Islam Times:
2025-11-19@01:23:17 GMT

ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل میں شدید اقتصادی بحران

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل میں شدید اقتصادی بحران

اسلام ٹائمز: اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ تحریر: فاطمہ محمدی
 
ایران کے خلاف جنگ نے پورے مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی رژیم پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ ان کا ایک نتیجہ وسیع پیمانے پر صیہونی آبادکاروں کی اسرائیل چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب سفر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ایران کے خلاف بارہ روزہ جنگ کے آغاز میں ہی بڑی تعداد میں صیہونی آبادکار اسرائیل چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے تھے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف جنگ کے سنگین نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور سیکورٹی خدشات کے باعث کم از کم ایک تہائی اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا سوچ رہے ہیں۔" عبرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاکلیٹ، کافی، کولڈ ڈرنک، چاول اور چند دیگر زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔
 
دوسری طرف 52 فیصد اسرائیلی شہریوں نے قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے بعد اپنی مالی حالت ابتر ہو جانے کی خبر دی ہے۔ اقتصادی اخبار کولیکٹو سے وابستہ فیکٹو اسٹریٹجک ریسرچ نامی کمپنی کی جانب سے انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ذرائع ابلاغ میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں صیہونی آبادکاروں کی کھانے پینے کی عادات بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہ بہت سی غذائیں چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سروے میں شرکت کرنے والے افراد کی اکثریت یعنی 95 فیصد نے بتایا کہ خاص طور پر گذشتہ ایک سال کے دوران زندگی کے اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ان میں سے 30 فیصد نے بتایا کہ وہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
 
80 فیصد شرکت کرنے والے افراد شدید مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہے تھے اور شدید مالی اور اقتصادی بحران کے باعث اس کی سرزنش کرنے میں مصروف تھے۔ مختلف رپورٹس میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی معیشت شدید جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ 52 فیصد شرکت کرنے والے افراد نے اپنی مالی حالت شدید خراب ہونے کی اطلاع دی ہے جبکہ 25 فیصد کا کہنا تھا کہ زندگی کے اخراجات کے لیے وہ اپنے اہلخانہ، دوستوں یا فلاحی مراکز پر انحصار کر رہے ہیں۔ شرکت کرنے والے تمام افراد اس بات پر اتفاق نظر رکھتے تھے کہ جنگی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات نے اسرائیلی شہریوں کا لائف اسٹائل شدید متاثر کر دیا ہے۔
 
اس سروے رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں 90 فیصد شرکت کرنے والوں نے بتایا کہ انہوں نے شدید مہنگائی کی بدولت اپنا طرز زندگی تبدیل کر لیا ہے۔ 60 فیصد آبادکاروں کا کہنا تھا کہ اب وہ ہوٹل جا کر کھانا نہیں کھاتے یا ہوٹلنگ میں کمی کر دی ہے کیونکہ قیمتوں میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ 42 فیصد نے کہا کہ انہوں نے سپر مارکیٹس سے خرید میں کمی کر دی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدنا کم کر دی ہیں۔ اسی طرح 36 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ باہر سے کھانا منگوانا بہت کم کر دیا ہے۔ عبرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران سے جنگ کے بعد اکثر آبادکار توقع کر رہے تھے کہ زندگی معمول پر آ جائے گی لیکن کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ عبرانی اخبار کیلکولیسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ یکم جولائی سے قیمیتیں بڑھ جائیں گی۔
 
اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
 
دوسری طرف صیہونی ذرائع ابلاغ پر لاگو شدید سینسرشپ کے باوجود ایران کے خلاف جنگ میں صیہونی رژیم کو پہنچنے والے شدید نقصانات منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد صیہونی ذرائع ابلاغ کنٹرول شدہ معلومات دھیرے دھیرے اور مرحلہ وار منظرعام پر لا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں صیہونی میڈیا پر شائع ہونے والی اقتصادی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے مختلف فوجی اور دیگر مراکز کو 12 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالواسطہ طور پر پہنچنے والے نقصانات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ رقم 20 ارب ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ عبرانی اخبار یدیعوت آحارنوت کے مطابق صرف حکومتی خزانے کو ایران کے خلاف جنگ میں 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غذائی اشیاء کی شدید قلت کھانے پینے کی اشیاء ایران کے خلاف جنگ قیمتوں میں اضافہ اسرائیل چھوڑ کر صیہونی آبادکار شرکت کرنے والے ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ چھوڑ کر چلے میں صیہونی ہونے والی کے مطابق کر دی ہے کے باعث جنگ کے دیا ہے ہو گئی کے بعد ہے اور دی ہیں

پڑھیں:

جڑواں شہروں میں چینی کا بحران، قیمتیں قابو سے باہر

اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقامی چینی ناپید ہونے لگی، انتظامیہ مکمل ناکام
دکاندار سرکاری ریٹ کے برعکس من چاہے نرخوں پر چینی فروخت کرنے لگے

جڑواں شہروں میں مقامی چینی ناپید ہونے لگی، دکاندار سرکاری ریٹ کے برعکس من چاہے نرخوں پر چینی فروخت کرنے لگے۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد میں چینی کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں انتظامیہ مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے ۔پورٹ کے مطابق جڑواں شہروں میں چینی کے سرکاری نرخ تو 179 روپے فی کلو مقرر ہیں لیکن چینی کسی بھی دکان پر دستیاب نہیں، مارکیٹ میں بیرون ممالک سے درآمد کی گئی باریک پاؤڈر نما چینی کو بھی متعارف کرایا گیا ہے لیکن باریک چینی خریدنے پر گاہک رضا مند نہیں۔دوسری جانب کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں سرکاری ریٹ 173 روپے فی کلو پر چینی سپلائی کی جائے تو ہم بھی مقررہ نرخ 179 روپے کلو فروخت کے لیے تیار ہیں، ضلعی انتظامیہ ہمیں یہ بتا دے تھوک ریٹ 173 روپے فی کلو پر چینی کس ہوسیلر کے پاس دستیاب ہے۔ایسوسی ایشن کی جانب سے مہنگی چینی خرید کر کم ریٹ پر فروخت کرنے سے معذرت کرتے کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ گاڑیوں اور اتوار بازاروں میں سستی چینی کے اسٹال لگائے، ہمیں تھوک میں چینی 187 روپے کلو ملتی ہے او ر 12 روپے فی کلو ہمارا خرچہ ہے۔کریانہ ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ آج ڈیزل کے نرخوں میں اضافے سے لوڈنگ ان لوڈنگ ٹرانسپورٹیشن ریٹ مزید بڑھ گئے ہیں، پیر سے چینی اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ادھر ملتان کی عام مارکیٹوں میں چینی 185 سے 188 روپے، پشاور میں 210 روپے ،فیصل آباد مارکیٹ میں 190 روپے جبکہ لاہورمیں 190 سے 200 روپے اور کوئٹہ میں پرچوں کی دکانوں میں چینی 220 روپے فی کلو تک فروخت کی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایل این جی قیمتوں میں1.97 فیصد تک کا مزید اضافہ کردیا گیا
  • کرپٹو مارکیٹ میں شدید مندی؛ بٹ کوائن ایک ہفتے میں 13 فیصد گر گیا
  • جڑواں شہروں میں چینی کا بحران، قیمتیں قابو سے باہر
  • 90 فیصد شوگر ملز غیر فعال، ملک میں چینی کا مصنوعی بحران
  • افغانستان کی صنعتی و تجارتی نمائش میں ایران کی بھرپور شرکت
  • ایران میں بدترین خشک سالی، شہریوں کو تہران خالی کرنا پڑسکتا ہے، ایرانی صدر
  • :صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا غیر قانونی آباکاروں کیلیے کھول دیا
  • صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا کر قبضہ گیروں کیلئے کھول دیا
  • صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا کر غیر قانونی آباکاروں کیلیے کھول دیا
  • صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا غیر قانونی آباکاروں کیلیے کھول دیا