لاہور:

جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 50 فیصد سے زائد بھارتی لوگ ایرانی کسانوں کی اولاد ہیں ،ایرانی کسانوں نے 5 تا 7 ہزار سال قبل ہندوستان پہنچ کر کھیتی باڑی شروع کی تھی.

گویا اہل بھارت کی اکثریت کے اجداد قدیم ایرانی نکلے۔اس ضمن میں حال میں امریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے منسلک ماہر ِانسانی ارتقائی جینیات، ایلسی کرڈوتکف نے مع ٹیم اہل بھارت کے جینز کا عالمی ڈیٹا میں محفوظ کروڑوں جینز سے تحقیقی موازنہ کیا۔

تین عشروں سے عالمی ماہرین جینیات لاکھوں بھارتی باشندوں کے جین (Gene)جمع کر چکے کہ ان کے اجداد کا سراغ لگے۔گویا اہل بھارت کی اکثریت کے اجداد قدیم ایرانی نکلے۔

پھران میں وسطی ایشیا سے آئے قبائل کے جینز زیادہ جن کی اولاد ’’آریہ‘‘کہلائی اور ذات پات کا نظام قائم کیا۔تیسرے نمبر پر ان افریقی شکاریوں کے جینز آئے جو 50 ہزار سال قبل ہندوستان پہنچے۔

انہی کی اولاد نے ایرانیوں کے ساتھ ادغام سے وادی سندھ تہذیب کی بنیاد رکھی۔مگر یورشین اسٹیپی کے جنگجو قبائل نے تہذیب برباد کردی جس کے بیشتر ساکن جنوبی ہند ہجرت کر گئے۔اگر اہل پاکستان کے جینز کا تجزیہ ہو تو شاید بیشتر کا تعلق قدیم ایرانی وعرب باشندوں سے نکلے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی اولاد کے جینز

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
میں تازہ خون کی بڑھتی طلب سے واقف ہوں 
نگارِ شوق ترے چشم و لب سے واقف ہوں
براہِ راست مرا زندگی سے کیا ناتا
میں اِس کے ساتھ تمہارے سبب سے واقف ہوں
بنا رہا ہوں میں تقویمِ عالمِ امکاں
 اگرچہ دن کی خبر ہے نہ شب سے واقف ہوں 
جو دوست ہیں وہ مکلف نہیں کوائف کے
مگر حریف کے نام و نسب سے واقف ہوں
کچھ اس تپاک سے وہ اجنبی ملا ہے مجھے
ہر ایک پوچھ رہا ہے میں کب سے واقف ہوں
میں جانتا ہوں کہ بعد از وصال بھی غم ہے
بفیضِ ہجر مآلِ طرب سے واقف ہوں
بطورِ خاص مرا عکس گو نہیں زد پر
میں آئنوں کے عمومی غضب سے واقف ہوں
کسی گناہ سے صرفِ نظر نہیں کریں گے
یہاں پہ جتنے فرشتے ہیں سب سے واقف ہوں 
تُو پوچھتا ہے ترا رزق کس کے ذمے ہے 
مجھے یہ فکر نہیں ہے میں رب سے واقف ہوں
(اسد رحمان۔ پپلاں، پنجاب)

غزل
نجانے کون سا منظر ہرا کرے گا دوست 
تُو مجھ کو چھوڑ کے بے حد برا کرے گا دوست
تجھے بتا تو دیا تھا کہ تُو محبت ہے 
بقایا کام تو میرا خدا کرے گا دوست  
تُو میرے بعد مرے موسموں کو ترسے گا 
نہیں ملوں گا تجھے میںتو کیا کرے گا دوست؟
بھٹک گیا کہیں آب و ہوائے دنیا میں 
مجھے لگا تھا کہ مجھ سے ملا کرے گا دوست
تجھے تو میں نے چھپایا تھا اپنے آپ سے بھی
تُو میرے ساتھ بھی اتنا برا کرے گا دوست
تجھے زمانوں کی حیرت سے دیکھتے رہنا 
ہمارا کام ترا آئنہ کرے گا دوست
(حماد ہادی۔ کراچی)

غزل
آنکھوں سے گفتگو ہوئی، لب دیکھتے رہے
کل رات ایک خواب عجب دیکھتے رہے
اہلِ جنوں نے سر کو جھکایا، فنا ہوئے
اہلِ خرد تو نام و نسب دیکھتے رہے 
پھر یوں ہوا کہ اس کی تمنا بھی چھن گئی 
ہم خاک زاد بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے
کچھ لوگ طور جا کہ بھی محروم ہی رہے
کچھ وہ تھے جو مدینے میں رب دیکھتے رہے
وہ آیا، اک نگاہ سے سب کاسے بھر گیا
اور لوگ اپنی اپنی طلب دیکھتے رہے
کچھ لوگ تو صدائیں بھی دھیمی نہ کر سکے
کچھ سانس لینے میں بھی ادب دیکھتے رہے
حالانکہ گفتگو کی بھی خواہش تو تھی مگر
اکرامؔ اس کو جان بلب دیکھتے رہے
(اکرام افضل ۔مٹھیال)

غزل
دور تجھ سے رہوں ایسا ممکن نہیں 
اور میں کچھ کہوں ایسا ممکن نہیں 
عشق بچوں کا تو کھیل ہے ہی نہیں 
ہجر تیرا سہوں ایسا ممکن نہیں 
موم مجھ کو کیا آپ کے عشق نے 
پانیوں میں بہوں ایسا ممکن نہیں 
جل بجھا راکھ بھی اڑ گئی ہے میری 
پھر سے اب میں جلوں ایسا ممکن نہیں 
عشق نے کردیا دم بخود اب مجھے 
میں تیرا دم پڑھوں ایسا ممکن نہیں 
اب تو ہر سمت ہی ہے خزاں اے علیمؔ 
ساتھ اس کے چلوں ایسا ممکن نہیں
(عابد علیم سہو۔ بھکر)

غزل
فراقِ جاں میں مہکتا گلاب پتھر ہے 
شبِ وصال کا ہر ایک خواب پتھر ہے
تڑپ رہا ہے مرا دشت پیاس کے مارے
برس رہا ہے ندی پر سحاب پتھر ہے
تجھے گماں تھا مقدر ہے میرا آئینہ 
مجھے یقیں تھا ترا انتخاب پتھر ہے
بجھا چکا ہے چمن میں چراغ شبنم کے
یہ آگ اگلتا ہوا آفتاب پتھر ہے
گنہ کی شکل میں کی جمع ہم نے کنکریاں 
تمام عمر کا کل احتساب پتھر ہے
نہ ٹوٹ جائے تمنائے دیدِ آئینہ
جو رخ پہ ڈالا ہے تم نے نقاب پتھر ہے
میں آئینہ ہوں مگر شہر میرا نابینا 
ہر اک سوال کا میرے جواب پتھر ہے
(محمد کلیم شاداب ۔آکوٹ، ضلع آکولہ ،مہاراشٹر، انڈیا)

غزل
سیر میری، دشت سے رابطہ کہتے رہے
نقش ِپا کو ہم سفر زائچہ کہتے رہے
نشر ہو کر بھی فضیلت سے خالی نہیں عشق 
دیکھنے والے اسے درس گہ کہتے رہے
خاک تو پیاسوں پہ نوحہ کناں تھی ہی، مگر 
یہ سراب و خار بھی مرثیہ کہتے رہے
میں تعلق کے فرائض کو گنواتا رہا 
وہ برابر میں فقط حادثہ کہتے رہے
گدھ نے کچھ مہلت ہی دی تھی قریب المرگ کو 
یہ تماشائی اسے فاختہ کہتے رہے
ایسی بے چینی سے رگڑی گئی تھیں ایڑیاں 
لوگ پھوٹے آب کو معجزہ کہتے رہے
راجہ کو فرعون کہنے سے ڈرتے تھے سبھی 
اس لیے رانی کو ہی آسیہ کہتے رہے 
ہم  خیالِ قیس ہوں میں نے ساگرؔ کب کہا
ہاں مگر، صحرا نشیں طنزیہ کہتے رہے
(ساگرحضورپوری۔قطر)

