کراچی:

 

شہر کے مشرقی حصے لانڈھی، ملیر، کورنگی، قائد آباد اور دیگر علاقوں میں یکم جون سے اب تک تواتر کے ساتھ 57 زلزلے آچکے ہیں جو ہلکی نوعیت کے ہیں تاہم اس میں تسلسل کی وجہ سے لوگوں میں بہت خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ 

کراچی کے جن علاقوں میں یہ زلزلے آئے ہیں وہاں کئی برسوں سے بورنگ کرکے زیر زمین پانی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، کئی چھوٹی بڑی عمارتیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں، ان علاقوں میں زمین 15سیںٹی میٹر دھنس چکی ہے، اگرچہ ابھی سائنٹیفک ثبوت نہیں کہ بورنگ اور بلند عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے حالیہ زلزلے آئے ہیں اور زمین دھنس رہی ہےلیکن یہ بات قرین قیاس ہوسکتی ہے اور اس کے لیے جامع اسٹڈی کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں لانڈھی، کورنگی، ملیر اور دیگر علاقوں کی زیر زمین صورت حال کمزور پڑتی جا رہی بالخصوص گھروں کی بنیادیں متاثر ہو رہی ہیں، زلزلوں کے مواقع پر بھی یہاں نقصانات کا اندیشہ ہے اور عام حالات میں بھی کوئی ناگہانی واقعہ پیش آسکتا ہے۔ 

 محکمہ موسمیات اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دستیاب تاریخی ڈیٹا میں کراچی میں کبھی بھی تواتر کے ساتھ اتنے زلزلے ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈاکٹر نعمان احمد نے بتایا کہ زلزلے کا آنا ایک بڑے اسکیل کا عمل ہے، اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بورنگ یا زیر زمین پانی کھینچنے کی وجہ سے زلزلے آرہے ہیں، اس کی ریسرچ ضرور ہونی چاہیے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ زیر زمین پانی کا حد سے زیادہ نکالنا ایک غیر فطری عمل ہے، اس لیے جن علاقوں میں یہ بورنگ کی جاچکی ہے وہاں لازمی زیر زمین قدرتی اسٹرکچر کمزور ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمین کے نیچے کئی تہیں ہوتی ہیں جس میں چٹان، پتھر، مٹی پانی وغیرہ ہوتے ہیں، جب اس کا ایک حصہ یعنی پانی نکال لیا جائے تو لازماً وہاں خلا پیدا ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ان علاقوں کی زیر زمین قدرتی پوزیشن کمزور پڑجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی گھروں کی بنیادیں بھی کمزور پڑ سکتی ہیں، ان وجوہات کے باعث ان علاقوں میں زلزلوں کی صورت میں اور عام حالات میں بھی یہاں قائم گھروں کو نقصانات کا اندیشہ ہے۔

ڈاکٹر نعمان نے کہا کہ اصولی طور پر متعلقہ ادارہ یہاں ریگولر نظام کے تحت پانی پائپ کے ذریعے پہنچائے تاکہ لوگوں کو بورنگ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، یہ ایک مہنگا عمل ہے لوگ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً کررہے ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے ان علاقوں کا تفصیلی سروے کرے اور بورنگ کے نتیجے میں جو زیر زمین نقصان ہوچکا ہے اس کی لوگوں کو نشان دہی کرے اور تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ 

شعبہ ارضیات جامعہ کراچی کے ڈاکٹر عدنان خان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کے چند مخصوص علاقوں میں آنے والے زلزلے اور وہاں زمین کا دھنسنا قدرتی طور پر ہے تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ  ماحولیات میں انسانی دخل یا زیر زمین پانی کے نکالنے کی وجہ سے یہ زلزلے  آئے ہیں یا زمین دھنس رہی ہے  اس کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ریسرچ ادارے اور لوکل اداروں کی رپورٹ کے مطابق لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈیفنس اور نارتھ کراچی کی زمین 15سینٹی میٹر دھنس چکی ہے اور سالانہ ایک اعشاریہ پانچ سینٹی میٹر دھنس رہی ہے، یہ ڈیٹا 2017 تا 2021 کے جائزے پر محیط ہے۔

فی الوقت سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرزمین تہہ کی حرکت کی وجہ سے زمین دھنس رہی ہے لیکن یہ انڈر آبزرویشن ہے کہ لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں زیر زمین پانی کافی زیادہ نکالا جا رہا ہے اور وہیں زلزلے آرہے ہیں اور زمین بھی دھنس رہی ہے، اس کے لیے ایک بھرپور ریسرچ کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ شہر کے بیشتر علاقوں بالخصوص لانڈھی،کورنگی اور ملیر میں ریگولر پانی کے نظام میں بحران کی وجہ سے رہائشی، انڈسٹریز اور آر او پلانٹس کے ذریعے زیر زمین پانی نکالے جانے کا عمل بہت بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ کراچی کو ریگولر واٹر سسٹم سے پانی فراہم کیا جائے اور بارشوں کے پانی کے ذریعے زیر زمین متاثرہ پانی کے ذخیرے کو ری چارج کیا جائے۔ 

