Jasarat News:
2025-08-17@05:40:38 GMT

لیڈر نہیں، مرشد

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

(2)
مجھے میاں طفیل محمد کے ساتھ کام کرنے کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ جب 1987 میں، میں جماعت اسلامی حیدرآباد کا نائب قیّم تھا تو میاں صاحب کی جگہ محترم قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان بن چکے تھے۔ 1993 میں جب میں پہلی بار مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تب میں جماعت اسلامی حیدرآباد کا امیر تھا۔ افتتاحی اجلاس کے موقع پر میں نے میاں صاحب سے اپنا تعارف کرانے کی کوشش کی تو میاں صاحب نے کہا کہ میں آپ کو جانتا بھی ہوں اور پہچانتا بھی ہوں۔ آپ کے خیالات سے واقف بھی ہوں اور آپ کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔ مجھے گمان تھا کہ میاں صاحب مجھے امیر کے طور پر تو پہچان رہے ہوں گے، لیکن شاید میاں صاحب میری انشورنش سے وابستگی کا واقعہ بھول چکے ہوں گے لیکن میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میاں صاحب نے اس واقعے کے حوالے سے اپنی بات دہرائی کہ ’’اپنی طلب سچی رکھنا، اللہ تمہیں کبھی مایوس نہیں کرے گا‘‘۔
اس زمانے کے مرکزی شوریٰ کے اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز ہوا کرتے تھے۔ پاسبان کا قیام۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کا قیام۔ فرنٹ کی انتخابی شکست۔ محترم قاضی حسین احمد کا شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امارت سے استعفا۔ قاضی حسین احمد کا دوبارہ انتخاب۔ پاسبان کا ختم کیا جانا۔ شباب ملی کی تشکیل۔ میاں صاحب شوریٰ کے اجلاسوں میں آتے اور اہم موضوعات پر اظہار خیال بھی کرتے۔ انہیں پاسبان کی تشکیل سے لے کر پاکستان اسلامک فرنٹ کے قیام تک بے شمار تحفظات تھے لیکن انہوں نے نہ تو اختلاف رائے کو چھپایا کہ بات کتمان حق تک پہنچ جائے نہ اس حد تک بڑھایا کہ بات گروپ بندی تک چلی جائے۔ میں خود بہت منہ پھٹ شخص ہوں۔ مجھے گھما پھرا کر بات کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ نہ میرے لیے یہ ممکن ہے کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں کہ نہ گزروں۔ لیکن یہ ناسپاسی ہوگی اگر میں یہ اعتراف نہ کروں کہ میری اس عادت کو بڑھاوا دینے میں میاں طفیل محمد کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ جب میں پہلی بار مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچا اور میاں صاحب سے رہ نمائی طلب کی تو میاں صاحب نے صرف یہ کہا تھا کہ ’’خوب سوچو اور پھر جو سوچتے ہو، جس بات کو جماعت کے مفاد میں بہتر سمجھتے ہو، وہ کہہ گزرو سیدھے اور صاف لفظوں میں، یہ سوچے بغیر کہ یہ کس کو اچھا لگے گا اور کس کو برا‘‘ لیکن جب میں نے شوریٰ کے ایجنڈے پر موجود ایک موضوع کے بارے میں میاں صاحب سے پوچھا کہ اس معاملے میں آپ کی کیا رائے ہے تو میاں صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ’’وہ تو میں اجلاس میں ہی بتاؤں گا‘‘۔
جماعت اسلامی کے اجتماع کے موقع پر میں لاہور گیا تو جامعہ مسجد منصورہ میں میاں صاحب سے آخری بار مصافحہ ہوا اور بس۔۔۔ میاں صاحب کی علالت کی خبر ملی تو ان کے بیٹے خالد حسن سے فون پر بات ہوتی رہی۔ 25 جون کو نماز عشاء سے قبل خالد حسن سے میاں صاحب کی خیریت معلوم کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ذرا سی دیر قبل میاں صاحب اس سفر پر روانہ ہوگئے جس پر بالآخر ہم سب کو روانہ ہونا ہے۔ یہ الگ بات کہ میاں صاحب بہت پہلے سے اس سفر کے اسباب جمع کر رہے تھے اور مجھ جیسے لوگ ایک دن جب اس سفر کے لیے اٹھائے جائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ سفر طویل تر ہے اور زاد راہ قلیل تر۔
میاں طفیل محمد سے جس دنیاوی تعلق کا اختتام 25 جون 2009 کو ہوگیا اس کا آغاز عجیب و غریب انداز میں ہوا تھا۔ یہ 1986 کے اوائل کی بات ہے۔ میاں صاحب نے حیدرآباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران اخباری مالکان کے خلاف سخت گفتگو کرتے ہوئے اداکاراؤں کی نیم عریاں تصاویر کی اشاعت کو ’’بھڑوت‘‘ کہہ دیا تھا جس پر اخباری نمائندے کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ میاں محمد شوکت نے مجھ سے کہا کہ اخبار والوں کو ہینڈل کرو جو ہم نے کرلیا۔ اخبار والے واپس آ گئے لیکن اس شرط پر کہ میاں صاحب اپنے الفاظ واپس لے لیں گے۔
کانفرنس ختم ہو گئی۔ ضلعی جماعت کے ذمے داران نے میاں صاحب سے بات کی لیکن میاں صاحب نے کہا کہ میں اخبارات کی اس روش کو جو سمجھتا ہوں میں نے وہی کہا ہے۔ اگلے دن اسلامی جمعیت طلبہ کے ارکان کی میاں صاحب سے ناشتے پر ملاقات طے تھی۔ شاہد شیخ نے جو اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم تھے مجھے بھی اس ملاقات میں ساتھ چلنے کو کہا۔ طے کیا گیا کہ جمعیت کے ارکان میاں صاحب سے ’’لفظوں کے استعمال میں احتیاط‘‘ پر بات کریں گے اور میں اپنی طاقت لسانی سے میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا اور میاں صاحب بالآخر یہ بات مان بھی گئے کہ وہ آئندہ نیم عریاں تصاویر چھاپنے والے اخباری مالکان کو ’’بھڑوا‘‘ نہیں کہیں گے لیکن انہوں نے سادگی سے یہ ضرور پوچھ لیا کہ آخر ان لوگوں کے لیے اردو لغت میں مناسب لفظ کیا ہے؟ اسی دوران تعارف کا مرحلہ آن پہنچا۔ میں نے بتایا کہ میں جمعیت کا سابق رکن اور سابق ذمہ دار ہوں۔ میاں صاحب نے پوچھ لیا کہ آج کل کیا کررہے ہیں؟ میں اس زمانے میں ایک جنرل انشورنس کمپنی کا سندھ بلوچستان کا ریجنل مینیجر تھا۔ میں نے ذرا بالصراحت بتایا کہ میں جنرل انشورنس کا کام کرتا ہوں جس پر میاں صاحب نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک لفظ معیار سے گرا ہوا استعمال کر لیا تو اس قدر ناراضی، اور خود اللہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی تاویلات۔ میں نے کچھ وضاحتیں کیں اور پھر زچ ہو کر (بلکہ درحقیقت زچ کرنے کے لیے) کہا کہ ’’اگر آپ حکم دیں تو میں انشورنس کی یہ نوکری ابھی چھوڑ دوں گا‘‘ میاں صاحب نے فرمایا ’’اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں میرا حکم کیا مانیں گے۔ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔
آج میں سوچتا ہوں کہ اگر میاں صاحب ایک عام سیاسی لیڈر ہوتے تو مجھ سے جو 1985 میں 33 برس کی عمر میں 8 سے 10 ہزار روپے ماہانہ کما رہا تھا، ذاتی مکان اور کار کا مالک تھا ایک مناسب معاشرتی اسٹیٹس رکھتا تھا، اس طرح بات نہ کرتے بلکہ مجھے اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایسے ہوتے تو اخباری مالکان کو نیم عریاں تصاویر چھاپنے پر برا بھلا نہ کہتے۔ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو مجھے ان سے قریب ہونے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اگر ایسا ہوتا… اگر ان کی دعا شامل حال نہ ہوتی تو نہ جانے میں کہاں ہوتا۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ جو میڈیا مالکان میاں طفیل محمد کی عظیم الشان حیات کے خاتمے کی چند سیکنڈ کی خبر سنا کر کئی گھنٹے تک بازاری ہاؤ ہو کرنے والے ایک ’’نَچنے‘‘ مائیکل جیکسن کی وفات حسرت آیات پر کئی گھنٹے کے پروگرام نشر کرتے رہے، انہیں اگر ’’بھڑوا‘‘ نہ کہا جائے تو آخر کیا کہا جائے…؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میاں طفیل محمد جماعت اسلامی میاں صاحب نے تو میاں صاحب میاں صاحب سے کہ میں کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

نظریے سے عمل تک، آزادی کا سفر

دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں کی پہلی منظم اور نظریاتی ریاست، ریاستِ مدینہ تھی، جس کا آغاز باطل کے خاتمے اور حق کے غلبے سے ہوا۔

صحیح بخاری شریف کے مطابق، رسول اللّٰہ ﷺ مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تو بیت اللّٰہ کے اطراف تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی لکڑی سے انہیں گراتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی:

"وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" (بنی اسرائیل: 81)
ترجمہ: اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔

یہ لمحہ صرف بتوں کے ٹوٹنے کا نہیں، بلکہ ایک ایسی ریاست کے آغاز کا اعلان تھا جو عقیدہ، عدل، مساوات اور فلاح پر قائم ہوئی۔

ریاستِ مدینہ کے نمایاں اصولوں کو اگر دیکھا جائے تو عدل و انصاف پر قائم ایک اسلامی فلاحی ریاست سامنے آتی ہے:

ہجرت اور قربانیاں: اپنے آبائی ٹھکانے مکہ سے بے سر و سامانی کے عالم میں مدینہ ہجرت، گھر بار، معاش، عزیز و اقارب سے جدائی کی قربانیاں۔

عقیدہ و توحید: اللّٰہ کی وحدانیت اور رسالتِ محمد ﷺ پر ایمان، دین و سیاست میں یکجہتی۔

عدل و انصاف: قانون سب کےلیے برابر، قرآن و سنت کے مطابق فیصلے۔

مساوات و اخوت: نسل، رنگ اور قبیلے کے امتیاز کا خاتمہ، مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ۔

اقلیتوں کے حقوق: غیر مسلموں کو مذہبی آزادی اور جان و مال کا تحفظ (میثاقِ مدینہ)۔

فلاحی نظام: غریب، یتیم، بیوہ اور مسکین کی کفالت، بیت المال کا قیام۔

شوریٰ کا نظام: اہم فیصلے مشاورت کے ذریعے، صحابہ کرامؓ کی رائے کا احترام۔

امن و سلامتی: شہریوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت، مدینہ کو پرامن شہر قرار دیا جانا۔

قانون کی بالادستی: کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں۔

اخلاقی تربیت: جھوٹ، دھوکا، سود، زنا اور شراب پر پابندی، صدق و امانت کا فروغ۔

جہاد و دفاع: ظلم کے خلاف جہاد اور ریاست کے دفاع کا مضبوط نظام۔


اب پاکستان اور ریاستِ مدینہ کی مماثلتوں کا جائزہ لیتے ہیں:


نظریاتی بنیاد

مدینہ: اللّٰہ کی حاکمیت، عدل اور مساوات پر قائم۔
پاکستان: ’’لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کے نعرے کے تحت مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست قیام۔


ہجرت و قربانیاں

مدینہ: مکہ سے مدینہ ہجرت اور انصار کے بھائی چارے کی مدد سے زیرہ پوائنٹ سے زندگیوں کا آغاز۔

پاکستان: ہندوستان سے جان و مال ، عزت و آبرو کی قربانیوں کے ساتھ پاکستان ہجرت... مقامی افراد کی دلجوئی اور امداد سے نیا رہن سہن کی ابتدا۔


مذہبی آزادی

مدینہ: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں کا اسلامی حدود میں پرامن بقائے باہمی۔

پاکستان: آئین میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی، جان و مال اور عزت و آبرو کے مساوی حقوق کی ضمانت۔


قیادت کا کردار

مدینہ: نبی کریم ﷺ عدل و انصاف، شفقت اور امانت کے پیکر۔

پاکستان: قائداعظم محمد علی جناح اصول پسندی اور دیانت کے علمبردار۔


عدل و انصاف

مدینہ: قانون سب کے لیے برابر۔

پاکستان: مقصد اسلامی عدل و انصاف پر مبنی نظام۔


کمزور طبقے کا تحفظ

مدینہ: غریب، یتیم اور محتاج کی کفالت۔

پاکستان: فلاحی ریاست کا خواب۔


خودمختاری

مدینہ: بیرونی اثر سے آزاد۔

پاکستان: مسلمانوں کی آزاد خودمختار ریاست۔

 

قیام پاکستان کے وقت ایک عزم پر مبنی ایک نعرے پر اکثریت متفق اور کوشاں تھی... پاکستان کے ہر چاہنے والے کا نصب العین پاکستان کے لیے خواہش اور کوشش تھا... ہندوستان کے مسلمانوں کی چاہت اللّٰہ کی چاہت بنی تو مدینے کی اسلامی ریاست سے مماثل عقیدے کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے وجود میں آئی۔

ہمارے اسلاف نے اپنی مخلص اور انتھک کوششوں سے ہمیں اس خوبصورت آزاد سرزمین کا وارث بنایا۔ اس جدوجہد میں مقصد کے حصول کےلیے جان و مال، عزت و آبرو ہر قسم کی قربانی کا حق ادا کیا۔