غزل
لشکر جو کبھی نعرۂ تکبیر سے نکلے
دشمن کی مجال اس خطِ تاثیر سے نکلے 
تاعمر نہیں دید کی زنجیر سے نکلے 
وہ سلسلے جو خواب کی تعبیر سے نکلے
کل آئینے سے دیر تلک گفتگو ٹھہری
اپنے بھی مراسم کسی دلگیر سے نکلے
اِس آس پہ پھرتے ہیں ترے جھنگ کی گلیاں
کچھ ربط تو اپنا بھی کسی ہیر سے نکلے
ناحق ہوئے مفلس یہاں پابندِ سلاسل
جو صاحبِ زر تھے بڑی تدبیر سے نکلے
جن لوگوں نے بس ایک جھلک دیکھ لی اس کی
پھر کب وہ بھلا حسنِ اساطیر سے نکلے
اُستاد الشعرا نظر آتا ہے جہاں کو
شاعر جو صفِ میر تقی میر سے نکلے
تا دیر وہاں رہتا ہے پھر ظلم مسلط
جس شہر کے باغی ذرا تاخیر سے نکلے
بے انت شہیدان کا حاصل ہے یہ قلزمؔ
ظالم کہاں آسانی سے بونیر سے نکلے
(سجیل قلزم۔فیصل آباد)

غزل
دل کا اجڑا ہوا بن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
مجھ کو بے گور و کفن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
چاندنی رات میں جب یاد ستانے لگ جائے 
میرے خوابوں کا چمن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
حشر تک ساتھ نبھانے کی قسم کھا کر بھی 
’تم مجھے عہد شکن چھوڑ کے جا سکتے ہو‘
میں نے چاہا ہے تجھے جان سے بڑھ کر لیکن 
تم ہو ہرجائی، سجن چھوڑ کے جا سکتے ہو
اور جب کوئی نہیں دل میں تمھارے حمزؔہ 
پھر بھلا کیسے لگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
(حافظ حمزہ سلمانی۔ گجرات)

 غزل
جب خیالات ستاتے رہے تیرے مجھ کو
اُس گھڑی تم مجھے لگنے لگے میرے مجھ کو
دل کی دیواروں سے یہ خون بھی ٹکرانے لگے
مخملیں اپنا اگر ہاتھ تُو پھیرے مجھ کو
تُو گئی چھت پہ تو کھڑکی میں کھڑا سورج خود
دینے آیا تھا خبر صبح سویرے مجھ کو
کاش تُو بانہوں کے اس جال کو کھولے پہلے
اور پھر گھات لگا کر وہیں گھیرے مجھ کو
غم کا خنجر اے خدا چھین لے اِن سے ورنہ
مار ڈالیں گے اُداسی کے بسیرے مجھ کو
مشکلوں میں مجھے جس جس نے اکیلا چھوڑا
اب تلک یاد ہیں کم ظرف وہ چہرے مجھ کو
جو تجھے ڈستے رہے سانپ نے مجھ سے یہ کہا
یہی تو دودھ پلاتے تھے سپیرے مجھ کو
(نعمان نذر نعمان۔ لاہور)

غزل
عشق کا اِنتخاب ہیں ہم تم 
ایک دوجے کا خواب ہیں ہم تم 
عشق اپنا گواہی دیتا ہے 
حسن میں لاجواب ہیں ہم تم 
استعارے ہیں روز و شب کے ہم 
ماہتاب، آفتاب ہیں ہم تم 
دنیا والوں کی رائے ہے جیسی 
اس قدر کب خراب ہیں ہم تم 
لوگ کیونکر سوال کرتے ہیں 
جبکہ واضح جواب ہیں ہم تم 
اپنے احباب کے لئے شوبیؔ 
اک مسلسل عذاب ہیں ہم تم 
(ابراہیم شوبی۔کراچی)

