data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
(2)
مجھے میاں طفیل محمد کے ساتھ کام کرنے کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ جب 1987 میں، میں جماعت اسلامی حیدرآباد کا نائب قیّم تھا تو میاں صاحب کی جگہ محترم قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان بن چکے تھے۔ 1993 میں جب میں پہلی بار مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تب میں جماعت اسلامی حیدرآباد کا امیر تھا۔ افتتاحی اجلاس کے موقع پر میں نے میاں صاحب سے اپنا تعارف کرانے کی کوشش کی تو میاں صاحب نے کہا کہ میں آپ کو جانتا بھی ہوں اور پہچانتا بھی ہوں۔ آپ کے خیالات سے واقف بھی ہوں اور آپ کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔ مجھے گمان تھا کہ میاں صاحب مجھے امیر کے طور پر تو پہچان رہے ہوں گے، لیکن شاید میاں صاحب میری انشورنش سے وابستگی کا واقعہ بھول چکے ہوں گے لیکن میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میاں صاحب نے اس واقعے کے حوالے سے اپنی بات دہرائی کہ ’’اپنی طلب سچی رکھنا، اللہ تمہیں کبھی مایوس نہیں کرے گا‘‘۔
اس زمانے کے مرکزی شوریٰ کے اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز ہوا کرتے تھے۔ پاسبان کا قیام۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کا قیام۔ فرنٹ کی انتخابی شکست۔ محترم قاضی حسین احمد کا شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امارت سے استعفا۔ قاضی حسین احمد کا دوبارہ انتخاب۔ پاسبان کا ختم کیا جانا۔ شباب ملی کی تشکیل۔ میاں صاحب شوریٰ کے اجلاسوں میں آتے اور اہم موضوعات پر اظہار خیال بھی کرتے۔ انہیں پاسبان کی تشکیل سے لے کر پاکستان اسلامک فرنٹ کے قیام تک بے شمار تحفظات تھے لیکن انہوں نے نہ تو اختلاف رائے کو چھپایا کہ بات کتمان حق تک پہنچ جائے نہ اس حد تک بڑھایا کہ بات گروپ بندی تک چلی جائے۔ میں خود بہت منہ پھٹ شخص ہوں۔ مجھے گھما پھرا کر بات کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ نہ میرے لیے یہ ممکن ہے کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں کہ نہ گزروں۔ لیکن یہ ناسپاسی ہوگی اگر میں یہ اعتراف نہ کروں کہ میری اس عادت کو بڑھاوا دینے میں میاں طفیل محمد کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ جب میں پہلی بار مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچا اور میاں صاحب سے رہ نمائی طلب کی تو میاں صاحب نے صرف یہ کہا تھا کہ ’’خوب سوچو اور پھر جو سوچتے ہو، جس بات کو جماعت کے مفاد میں بہتر سمجھتے ہو، وہ کہہ گزرو سیدھے اور صاف لفظوں میں، یہ سوچے بغیر کہ یہ کس کو اچھا لگے گا اور کس کو برا‘‘ لیکن جب میں نے شوریٰ کے ایجنڈے پر موجود ایک موضوع کے بارے میں میاں صاحب سے پوچھا کہ اس معاملے میں آپ کی کیا رائے ہے تو میاں صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ’’وہ تو میں اجلاس میں ہی بتاؤں گا‘‘۔
جماعت اسلامی کے اجتماع کے موقع پر میں لاہور گیا تو جامعہ مسجد منصورہ میں میاں صاحب سے آخری بار مصافحہ ہوا اور بس۔۔۔ میاں صاحب کی علالت کی خبر ملی تو ان کے بیٹے خالد حسن سے فون پر بات ہوتی رہی۔ 25 جون کو نماز عشاء سے قبل خالد حسن سے میاں صاحب کی خیریت معلوم کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ذرا سی دیر قبل میاں صاحب اس سفر پر روانہ ہوگئے جس پر بالآخر ہم سب کو روانہ ہونا ہے۔ یہ الگ بات کہ میاں صاحب بہت پہلے سے اس سفر کے اسباب جمع کر رہے تھے اور مجھ جیسے لوگ ایک دن جب اس سفر کے لیے اٹھائے جائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ سفر طویل تر ہے اور زاد راہ قلیل تر۔
میاں طفیل محمد سے جس دنیاوی تعلق کا اختتام 25 جون 2009 کو ہوگیا اس کا آغاز عجیب و غریب انداز میں ہوا تھا۔ یہ 1986 کے اوائل کی بات ہے۔ میاں صاحب نے حیدرآباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران اخباری مالکان کے خلاف سخت گفتگو کرتے ہوئے اداکاراؤں کی نیم عریاں تصاویر کی اشاعت کو ’’بھڑوت‘‘ کہہ دیا تھا جس پر اخباری نمائندے کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ میاں محمد شوکت نے مجھ سے کہا کہ اخبار والوں کو ہینڈل کرو جو ہم نے کرلیا۔ اخبار والے واپس آ گئے لیکن اس شرط پر کہ میاں صاحب اپنے الفاظ واپس لے لیں گے۔
