انسٹیٹوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے صدر سیف اللہ کا وفد کے ہمراہ میئر حیدرآباد سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس آف پاکستان کے صدر سیف اللہ خان نے اپنے وفد کے ہمراہ میئر حیدرآباد کاشف علی شورو سے ملاقات کی۔ ملاقات انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈحیدرآباد کے انچارج رضوان علی آرائیں کی قیادت میں منعقد ہوئی، جس کا مقصد ادارے کا تعارف اور حیدرآباد کے طلبہ و طالبات کے لیے مشترکہ فلاحی و تعلیمی منصوبوں پر بات چیت کرنا تھا۔ملاقات میں میئر حیدرآباد کاشف علی شورو نے انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈکے کردار کو سراہا اور طلبہ کے لیے تربیتی مواقع، کیریئر گائیڈنس، اور تعلیمی بہتری کے لیے بلدیاتی حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔اس موقع پر دونوں اداروں کے درمیان مستقبل میں مل کر کام کرنے اور حیدرآباد کے نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیاں ترتیب دینے پر اتفاق کیا گیا۔میئر کاشف شورو نے کہا کہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں اور ان کی تعلیم و ترقی کے لیے سرکاری و نجی اداروں کے درمیان اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
لبنان میں داخلی جنگ کے گہرے بادل
اسلام ٹائمز: حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔ تحریر: رضا دھقانی
لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے سعودی اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے فیصلہ کن اور جارحانہ الفاظ خانہ جنگی کے خطرات کو نمایاں کررہے ہیں۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے امریکی صہیونی منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے "مزاحمت اپنے ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی، جارحیت جاری ہے اور قابض اب بھی موجود ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم کربلا کی طرز پر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں گے اور یہ جنگ ہم جیتیں گے۔"
نواف سلام نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ لبنانی حکومت امریکی اسرائیلی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا "ہمارے فیصلے مکمل طور پر لبنانی ہیں، وہ وزراء کی کونسل میں کیے جاتے ہیں اور کوئی ہمیں باہر سے ان کا حکم نہیں دیتا۔" یہ دعویٰ اس حقیقت کے باوجود سامنے آیا ہے کہ لبنانی وزراء کونسل کی قرارداد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھیجے گئے خصوصی نمائندے "ٹام بارک" کے منصوبے کے موصول ہونے کے بعد منظور کی گئی تھی، یہ منصوبہ جس کی بنیادی شق "حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے" سے متعلق تھی۔
مذکورہ بالا اہم نکتہ ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے دو روز قبل بیروت کے دورے کے دوران اپنی تقریر میں بھی بیان کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے "ہم لبنان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں لائے بلکہ امریکی آپ کے لیے ایک منصوبہ لائے تھے۔ ہم کہتے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں، ہم لبنان کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرتے۔"
"ہتھیاروں پر حکومت کی اجارہ داری" کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے لبنانی وزیراعظم نے مزید کہا ہے کہ "یہ مسئلہ طائف معاہدے میں اٹھایا گیا ہے اور یہ معاہدے کا ایک اہم اصول ہے۔ ہم سب نے طائف میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ لبنانی حکومت کو اپنی طاقت کے ساتھ ملک کے پورے علاقے پر خودمختاری کا استعمال کرنا چاہیئے، لیکن ہم نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں تاخیر کی ہے۔"
نواف سلام نے مزید کہا ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ حزب اللہ کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے حوالے کیے جائیں، بلکہ لبنانی فوج کے حوالے کیے جائیں گے، جس کی حب الوطنی بلاشک و شبہ ہے۔" حزب اللہ اپنے ہتھیار لبنانی فوج کے حوالے کیوں نہیں کرتی؟ حزب اللہ نے بارہا کہا ہے کہ فوج اور مزاحمت کے اختلاف کو مسترد کرتے ہیں اور یہ کہ "فوج"، "قوم" اور "مزاحمت" تینوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
لبنانی فوج کو ہتھیار نہ دینے کی تین اہم وجوہات:
پہلی اور اہم دلیل یہ ہے کہ لبنانی فوج اپنی افواج کی حب الوطنی اور قربانیوں کے باوجود ہتھیاروں اور مالیات کے معاملے میں بہت زیادہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ یہ امداد بنیادی طور پر امریکہ اور بعض مغربی ممالک فراہم کرتے ہیں جن کی پالیسیاں واضح طور پر اسرائیلی مفادات کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں حزب اللہ کا خیال ہے کہ اگر حزب اللہ کے ہتھیار مکمل طور پر لبنانی فوج کے حوالے کر دیئے جائیں تو سیاسی دباؤ اور غیر ملکی عطیہ دہندگان کی شرائط کی وجہ سے یہ فوج نازک لمحات میں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت حتیٰ اسکے خلاف مقابلہ کی اجازت حاصل نہیں کر پائے گی۔
دوسری دلیل لبنان کے تاریخی تجربے سے متعلق ہے۔ حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔
تیسری دلیل موجودہ خطرات کی نوعیت سے متعلق ہے۔ حزب اللہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسرائیل اس وقت بھی لبنانی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے جن میں شیبہ فارمز اور کفر شوبہ کی پہاڑیوں شامل ہیں۔ اسرائیل اب بھی کبھی کبھار لبنان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ حزب اللہ کے لیے ایسی صورت حال اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا مطلب لبنان کو ان دشمنوں کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ دنیا جانتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نہ عالمی قوانین کو مانتی ہے نہ عالمی رائے عامہ کو اہمیت دیتی ہے۔