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ کراچی چاروں اطراف سے بڑے فالٹس کی زد میں ہے لیکن حالیہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں جو شہر کے بیرونی اطراف کی بڑی فالٹ لائنوں کی وجہ سے نہیں آئے ہیں بلکہ لوکل کراچی کی اپنی فالٹ لائنوں کی وجہ سے آئے ہیں، اسی لیے یہ  ایک خاص پاکٹ میں ہلکی نوعیت کے آئے ہیں جبکہ شہر کا بقیہ حصہ اس سے محفوظ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی اپنی فالٹ لائنیں پرخطر نہیں تاہم کراچی کو چاروں اطراف بالخصوص انڈیا اور بلوچستان میں موجود ٹیکٹانل پلٹیس سے خطرہ ہے، وہاں اگر زیادہ شدت کے زلزلے آتے ہیں تو وہ پورے کراچی میں تباہی لا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ سنگل پلیٹ کا حصہ ہے، اس کے 110کلومیٹر کے بعد مغرب کی طرف ایک پوائنٹ ملے گا جہاں تین پلیٹس انڈین، یوریشین اور عریبین پلیٹس موجود ہیں، عریبین پلیٹ وہاں کے جنوب سے دونوں پلیٹ کے نیچے سے جا رہی اور Subduct کر رہی ہے، وہاں اگر زلزلے آتے ہیں تو اس کے اثرات بھی کراچی پر آسکتے ہیں۔

کراچی میں زمین کے دھنسنے کے عمل کے بارے میں این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ ارتھ کوئیک انجنئیرنگ ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مسعود رفیع کا کہنا ہے کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی  ہیں، چھوٹی بڑی عمارات کی تعمیر اور زیر زمین پانی کا استعمال، بیشتر علاقوں میں پانی کے بحران کی وجہ سے لوگوں نے متبادل طریقے اختیار کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی رہائشی علاقوں میں  بورنگ کرکے زیر زمین پانی نکالا جارہا ہے، اس کے علاوہ پینےکے پانی کے لیے جگہ جگہ آر او پلانٹس کی دکانیں قائم ہیں، بے تحاشا پانی نکلنے سے زیر زمین خلا پیدا ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بیشتر علاقوں میں چھوٹی بڑی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جن کے وزن سے زیر زمین دباؤ بڑھ رہا ہے، یہ دو بڑی وجوہات ہیں جو زمین کے دھنسنے کی وجہ بن رہی ہیں، کسی علاقے میں زیادہ زمین دھنس رہی ہے اور کسی جگہ کم، یہ عمل شہر کے کئی علاقوں میں ہو رہا ہے، اس کے لیے زیر زمین پانی کے نکالنے کا عمل روکا جانا بہت ضروری ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے بتایا کہ کراچی میں یکم جون سے اب تک 57 زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاچکے ہیں جو ریکٹر اسکیل پر 1.

5 سے 3.8  کی شدت کے ہیں، یہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں اور اس سے کسی قسم کا جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ زیر زمین پانی کا زمین دھنس رہی ہے انہوں نے کہا کہ علاقوں میں کراچی میں ان علاقوں اس کے لیے کی وجہ سے یہ زلزلے کہ کراچی کی ضرورت پانی کے آئے ہیں ہے اور شہر کے کے ہیں ہیں جو رہا ہے

پڑھیں:

ماحولیاتی آلودگی کا ڈیٹاجمع کرنے والے سیٹلائٹ کا رابطہ منقطع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے کی غرض سے زمین کے مدار میں بھیجے گئے سیٹلائٹ کا زمین کنٹرول سے رابطہ منقطع ہو گیا جس کے بعد وہ خلا میں کھو گیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق بے مثال ریزولوشن کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی پیمائش کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے 8کروڑ 80لاکھ ڈالر مالیت کے میتھین سیٹ کو زمین کے گرد مدار میں بھیجنے کے منصوبے کے لیے امریکی ارب پتی اور ایمیزون کے بانی جیف بیزوس ، امریکی ادارے اینوائرنمنٹل ڈیفنس فنڈ اور نیوزی لینڈ کی حکومت نے معاونت کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق میتھین سیٹ کو مارچ 2024 ء میں زمین کے گرد مدار میں بھیجا گیا تھا۔ اس نے تکنیکی مسائل سے دوچار ہونے کے بعد گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو اپنے زمینی کنٹرولرز کو جواب دینا بند کر دیا تھا۔ اس سے رابطے کی بحالی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں اور اس کے 3میں سے ایک تھرسٹر نے بھی کام چھوڑ دیا۔ نیوزی لینڈ کی خلائی ایجنسی کے ایک سینئر اہلکار اینڈریو جانسن نے اس کو واضح طور پر ایک مایوس کن پیش رفت قرار دیا ہے۔ اینوائرنمنٹل ڈیفنس فنڈ کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود فضا میں میتھین کے تناسب میں تبدیلیوں سے باخبر رہنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • قلات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے
  • کراچی والے ہوجائیں تیار! محکمہ موسمیات نے مزید بارش کی پیشگوئی کردی
  • پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات کے اعتراف کی تیاریاں
  • جاپان میں ایک ہفتے کے دوران 457زلزلے ریکارڈ
  • ماحولیاتی آلودگی کا ڈیٹاجمع کرنے والے سیٹلائٹ کا رابطہ منقطع
  • کراچی میں ایک اور نوجوان ٹریفک حادثے میں جاں بحق
  • شمالی علاقوں میں سیاحت یا سانحہ؟ محفوظ سفر کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر
  • کراچی، ملیر میں فائرنگ سے بچہ اور پولیس اہلکار زخمی، واقعہ ذاتی رنجش قرار
  • لاہور میں زلزلے کے جھٹکے، شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا