہوں کہ ہمارے سب کافرانہ نعرے اب آپ کے بینرز پر آویزاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی دنیا میں فلاح وبہبود کا دارالحکومت ہے، کراچی دنیا کی مدد کررہا ہے لیکن کراچی کی کوئی مدد نہیں کررہا ہے، ماضی میں امریکی صدر لندن بی جانسن نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا، بھارت نے لندن بی جانسن سے ایم آئی ٹی یونیورسٹی کا مطالبہ کیا اور پاکستان نے گندم مانگی، ان مطالبات کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں وہ فیکٹریاں لگانی ہیں جو علم سے دانش کو کشید کرسکیں، دنیا کی بڑی کمپنیاں تو اب ڈگری کا مطالبہ ہی نہیں کررہی ہیں، رئیس امروہوی نے 60 کی دہائی میں ایم کیو ایم سے پہلے ہی کراچی میں یومِ سیاہ پر اشعار لکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سید مودودی اور شاہ احمد نورانی دونوں کراچی سے تھے، کراچی میں ہر برینڈ کی مسلم لیگ موجود تھی، کراچی میں دودھ اور شہر کی نہریں بہتی تھیں تو ہم کہاں سے آگئے، 1993میں ایم کیو ایم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تب کون سے حالات بہتر ہوئے؟
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 2013 میں ایم کیو ایم کے 24 نمائندے تھے اور 2018 میں محض 7 نشستیں تھیں، پی ٹی آئی کے کسی ایک نمائندے نے بھی کراچی کیلئے آواز بلند کی؟
کراچی میں شناخت کا بحران پیدا ہوگیا ہے، 1972 کی نینشنلائزیشن فیوڈلائزیشن تھی، پاکستان کی صنعت کو جاگیرداروں کے ہاتھ سونپ دیا گیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ لسانیت کی بنیاد پر مہاجروں نے سب سے آخر میں تنظیم بنائی، بھٹو صاحب نے کوٹہ سسٹم سندھ میں لاگو کیا، پنجاب کے کسانوں کی انہیں فکر کیوں نہ ہوئی؟
17 سال سے حکومت ایم کیو ایم کے پاس نہیں ہے، اقوامِ متحدہ اور عالمی بینک کراچی کو زندگی کے قابل شہر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، کلِک جیسے پروگرام شروع کیے جارہے ہیں، 1970 اور 2008 سے قبل پاکستان بہتر تھا، بعد میں ایسا کیا ہوگیا۔
ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ ملک میں تجارتی خسارہ نہیں ہے البتہ اعتماد کا کا خسارہ ضرور ہے، پاکستان میں معاشی نہیں نیتوں کا بحران ہے، مالی دیوالیہ کو رو رہے ہیں ہمارا اخلاقی زوال ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فن لینڈ نے پروگرام دیا جن صاحب کو کراچی نے ووٹ دیا ان کی میز پر وہ پڑا رہا، اسلام آباد کچھ نہیں کریگا، کراچی چیمبر آئے تعلیم میں شراکت داری کرے، عوام جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس سے ارکانِ قومی اسمبلی کو تنخواہیں ملتی ہیں، عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان کی بجائے کہیں اور کیوں لگتا ہے آخر؟
انہوں نے کہا کہ تعلیم ہی آخری راستہ ہے، کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم بھتے لیتی ہے،
چندے اور بھتے میں صرف رویے اور پالسیی کا فرق ہے، فلسفی سقراط نے 2500 سال قبل کہا تھا کہ آپ کی شناخت ہی آپ کا مقدر ہے، پورا ملک ہمیں مہاجر کہہ رہا تھا اور ہم خود کو مہاجر نہیں کہہ رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں 35 سال سے کم عمر افراد کی آبادی 18 کروڑ ہے اور 30 سال سے کم عمر کے لوگ 15 کروڑ ہیں، سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی نوجوان آبادی کو تعلیم اور روزگار کون دے گا؟ ہمارے پاس سوائے ہیومن کیپیٹل کے کوئی بڑی ایکسپورٹ کا ذریعہ نہیں ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ آئین کی 50ویں سالگرہ پر مجھے بلایا گیا، مجھے یہ بتا دیں آئیں سے پہلے والا پاکستان اچھا تھا یا بعد کا؟ جب آئین پاس ہو رہا تھا تو قومی اسمبلی کے 55 فیصد لوگ موجود ہی نہیں تھے، 1970 کے الیکشن میں جو ہارا وہ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم ایسے صوبے میں رہتے ہیں جہاں ان کا مطالبہ ہے کہ ہم نہ پڑھیں، ہم کراچی میں تین یونیورسٹیاں لے کر آئے ہیں، ہمارے پاس کراچی کا 85 فیصد مینڈیٹ ہے لیکن ہمارے پاس کراچی کی زمین نہیں ہے، 2018 میں جب انقلاب آیا تو صدر اور وزیراعظم یہیں سے منتخب ہوئے تھے، کراچی والوں نے یونیورسٹیوں کا مطالبہ کیوں نہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 22 اگست کے بعد والی مردم شماری ایم کیو ایم نے کروائی تھی، کراچی کا مسئلہ ایک ماہ میں حل کر سکتے ہیں، کراچی میں گندم ساڑھے 3 کروڑ لوگوں کیلئے آتی ہے اور آبادی ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے، 20 سالوں میں سب سے زیادہ اربنائزیشن کراچی میں ہوئی ہے، کابل سے زیادہ افغانی کراچی میں رہتے ہیں، مردم شماری میں گمشدہ ہوئے آدھے افراد کو بازیاب کروا لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ تو پاکستان کے سو بڑے مسائل میں ہے ہی نہیں تو اس پر بات کیوں کریں؟ کسی قوم کو کرکٹ اتنی مہنگی نہیں پڑی جتنا ہمیں ورلڈ کپ پڑا، خود اندازہ لگا لیں کہ ہمیں ورلڈ کپ کتنا مہنگا پڑا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جنگ اور محبت میں ہی نہیں، سیاست میں بھی ہر چیز جائز ہے، کراچی میں 100 غیر رسمی اسکول شروع کروا دیے ہیں، بزنس کمیونٹی سے گزارش ہے کہ وہ ان کو چلانے کی ذمہ داری لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 30 سے 35 سالوں میں دنیا میں اتنی شدید تبدیلی رونما ہوگی کہ 1 ارب لوگ غیر متعلقہ ہو جائیں گے، ایم کیو ایم ملک دشمن اس لیے قرار پاتی ہے کہ وہ صوبوں کا مطالبہ کرتی ہے، پاکستان دھرتی ماں ہے کوئی صوبہ دھرتی ماں نہیں ہے، کیا اس میں کوئی متنازع بات ہے، یہ تو آئین میں موجود ہے، جب ضلع اور ڈویژن بڑھتے چلے گئے تو صوبے کیوں نہ بڑھے؟
انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے خود کو ملک تصور کرنے لگے، مردم شماری ہر 5 سال بعد کروانے کا مطالبہ ہم سب کو مل کر کرنا چاہیے، صوبے کے مطالبے کو غداری قرار دینا خود سب سے بڑی غداری ہے۔
ان کا کہنا تھا آج کراچی کے جو حالات ہیں، اس میں قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، اتنے بڑے اتفاقِ رائے کے دوران کراچی والوں کو بھی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے بنائے گئے اسکول 17 سال سے ویران پڑے ہیں
ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایسی جمہوریت کی ہمیں ضرورت نہیں جس کے ثمرات عام پاکستانی کو نہ پہنچیں، پاکستان کی سیاست کے جمعہ بازار کے ساتھ ہم آہنگ ہونا آسان ہے، تاہم ہم نے مشکل راستہ چنا، ایم کیو ایم واحد ایسی جماعت ہے جو خاندانی نہیں ہے، میرے ہونے نہ ہونے سے ایم کیو ایم کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک اور بھی ایسی جماعت ہے جس کا اگر لیڈر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں ہوگی۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ کراچی کی مردم شماری، حلقہ بندی اور ووٹر لسٹ کو درست کروانے کا مطالبہ کیا جائے، کراچی کے پانی اور نکاسی کے منصوبے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے دیے گئے ہیں، پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں کراچی کا سب سے سنہرا دور 1990ء سے 1992ء تک کا تھا، بہت سے لوگوں کو کراچی کا امن نہیں بدامنی بہتر لگتی ہے، آگمینٹیشن اگر نہ آئی تو ٹینکر مافیا ارب پتی سے کھرب پتی بن جائے گا۔
خالد مقبول کا کہنا تھا کہ کراچی کی تقسیم جائز ہے تو سندھ کی تقسیم غلط کیسے ہے؟ پنجاب اور کے پی کے میں صوبے بن سکتے ہیں تو سندھ میں صوبہ کیوں نہیں بن سکتا، مرتضی وہاب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، مرتضیٰ وہاب پر ان کی اپنی پارٹی بھی اعتماد نہیں کرتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے مسئلے پر ایم کیو ایم نے 11 پریس کانفرنس کی ہیں، 1972 میں 67 لاکھ کی آبادی مردم شماری میں 36 لاکھ کردی گئی تھی۔