سوچیے! ہم نے اپنی اس 78 سالہ میراث کا حق ادا کیا؟

ہمارا میڈیا وطن عزیز کی موجودہ منظرنامے کی صورت میں ہمارے حق کی ادائیگی ہر روز ایک نئے عنوان کے ساتھ سنا رہا ہوتا ہے۔ ان مناظر کی خوبصورت تبدیلی ہمارے سوچ کے معیار کی تبدیلی سے مشروط ہے۔ کیسے؟

جب:
• اپنی ذات کی فکر میں پاکستان بھی شامل ہو۔ 
• اپنے گھر، اپنی دہلیز، اپنے راستے، کام کی جگہوں کی صفائی مجھے پاکستان کی صفائی کے نام سے محبوب ہو۔
• اپنے کاموں میں وقت کی پابندی، مجھے پاکستان کے وقت کو ضائع کرنے سے بچانے پر خوش کرے۔
• اپنا ذاتی کردار مثبت ثابت کروانے کی کوششوں میں مجھے پاکستان کے مثبت چہرے کی تلاش رہے۔
• کسی کی مدد، کسی کے سہارے کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی مجھے پاکستان کے وجود کی مضبوطی کے احساس سے سرشار کردے۔
• میں تعلیم یافتہ ہوں تو اپنی قابلیت سے کسی نادار طالب علم کو فائدہ پہنچا کر پاکستان کی تعمیر کا احساس مجھے آسودہ کرسکے۔
• میں سرکاری خدمات میں ہوں تو عوام کے کاموں کو خدمت ہی کے طور پر انجام دے کے رشوت اور کرپشن کے دروازے بند کرنے کے پاکستان کی جڑوں کو سیراب ہوتا دیکھ کے سکون پا سکوں۔
• قوانین کی پاسداری کے ذریعے پاکستان کو منظم اور باوقار دیکھ کر مطمئن ہو سکوں۔
• انتظار کے موقع پر صبر اور متحمل رویے سے ماحول کو کشیدہ ہونے سے بچانے کے ذریعے ملک کا وقار بلند کرنا مجھے آسودہ کرسکے۔
• سوشل میڈیا پر جوابی ردعمل کے لیے میری ذات میری رائے پر میڈیائی افق پر پاکستان کا نکھرا چہرہ مجھے مقدم لگے۔
• خریداری میں امپورٹڈ پر فریفتہ ہونے کے بجائے مقامی مصنوعات کو ترجیح مجھے ملکی معیشت کی ترقی میں معاون بننے پر شکر گزار کر سکے۔
• میرے ٹیکسوں کی دیانتدارانہ ادائیگی اور اخراجات کا کنٹرول پاکستان کے قرضوں کو کم ہونے کی امید بن سکے۔
• اپنی ذات کے ساتھ اپنے ملک، اپنے لوگوں کو رکھ کے امت ہونے کے احساس کو زندہ رکھوں۔

ریاستِ مدینہ کا ماڈل صرف ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ آج بھی ہر مسلمان اور پاکستانی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم فرد کی سطح پر اسلامی نظریے پر ثابت قدمی سے ڈٹ جائیں۔ جھوٹ، ظلم، ناانصافی، فتنہ فساد، کرپشن، رشوت، بددیانتی، دھوکا دہی، جہالت کے بتوں کو توڑ کر سچائی، عدل و انصاف، دیانت، اخوت اور خدمت کو اپنا لیں تو پاکستان اپنے نظریاتی مقصد سے ہم آہنگ حقیقی معنوں میں اپنا جوہری کردار ادا کر سکتا ہے۔


فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  •  نوازشریف کی وزیراعظم شہباز شریف کو  سیلاب متاثرین کی ہر ممکن امداد کی ہدایت
  • وزیراعظم کی نوازشریف سے ملاقات، خیبر پختونخوا میں سیلابی صورتحال سے آگاہ کیا
  • شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات، خیبر پختونخوا میں سیلابی صورتحال سے آگاہ کیا
  • خدا نے مجھے پاکستان کا محافظ بنایا ہے، اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ہے: فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • ’’مصور حقیقت‘‘، خواجہ افتخار صاحب
  • کراچی، مائی کلاچی میں ٹریفک حادثے میں میاں بیوی جاں بحق، ڈمپر نے ٹکر ماری، ورثاء
  • خواجہ آصف ، پرتگال اور زیر الزام بیوروکریٹس
  • 14اگست اور دوسرے قومی دنوں پر پی ٹی آئی کا پر تشدد احتجاج معمول بن گیا: خواجہ آصف
  • نظریے سے عمل تک، آزادی کا سفر
  • خواتین کا دولت مند مردوں کی طرف رجحان، ہمایوں اشرف نے تلخ سچائی بیان کردی