ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل میں شدید اقتصادی بحران
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ تحریر: فاطمہ محمدی
ایران کے خلاف جنگ نے پورے مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی رژیم پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ ان کا ایک نتیجہ وسیع پیمانے پر صیہونی آبادکاروں کی اسرائیل چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب سفر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ایران کے خلاف بارہ روزہ جنگ کے آغاز میں ہی بڑی تعداد میں صیہونی آبادکار اسرائیل چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے تھے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف جنگ کے سنگین نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور سیکورٹی خدشات کے باعث کم از کم ایک تہائی اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا سوچ رہے ہیں۔" عبرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاکلیٹ، کافی، کولڈ ڈرنک، چاول اور چند دیگر زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔
دوسری طرف 52 فیصد اسرائیلی شہریوں نے قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے بعد اپنی مالی حالت ابتر ہو جانے کی خبر دی ہے۔ اقتصادی اخبار کولیکٹو سے وابستہ فیکٹو اسٹریٹجک ریسرچ نامی کمپنی کی جانب سے انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ذرائع ابلاغ میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں صیہونی آبادکاروں کی کھانے پینے کی عادات بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہ بہت سی غذائیں چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سروے میں شرکت کرنے والے افراد کی اکثریت یعنی 95 فیصد نے بتایا کہ خاص طور پر گذشتہ ایک سال کے دوران زندگی کے اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ان میں سے 30 فیصد نے بتایا کہ وہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
80 فیصد شرکت کرنے والے افراد شدید مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہے تھے اور شدید مالی اور اقتصادی بحران کے باعث اس کی سرزنش کرنے میں مصروف تھے۔ مختلف رپورٹس میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی معیشت شدید جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ 52 فیصد شرکت کرنے والے افراد نے اپنی مالی حالت شدید خراب ہونے کی اطلاع دی ہے جبکہ 25 فیصد کا کہنا تھا کہ زندگی کے اخراجات کے لیے وہ اپنے اہلخانہ، دوستوں یا فلاحی مراکز پر انحصار کر رہے ہیں۔ شرکت کرنے والے تمام افراد اس بات پر اتفاق نظر رکھتے تھے کہ جنگی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات نے اسرائیلی شہریوں کا لائف اسٹائل شدید متاثر کر دیا ہے۔
اس سروے رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں 90 فیصد شرکت کرنے والوں نے بتایا کہ انہوں نے شدید مہنگائی کی بدولت اپنا طرز زندگی تبدیل کر لیا ہے۔ 60 فیصد آبادکاروں کا کہنا تھا کہ اب وہ ہوٹل جا کر کھانا نہیں کھاتے یا ہوٹلنگ میں کمی کر دی ہے کیونکہ قیمتوں میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ 42 فیصد نے کہا کہ انہوں نے سپر مارکیٹس سے خرید میں کمی کر دی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدنا کم کر دی ہیں۔ اسی طرح 36 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ باہر سے کھانا منگوانا بہت کم کر دیا ہے۔ عبرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران سے جنگ کے بعد اکثر آبادکار توقع کر رہے تھے کہ زندگی معمول پر آ جائے گی لیکن کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ عبرانی اخبار کیلکولیسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ یکم جولائی سے قیمیتیں بڑھ جائیں گی۔
اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
دوسری طرف صیہونی ذرائع ابلاغ پر لاگو شدید سینسرشپ کے باوجود ایران کے خلاف جنگ میں صیہونی رژیم کو پہنچنے والے شدید نقصانات منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد صیہونی ذرائع ابلاغ کنٹرول شدہ معلومات دھیرے دھیرے اور مرحلہ وار منظرعام پر لا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں صیہونی میڈیا پر شائع ہونے والی اقتصادی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے مختلف فوجی اور دیگر مراکز کو 12 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالواسطہ طور پر پہنچنے والے نقصانات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ رقم 20 ارب ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ عبرانی اخبار یدیعوت آحارنوت کے مطابق صرف حکومتی خزانے کو ایران کے خلاف جنگ میں 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غذائی اشیاء کی شدید قلت کھانے پینے کی اشیاء ایران کے خلاف جنگ قیمتوں میں اضافہ اسرائیل چھوڑ کر صیہونی آبادکار شرکت کرنے والے ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ چھوڑ کر چلے میں صیہونی ہونے والی کے مطابق کر دی ہے کے باعث جنگ کے دیا ہے ہو گئی کے بعد ہے اور دی ہیں
پڑھیں:
پشاور، گلوبل صمود فلوٹیلا پر صیہونی کارروائی کیخلاف جماعت اسلامی کی ریلی
پشاور میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صابر حسین اعوان کا کہنا تھا کہ غزہ اور فلسطین میں 80 ہزار انسانوں کے قتل عام میں امریکی صدر ٹرمپ نینتن یاہو کا اصل سہولت کار ہے۔ بحر اللہ خان کا کہنا تھا کہ اسرائیل و فلسطین کے حوالے سے دو قومی نظریہ قائداعظم محمد علی جناح رح کے ویژن اور ہماری قومی پالیسی سے متصادم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماعت اسلامی پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت صمود فلوٹیلا کے دیگر شرکاء کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کی کال پر جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور صوبائی جنرل سیکرٹری صابر حسین اعوان اور ضلعی امیر بحراللہ خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد درویش پشاور کینٹ سے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی، جو خانہ فرہنگ ایران، پشاور کلب، چرچ روڈ اور ایئرپورٹ روڈ سے ہوتی ہوئی امریکن قونصلیٹ کے سامنے شمع چوک پہنچی، جہاں پر احتجاجی جلسے سے جماعت اسلامی کے قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز مظلومین غزہ کے لئے خوراک اور ادویات لے جانے والی گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی نیوی نے عالمی قوانین کے خلاف ایک ایسے مقام پر حملہ کیا جو ان کی حدود سے باہر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اس عالمی مشن میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سنیٹر مشتاق احمد خان کو بھی دیگر سماجی کارکنان سمیت گرفتار کیا ہے جس کا حکومت پاکستان فوری نوٹس لے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف اسرائیل گزشتہ دو سالوں سے غزہ اور فلسطین میں معصوم بچوں، خواتین اور نہتے فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث ہے جس نے اب تک 80 ہزار بے گناہ شہریوں کو شہید ایک لاکھ سے زائد کو زخمی یا مغذور کیا ہے اور غزہ میں خوراک، ادویات اور رسد پہنچانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں جبکہ دوسری طرف طرف امریکی صدر ٹرمپ ان تمام مظالم اور انسانیت سوز مظالم میں اسرائیل اور نینتن یاہو کا سب سے بڑا سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