Express News:
2025-10-04@23:41:10 GMT

ذیابیطس ٹائپ ون ختم کرنیوالا انقلابی طریق علاج دریافت

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

لاہور:

ایک امریکی کمپنی نے موزی بیماری، ذیابیطس ٹائپ ون سے چھٹکارا دلاتا ’’ zimislecel‘‘نامی طریق علاج دریافت کر لیا.

ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج موجود نہ تھا جس میں مدافعتی جسمانی نظام لبلبے میں گلوکوز کنٹرول کرتا انسولین ہارمون بناتے آئسلیٹ خلیے تباہ کر دیتا ہے، مریض پھر زندہ رہنے کیلیے تاعمر بذریعہ انجکشن انسولین لیتا ہے.

 

علاج میں  لیبارٹری میں بنے بنیادی (Stem) خلیے مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیںجو جگر تک پہنچ کر آئسلیٹ خلیوں میں بدل کر انسولین بنانے لگتے ہیں. 

یہ علاج گیارہ مریضوں کو تندرستی کی دولت عطاء کر چکا اوروہ اب انسولین ٹیکے سے نہیں لیتے.

پاکستان سمیت دنیا میں ذیابیطس قسم اول کے ایک کروڑ مریض موجود جو مشکلات کا مقابلہ کرتے زندگی گذارتے، اب روشنی کی کرن چمکی ہے، امریکی کمپنی جلد یہ علاج تجارتی پیمانے پر شروع کریگی۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ٹی بی سے آگاہی

وہ اڑتیس چالیس سال کا لمبا چوڑا صحت مند شخص تھا، چہرے پر بالشت بھر کالی داڑھی ، سیاہ بال اور سفید رنگت، صاف ستھرے کپڑے۔

’’جی بتائیے!‘‘

’’سر جی! مجھے چکر بھی آتے ہیں اور الٹی بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

سر نے سر ہلایا اور چھوٹا سا کارڈ اس کی جانب بڑھایا اور ایک ٹوکن اسے فراہم کیا، جو اس بات کی علامت تھا کہ اسے اب ڈاکٹر سے ملنے کے لیے ٹوکن پر درج نمبر کا انتظار کرنا ہے۔

’’حیرت کی بات ہے ناں! کہیں سے لگتا تھا کہ اس شخص کو ٹی بی ہے۔‘‘

یہ جملہ حیران کن تھا۔ اتنا وجیہ اور صحت مند نظر آنے والا وہ شخص ٹی بی یعنی تپ دق میں مبتلا تھا۔

ایک زمانہ تھا تپ دق میں مبتلا مریضوں کو سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ ایک ایسے ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہیں جو انھیں صرف قبر تک ہی لے جائے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر ریسرچ ہوئی اور اس ناقابل علاج مرض کو قابل علاج بنا لیا گیا۔

آج ہمارے ملک میں ایسے مریضوں کی کمی نہیں جو تپ دق جیسی بیماریوں میں مبتلا نہ صرف اپنے گھر والوں میں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھی صرف آگاہی کے شعور سے نابلد ہونے کے باعث ایک سے دوسرے شخص میں ان جراثیم کو منتقل کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک لگنے والا مرض بھی ہے لہٰذا اس مرض میں مریض کے نہ صرف کھانے پینے کے معاملات میں خیال رکھنا ضروری ہے بلکہ دیگر اہم باتوں کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

 ہمارے ملک میں معاشرتی نظام اور غربت کے ہاتھوں تنگ عوام اپنے مخصوص زندگی کے طرز عمل میں بندھے ہیں کوئی کیا سمجھے گا، کیا کہے گا جیسے مسائل میں الجھے خود ہی ان بیماری پر پردہ پوشی کرتے دوسرے صحت مند انسانوں کو مبتلا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

تپ دق کے متعلق ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق متعدی بیماری سے مرنے والوں کی سب سے بلند شرح تپ دق یعنی ٹی بی کی ہے جو دنیا میں موت کی نویں بڑی وجہ ہے۔ 2016 میں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چھپن فی صد لوگ اس متعدی مرض میں مبتلا ہیں جو انڈیا، چین، انڈونیشیا، فلپائن اور پاکستان میں رہ رہے ہیں۔

عمومی طور پر ٹی بی کے جراثیم انسان کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں اس کے علاوہ گردے، ہڈیاں اور لمف نوڈس کو متاثر کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بیماری کے جراثیم لیے پھرتے ہیں، ان میں یہ غیر فعال ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کا مدافعتی نظام کمزور پڑتا ہے یہ انسانی صحت پر حملہ آور ہوتے ہیں عام طور پر عمر کے بڑھنے کے ساتھ یا بڑھاپے میں یہ جراثیم تیزی سے اپنا اثر دکھاتے ہیں۔

دنیا بھر میں اس بیماری کے لیے آگاہی مہم چلتی رہتی ہے لیکن چوبیس مارچ کو عالمی طور پر اس کا دن منایا جاتا ہے، یہ دراصل ڈاکٹر رابرٹ کوچ کی اس عظیم کامیابی کی یاد کا دن ہے جب انھوں نے 1882 میں اس بیماری کا موجب بیکٹیریا کی دریافت کی تھی۔