کانفرنس ختم ہو گئی۔ ضلعی جماعت کے ذمے داران نے میاں صاحب سے بات کی لیکن میاں صاحب نے کہا کہ میں اخبارات کی اس روش کو جو سمجھتا ہوں میں نے وہی کہا ہے۔ اگلے دن اسلامی جمعیت طلبہ کے ارکان کی میاں صاحب سے ناشتے پر ملاقات طے تھی۔ شاہد شیخ نے جو اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم تھے مجھے بھی اس ملاقات میں ساتھ چلنے کو کہا۔ طے کیا گیا کہ جمعیت کے ارکان میاں صاحب سے ’’لفظوں کے استعمال میں احتیاط‘‘ پر بات کریں گے اور میں اپنی طاقت لسانی سے میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا اور میاں صاحب بالآخر یہ بات مان بھی گئے کہ وہ آئندہ نیم عریاں تصاویر چھاپنے والے اخباری مالکان کو ’’بھڑوا‘‘ نہیں کہیں گے لیکن انہوں نے سادگی سے یہ ضرور پوچھ لیا کہ آخر ان لوگوں کے لیے اردو لغت میں مناسب لفظ کیا ہے؟ اسی دوران تعارف کا مرحلہ آن پہنچا۔ میں نے بتایا کہ میں جمعیت کا سابق رکن اور سابق ذمہ دار ہوں۔ میاں صاحب نے پوچھ لیا کہ آج کل کیا کررہے ہیں؟ میں اس زمانے میں ایک جنرل انشورنس کمپنی کا سندھ بلوچستان کا ریجنل مینیجر تھا۔ میں نے ذرا بالصراحت بتایا کہ میں جنرل انشورنس کا کام کرتا ہوں جس پر میاں صاحب نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک لفظ معیار سے گرا ہوا استعمال کر لیا تو اس قدر ناراضی، اور خود اللہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی تاویلات۔ میں نے کچھ وضاحتیں کیں اور پھر زچ ہو کر (بلکہ درحقیقت زچ کرنے کے لیے) کہا کہ ’’اگر آپ حکم دیں تو میں انشورنس کی یہ نوکری ابھی چھوڑ دوں گا‘‘ میاں صاحب نے فرمایا ’’اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں میرا حکم کیا مانیں گے۔ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔
آج میں سوچتا ہوں کہ اگر میاں صاحب ایک عام سیاسی لیڈر ہوتے تو مجھ سے جو 1985 میں 33 برس کی عمر میں 8 سے 10 ہزار روپے ماہانہ کما رہا تھا، ذاتی مکان اور کار کا مالک تھا ایک مناسب معاشرتی اسٹیٹس رکھتا تھا، اس طرح بات نہ کرتے بلکہ مجھے اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایسے ہوتے تو اخباری مالکان کو نیم عریاں تصاویر چھاپنے پر برا بھلا نہ کہتے۔ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو مجھے ان سے قریب ہونے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اگر ایسا ہوتا… اگر ان کی دعا شامل حال نہ ہوتی تو نہ جانے میں کہاں ہوتا۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ جو میڈیا مالکان میاں طفیل محمد کی عظیم الشان حیات کے خاتمے کی چند سیکنڈ کی خبر سنا کر کئی گھنٹے تک بازاری ہاؤ ہو کرنے والے ایک ’’نَچنے‘‘ مائیکل جیکسن کی وفات حسرت آیات پر کئی گھنٹے کے پروگرام نشر کرتے رہے، انہیں اگر ’’بھڑوا‘‘ نہ کہا جائے تو آخر کیا کہا جائے…؟
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میاں طفیل محمد جماعت اسلامی میاں صاحب نے تو میاں صاحب میاں صاحب سے کہ میں کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
وزیرِ اعظم کی نواز شریف سے ملاقات، اہم سیاسی و قومی امور پر تبادلہ خیال
وزیرِ اعظم کی نواز شریف سے ملاقات، اہم سیاسی و قومی امور پر تبادلہ خیال WhatsAppFacebookTwitter 0 4 October, 2025 سب نیوز
لاہور (آئی پی ایس )وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی، سابق وزیرِ اعظم اور صدر مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف سے اہم ملاقات کی اور اپنے حالیہ بیرون ملک دوروں کے حوالے سے آگاہ کیا اور آزاد کشمیر کی حالیہ صورتحال اور کامیاب مزاکرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔وزیرِ اعظم شہباز شریف جاتی امرا جہاں انہوں نے صدر مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔وزیرِ اعظم نے صدر مسلم لیگ ن کو اپنے حالیہ بیرون ملک دوروں کے حوالے سے آگاہ کیا،
وزیرِ اعظم نے میاں محمد نواز شریف کو آزاد کشمیر کی حالیہ صورتحال اور کامیاب مزاکرات پر بھی تفصیلی بریفنگ دی۔کل وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف ملائیشین وزیرِ اعظم انور ابراہیم کی دعوت پر ملائیشیا کے دو روزہ دورے پر روانہ ہونگے۔ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے میاں محمد نواز شریف کو بھی دورہ ملائیشیا کی دعوت دی تھی، مگر میاں محمد نواز شریف نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کسی اور مناسب وقت پر یہ دورہ کرنے کی بات کی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعرکہ حق میں جگ ہنسائی ،بھارت نے آپریشن سندور ٹو کی تیاری شروع کردی معرکہ حق میں جگ ہنسائی ،بھارت نے آپریشن سندور ٹو کی تیاری شروع کردی اسحاق ڈار کا سعودی اور مصری وزرائے خارجہ سے رابطہ، امن معاہدے پر گفتگو آزاد کشمیر میں زندگی معمول پر آگئی، موبائل سروس بحال، بازار کھل گئے اٹلی؛ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف 20 لاکھ افراد سڑکوں پر نکل آئے کے پی کابینہ نے 9 مئی کو مردان میں توڑ پھوڑ اور فائرنگ کا کیس واپس لینے کی منظوری دیدی سفری پابندی ختم؛ طالبان وزیر خارجہ آئندہ ہفتے بھارت کے دورے پر جائیں گےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم