پی ٹی آئی کے الزامات پر الیکشن کمیشن کا ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سے متعلق الزامات بے بنیاد ہیں، پی ٹی آئی کے بھی کئی رہنما ان سے ملتے رہے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چند مفاد پرست عناصر اور گروہ الیکشن کمیشن ، چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات لگاتے رہتے ہیں اور گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ یہا ں پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنراور ممبران ہر فیصلہ بغیر کسی کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ،آئین و قانون کے مطابق کرتے ہیں اور کسی قسم کے دباؤ یا بلیک میلنگ میں نہیں آتے اور نہ ہی ان اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہوں گے۔
اعلامیے کے مطابق حال ہی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی سے چیف الیکشن کمشنر کی ملاقات پر جو حقائق کے برعکس تبصرے ہوئے، ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مختلف اوقات میں الیکشن کمیشن سے کئی آئینی اور انتظامی عہدے دار سرکاری معاملات کے سلسلے میں ملتے رہتے ہیں۔
سابق صدر مملکت عارف علوی سےچیف الیکشن کمشنرکی اور کمیشن کے ممبران کی متعدد ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں اور خاص طور پر EVMاور انٹرنیٹ ووٹنگ جو کہ صدرِ مملکت کے مینڈیٹ میں بھی نہیں آتا، کے سلسلے میں میٹنگز میں چیف الیکشن کمشنر شریک رہے ہیں ۔
مزید یہ کہ پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کی درخواست پر چیف الیکشن کمشنر اُن سے ملتے رہے ہیں، جس میں وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی، اُ س وقت کے جنرل سیکرٹری اسد عمر، پرویز خٹک، محمود خان وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا شامل ہیں۔
اسی طرح کچھ معاملات پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی چیف الیکشن کمشنر کی وزیر اعلیٰ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ممبران الیکشن کمیشن بھی باقی وزرائےاعلیٰ سے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ملتے رہے ہیں ۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ کیا اُس وقت یہ درست تھا اور اب غلط ہے۔ الیکشن کمیشن کا کوئی بھی عہدے دار کسی ذاتی کام کے لیے اور ذاتی حیثیت میں کسی بھی شخصیت سے نہیں ملا۔ سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کا الیکشن کمیشن کو اپروچ کرنا کسی طور پربھی خلاف ضابطہ نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق صاحبزادہ محمد حامد رضا کا یہ الزام کہ ریٹرننگ آفیسر نے اسے سنی اتحاد کونسل کا امیدوار ڈکلیئر نہیں کیا سراسر غلط ہے۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی پر اپنا تعلق سنی اتحاد کونسل الائنس پی ٹی آئی لکھا جب کہ الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 (2) اور رول 162(2) کے تحت دونوں جماعتوں ( پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل) نے نہ تو الیکشن کمیشن کو الائنس کی درخواست دی اور نہ ہی کوئی ایک نشان دینے کے لیے کہا ۔
موصوف نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو ڈیکلریشن جمع کروایا وہ پی ٹی آئی نظریاتی ( PTI-N) کا تھا اور اس کے ساتھ مذکورہ بالا پارٹی کا ٹکٹ بھی جمع نہیں کروایا۔ ریٹرننگ آفیسر نے انہیں ضابطہ کے تحت آزاد امیدوار کے طورپر مینار کا نشان دیا۔
اگر صاحبزادہ محمد حامد رضا کا مؤقت اتنا ہی درست ہے تو کم از کم کاغذات نامزدگی کے ساتھ اپنی ہی پارٹی کا ٹکٹ لگادیتے اور کہتے کہ میں سنی اتحاد کونسل کا امیدوار ہوں۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے جب سنی اتحاد کونسل سے پوچھا کہ اس نے الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 206 کے تحت کتنی خواتین امیدواروں کو نامزد کیا تو صاحبزادہ حامد رضا نے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر اپنے دستخطوں سے مطلع کیا کہ جنرل الیکشن 2024 میں کسی امیدوار نے بھی سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ لہذا خواتین امیدواروں کی لسٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان چیف الیکشن کمشنر سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن پی ٹی آئی رہے ہیں
پڑھیں:
ووٹر لسٹ سے متلعق الیکشن کمیشن آف انڈیا کا عمل صحیح نہیں ہے۔ اسدالدین اویسی
خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ خصوصی نظرثانی مہم کیوجہ سے لاکھوں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جاسکتے ہیں، جس سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار اسمبلی الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹر لسٹ کو اپڈیٹ کرنے کے فیصلے کو اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران غلط اور من مانی پر مبنی ٹھہرا رہے ہیں۔ اس معاملے پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کرنے پہنچے تھے۔ میٹنگ کے بعد اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ جو عمل کیا جا رہا ہے، اس کے لئے قومی جماعتوں (نیشنل پارٹیوں) سے تبادلہ خیال نہیں کیا گیا، بی ایل او کی ٹریننگ نہیں ہوئی کیونکہ ان کے پاس ہینڈ بک نہیں ہے، اس وجہ سے الیکشن کمیشن جو عمل کررہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کا سوال تھا کہ 2024ء کی ووٹر لسٹ کوہی بنیاد کیوں نہیں مانا جا رہا ہے، جن رائے دہندگان نے 2024ء میں ووٹ دیا، آخر 2025ء میں ان سے ان کی پہچان کیوں پوچھی جا رہی ہے۔
اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ 2024ء کی ووٹر لسٹ کو الیکشن کمیشن بنیاد کیوں نہیں بنا رہا ہے، جن رائے دہندگان نے 2024ء میں ووٹ دیا آخر 2025ء میں ان سے ان کی پہچان کیوں پوچھی جا رہی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی سماعت پر ہم اپنی پارٹی میں بیٹھ کر بات کریں گے اور آگے فیصلہ کریں گے، لیکن ہمارا اعتراض یہی ہے کہ اتنا کم وقت کیوں دیا گیا۔ اس کے علاوہ مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اختر الایمان نے کہا کہ بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں، جو کہ مائیگرنٹ لیبر ہے، جن کے پاس میں اپنے دستاویز نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن سے متعلق موضوع پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ 10 جولائی 2025ء کو اس معاملے پر سماعت ہونی ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اب تک اس معاملے میں 5 عرضیاں داخل ہوچکی ہیں۔ ملک کا مشہور انتخابی اصلاحات کا ادارہ (اے ڈی آر) نے اس پر عرضی داخل کی ہے۔ اس کے علاوہ یوگیندر یادو، مہوا موئترا، منوج جھا اور مجاہد عالم شامل ہے۔ ان تمام درخواستوں میں الیکشن کمیشن کے عمل کو من مانی اور منصفانہ انتخابات کو متاثر کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ خصوصی نظرثانی مہم کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جاسکتے ہیں، جس سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