’’میری عمر بارہ سال تھی جب مجھے آنتوں کی ٹی بی تشخیص ہوئی تھی، شام ہوتے ہی مجھے ہلکا سا ٹمپریچر ہو جاتا تھا اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا تھا، میں ایک سرکاری اسکول میں پڑھتی تھی، بے پروائی کے دن تھے حالاں کہ ہمارا گھر خوش حال تھا، کھانے پینے کی کوئی ٹینشن نہ تھی پھر بھی نجانے کیسے مجھے یہ مرض لگ گیا۔

مجھے موشن بھی آتے تھے تو ڈاکٹر نے مجھے ٹی بی کا ٹیسٹ کرانے کو کہا، میرا یہ ٹیسٹ کرایا گیا اور ثابت ہو گیا کہ مجھے یہ مرض ہے پھر میرا طویل علاج چلا، پھر میں نے ایک عام لڑکی کی مانند صحت مند زندگی گزاری۔ شادی ہوئی اور میری شادی کو بیس برس گزر گئے اولاد کی نعمت سے محروم ہوں کیونکہ ٹی بی کے جراثیم سرائیت کرتے گئے تھے۔‘‘

ہمارے ملک میں اس مرض کے پھیلاؤ کی وجہ غربت، بہت زیادہ قربت کے علاقے، ناقص غذائیت، منشیات کا استعمال، لوگوں میں مرض سے متعلق آگاہی کی کمی وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ کھاتے پیتے متوسط طبقے کے گھروں میں بہت زیادہ میل جول یعنی ایک دوسرے کے برتنوں میں کھانا پینا یا جھوٹا کھانا اور ہوا کے ذریعے بھی اس مرض کے جراثیم پھیل سکتے ہیں۔

اگر کسی کو دو ہفتوں سے زیادہ کھانسی ہو، وزن میں کمی محسوس ہو رہی ہو، خونی تھوک، بھوک کا کم ہو جانا وغیرہ کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس مرض کی تشخیص کو نظرانداز نہ کریں۔

اٹھارہویں صدی میں مشہور رومانوی شاعر جان کیٹس بھی اسی بیماری میں گھر کر مرا تھا۔ دراصل کیٹس کا بھائی ٹی بی کا شکار تھا، اس نے تو اپنے بھائی کی دیکھ بھال کی، اس کا خیال رکھا لیکن یہ متعدی مرض جان کیٹس کو بھی لگ گیا، ایک حساس دل رکھنے والا انسان جو پہلے اپنی محبت کی ناکامی کا شکار تھا، بھائی کی محبت، بیماری اور اپنی شکست پر ٹوٹ ہی گیا اور جوانی میں ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ بات ہے 1821 کی جب وہ صرف چھبیس سال کا تھا۔

پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں ٹی بی سے مرنے والے ہیرو کے منہ سے خون تھوکنے کے ڈرامائی مناظر تماشائیوں کے دل پر ایسے ثبت ہوتے تھے کہ انھوں نے اس مرض کو موت کا سوداگر سمجھ لیا تھا لیکن گزرتے وقت نے ان تمام اثرات کو زائل کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس بیماری کے جراثیم مزید مدافعت یعنی توانائی لے کر ابھرے ہیں، اس لیے اسے معمولی یا شک کا فائدہ دے کر نظرانداز کرنے کے بجائے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کا ٹیسٹ کروانا، ایکسرے کروانا ضروری ہے۔

پاکستان میں ڈبلیو ایچ او نے بہت سے سرکاری اسپتالوں میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کی صحت مندی اور علاج کے لیے کافی مناسب اقدامات کیے ہیں ورنہ پرائیویٹ طور پر اس کا علاج خاصا مہنگا اور دقت طلب ہے، صرف ٹیسٹوں اور ایکس ریز میں ہی ہزاروں لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

ایسے مریضوں کو چاہیے کہ خصوصی طور پر علاج کے پہلے دو مہینوں میں عام لوگوں کے ملنے جلنے میں فاصلہ رکھیں کیونکہ اس وقت ایسے مریض دوسرے انسانوں میں ان جراثیم کو منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ سو میں سے اگر دس کے زندگی کارڈ میں رب العزت نے اس بیماری کا نام لکھ دیا ہے تو وہ اس سے لڑنے کے لیے تیار رہے، علاج کرے اور اپنے اعمال کی بہتری پر توجہ دے کہ آزمائش کے سزا بننے میں ذرا دیر ہی لگتی ہے دوستو!

متعلقہ مضامین

  • ٹی بی سے آگاہی
  • راولپنڈی میں ڈینگی مچھروں کے حملوں میں مزید شدت آگئی    
  • اب عمارتیں خود بجلی بنائیں گی، ایم آئی ٹی کا انقلابی کنکریٹ متعارف
  • خاتون نے پانچویں شوہر کو انسولین کی زائد مقدار دیکر ہمیشہ کیلیے موت کی نیند سلادیا
  • امریکی مصنوعی ذہانت کی کمپنی انتھروپک نے نیا چیف ٹیکنالوجی آفیسر مقرر کردیا
  • امریکی سائنس دانوں نے بجلی پیدا کرنے والا کنکریٹ تیار کرلیا
  • اسپینش بحری جہاز کے ملبے سے 10 لاکھ ڈالرز مالیت کا خزانہ دریافت
  • امریکی کمپنی کا پاکستان میں مینوفیکچرنگ بند کرکے ڈسٹری بیوٹر ماڈل پر منتقل ہونے کا فیصلہ
  • اگر آپ روزانہ کدو کھائیں تو بلڈ شوگر پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے؟
  • راولپنڈی میں ڈینگی بے قابو، مزید 29 کیسز سامنے آگئے