پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کی تحویل میں موجود قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ قونصلر معاہدے کے تحت قیدیوں کی سالانہ فہرستوں کا تبادلہ عمل میں آیا، جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی تفصیلات فراہم کیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ تبادلہ 2008 میں طے پانے والے قونصلر رسائی معاہدے کے تحت کیا گیا، جس کے تحت پاکستان اور بھارت ہر سال دو مرتبہ، یکم جنوری اور یکم جولائی کو قیدیوں کی فہرستیں ایک دوسرے کو فراہم کرنے کے پابند ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو 246 قیدیوں کی فہرست فراہم کی، جن میں 53 عام شہری اور 193 ماہی گیر شامل ہیں، جو یا تو بھارتی شہری ہیں یا بھارتی شہری تصور کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کو 463 پاکستانی قیدیوں کی فہرست دی، جن میں 382 عام شہری اور 81 ماہی گیر شامل ہیں۔
پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام پاکستانی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے جن کی سزائیں مکمل ہو چکی ہیں اور جن کی شہریت کی باقاعدہ تصدیق کی جا چکی ہے۔
دفتر خارجہ نے ان قیدیوں کے لیے خصوصی قونصلر رسائی کی بھی درخواست کی ہے جو ذہنی یا جسمانی طور پر معذوری کا شکار ہیں، تاکہ ان کی شہریت کی جلد تصدیق ممکن بنائی جا سکے۔
ترجمان نے زور دیا کہ بھارتی حکام جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں کی صحت، سلامتی اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھیں، اور انہیں ہر ممکن قانونی و قونصلر سہولیات فراہم کی جائیں۔
حکومت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر قیدیوں کے معاملے کو نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں جاری رہیں گی تاکہ جلد از جلد ان کی وطن واپسی ممکن بنائی جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت قیدیوں کی کے تحت
پڑھیں:
شکست خوردہ بھارت خطرناک راستے پر گامزن۔
تحریر:راشدعباسی
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسزکے قافلے پر خود کش حملےمیں 13 اہلکارجام شہادت نوش کرگئے جب کہ سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں 14 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت کی منصوبہ بندی اور سرپرستی میں فتنہ الخوارج نے قافلے کو نشانہ بنایا،دہشت گردی کایہ المناک واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا جب فیلڈمارشل سیدعاصم منیر نے کراچی میں پاکستان نیوی کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کے دوران قوم کویہ نوید سنائی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے،واقعہ کے بعد فیلڈ مارشل پشاورپہنچے جہاں انہیں کورہیڈکوارٹرزمیں سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دی گئی،انہوں نے بنوں گیریژن میں حالیہ دہشت گرد حملے کے شہدا کی نمازِ جنازہ میں شرکت اور سی ایم ایچ بنوں میں زیرِ علاج زخمی جوانوں کی عیادت بھی کی،انہوں نے کہاکہ قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یکجا اور پرعزم ہے، اس ناسور کو ہر صورت اور ہر شکل میں مکمل طور پر ختم کیا جائے گا،انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیاکہ دہشت گردی کے تمام سہولت کاروں، مددگاروں اور مجرموں کو بلا امتیاز اور ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا ،پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کی طویل تاریخ ہے ،حالیہ عرصے میں بلوچستان میں جعفرایکسریس اور خضدرمیں سکول بس پر حملوں میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے ، پاکستان بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے ناقابل تردیدثبوت بھار ت کو فراہم کرنے کے علاوہ کئی بار دنیاکے سامنے بھی پیش کرچکاہے،2009میں دہشت گردی کے ثبوتوں سے بھرا ڈوزیئر شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کو پیش کیا، 2015 میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا ،2016 میں دنیا نے بلوچستان میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا بیوقوفانہ چہرہ کلبھوشن یادو کی شکل میںد یکھا جوکہ بھارتی بحریہ کا حاضرسروس افسر تھا، جس نے بھارتی حکومت کے احکام پر انجام دیے گئے اپنے تمام گھناؤنے جرائم اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کا اعتراف کیا، 2019 میں ایک مرتبہ پھر بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں سے بھرا ڈوزیئر اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا،بھارت صرف پاکستان میں ہی دہشت گردی میں ملوث نہیں ملک دنیادیگرممالک میں بھی اس کی دہشت گردی بے نقاب ہوچکی ہے، کینیڈا، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں سکھ رہنماؤں کےقتل کی منصوبہ بندی اور مخالف آوازوں کو دبانےکے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بین الاقوامی سطح پر بھی دہشت گردی میں ملوث ہے،دنیا میں امن کے قیام کے لئے ریاستوں کے درمیان باہمی احترام، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور داخلی و خارجی خودمختاری کی اہمیت مسلمہ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت، جو ایک بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے، مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے جو نہ صرف خطے کے امن کے لئے خطرہ ہیں بلکہ اس کی پالیسیوں سے یہ واضح ہورہاہے کہ وہ دہشت گردی کو بطورہتھیار استعمال کر رہا ہےاور بھارتی ریاستی ادارے منظم طریقے سے ریاستی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں، ستم طریفی یہ ہے کہ عالمی برادری تمام ترحقائق سے آگاہ ہونے کے باوجودبھارتی دہشت گردی کے معاملے پر مصلحت کاشکارہے جس کی بڑی وجہ ان کے مفادات ہیں،اس صورت حال میں بھارت کی طرف سے دہشت گردی کو بطورریاستی پالیسی استعمال کرنے کی پالیسی عالمی امن کے لئے خطرہ بنتی جارہی ہے،لہذاعالمی برادری کو اس حقیقت کاادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے دہشت گردی کو بطورریاستی پالیسی استعمال کرنے کاسلسلہ بندنہ کرایاگیااور اس کے آگے بند نہ باندھ گیاکہ توآج مفادات کی بنیادپرمجرمانہ خاموشی اختیارکرنے والے بھی کسی بڑے نقصان سے محفوظ نہیں رہیں گے، لہذامفادات کی بجائے انسانیت کے تحفظ کو مقدم رکھاجا ناچاہئے، عالمی برادری یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان سمیت بیرون ممالک میں بھارتی دہشت گردی کاسختی سے نوٹس لیں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بھی اس پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے، امن کے دعویدار ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم سے باز آئے اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیںکہپاکستانی سکیورٹی فورسزدہشت گردی سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت اوراہلیت رکھتی ہیں،ماضی میں کئے گئے آپریشن رَدُ الفَساد ، آپریشن ضربِ عضب، آپریشن کوہِ سفید،آپریشن راہِ نجات،آپریشن راہِ راست اور آپریشن راہ حق پاکستانی فورسز کی اہلیت ،صلاحیت اور مہارت کا ثبوت ہے،ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی اس ناسورکے خلاف کامیابی کے حوالے سے فیلڈمارشل کے بیان کی تائیدہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب بھارت روایتی جنگ اور پھرسفارتی محاذ پر پاکستان سے بری طرح شکست کھانے کے بعد اپنے زخم چاٹنے پر مجبورہے اوربے بسی کے عالم میں انتقام کی آگ میں جل رہاہے ،وہ پاکستان میں دہشت گردی کوپھرسے بڑھاوادے سکتاہے،یقیناً ہماری بہادر سکیورٹی فورسز دشمن کی ہرچال پرنظررکھے ہوئے ہیںلیکن اس ضمن میں عوام کو بھی زیادہ محتاط رہنے اور اپنی فورسزکے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی ضرورت ہے ، ریاستی ادارے، خصوصاً افواج پاکستان، پولیس اور خفیہ ایجنسیاںدہشت گردی کے ناسور کے خلاف قربانیاں دے رہی ہیں تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ صرف سکیورٹی ادارے ہی اس جنگ کو تنہا نہیں جیت سکتے۔ اس کے لیے عوام کا تعاون کلیدی اہمیت رکھتا ہے،دہشت گردی ایک اجتماعی مسئلہ ہے، جسے اجتماعی شعور اور تعاون سے ہی شکست دی جا سکتی ہے ، ہمیں بطور قوم متحد ہوکر یہ پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت اور نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں، جب تک ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گا، تب تک پائیدار امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا،خاص طور پر بھارتی دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک پرامن اور محفوظ پاکستان فراہم کیا جا سکے، امیدہے کہ عوام کے تعاون اور سکیورٹی فورسزکی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان جلد ایک بارپھر امن کا گہوارہ بنے گا جو پائیدارمعاشی ترقی اور خوشحالی کے ہدف کے حصول کے لئے ناگزیرہے۔