غزل
کتابِ خاک میں حرفِ فنا رقم اُس کا
کہ زلزلوں میں بھی زندہ رہا حرم اُس کا
چراغِ دشت بجھا اور دل فروزاں ہے
کہ ایک شعلۂ تحقیق ہے علم اُس کا
شجر پہ برق گری، اور میں یہ سوچتا ہوں
کہ  کس  ضمیر  میں  محفوظ  ہے  کرم  اُس کا
وہ شوخ، تیر چلاتا ہے اور ہنستا ہے
کہ میری خاک میں پیوست ہے ستم اُس کا
خموش لب پہ وہی حرفِ ناتمام آیا
کہ خونِ عشق میں مستور ہے قلم اُس کا
(زبیر احد۔ فیصل آباد)

غزل
دیکھو تو آج آدمی حیوان بن گیا 
تہذیب کے لباس میں شیطان بن گیا 
ظلمت نے اس کے دل پہ اثر ایسا کچھ کیا
خوش نام تھا کبھی جو وہ اپمان بن گیا 
دولت کما رہا ہے جو ایمان بیچ کر
جھوٹوں کا سرغنہ وہی سلطان بن گیا
اب خود کو دیکھنے کا چلن ہی نہیں رہا
ہر شخص اپنے چہرے سے انجان بن گیا 
کردار، ظرف، غیرتِ ایمان مر گئی
اپنے نفس کا بندہ مسلمان بن گیا 
تہذیب مر گئی، نہ رہا ظرفِ گفتگو 
اپنا ضمیر ظرف کی میزان بن گیا 
بولی جو روشنی تو اسے قید کر لیا
تاریک ملک گویا کہ زندان بن گیا
سوچا تھا آدمی کا تقدّس بحال ہے
لیکن یہاں شکار ہی انسان بن گیا
قاضیؔ کسی کے ساتھ رہا مشکلوں میں مَیں
مشکل جو کام تھا مرا آسان بن گیا
(قاضی محمد آصف ۔کراچی) 

غزل
ہے قبا کیسی ادھڑتی ہی چلی جاتی ہے
زندگانی ہے کہ جھڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایسا کچھ بھی تو کیا تھا نہ بہو بیٹی نے
بے سبب ساس جھگڑتی ہی چلی جاتی ہے
صدقے واری بھی کئی بار گئی ہے بیگم
ضد پہ آ جائے تو لڑتی ہی چلی جاتی ہے
یہ جو رہتی ہے تو آباد وفا کے دم سے
دنیا اجڑی تو اجڑتی ہی چلی جاتی ہے
بے حسی چہرے کو بے رنگ بناتی ہے ضرور
گرد احساس پہ پڑتی ہی چلی جاتی ہے
ہم اسے اپنی شرافت سے، شرافت سے ملیں
اور دنیا کہ اکڑتی ہی چلی جاتی ہے
خون انسان کا توقیر گنوا بیٹھا ہے 
انسیت خاک میں گڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایک لڑکی کہ جو کانٹوں سے بچائے دامن
پر چنریا ہے کہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے
بات کرتے ہوئے تو اس کو کبھی دیکھ رشیدؔ
جو رتن لفظوں کے جڑتی ہی چلی جاتی ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)


شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ فلسطین میں دریافت شدہ قدیم پیالے میں چھپی کائناتی رموز کیا ہیں؟
  • ایران نے بھارتی شہریوں کیلئے ویزا فری انٹری ختم کردی
  • ایران نے بھارتیوں کیلئے ویزا فری انٹری سہولت ختم کرنے کا اعلان کردیا
  • پاکستان میں رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں 14 ہزار سے زائد نئی کمپنیاں رجسٹر
  • رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں 14 ہزار سے زائد نئی کمپنیاں رجسٹرڈ
  • کوچۂ سخن
  • سعودی عرب ‘ 22 ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم گرفتار
  • بھارت نےجنگ مسلط کی تو پاکستانی سپاہی اللہ کی راہ میں نکلے جس میں اللہ تعالی نےسرخرو کیا، فیلڈ مارشل
  • جنوبی کوریا؛ آن لائن جنسی جرائم ، 3000 سے زائد افراد گرفتار
  • جنوبی کوریا؛ آن لائن جنسی جرائم میں ملوث 3000 سے زائد افراد زیرِ حراست