پاکستان کی طرف سے ٹرمپ کی نوبیل کیلئے نامزدگی امریکی عوام کی فتح ہے، وائٹ ہاؤس
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
وائٹ ہاؤس نے پاکستان کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبیل انعام کے لیے نامزدگی کو امریکی عوام کی ’فتح‘ قرار دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’صرف چند ہفتے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی امریکی عوام کو اتنی فتوحات دیں جتنی زیادہ تر صدور چار سال میں بھی نہ دے سکے تھے۔
انہوں نے اس فہرست میں ایک اور اضافے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے بھی صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے جو کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جوہری جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی مداخلت کے اعتراف کے طور پر کیا گیا ہے۔
پچھلے مہینے پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ کے لیے نوبیل انعام کی سفارش کی جائے گی اور اس کے رہنما بارہا انڈیا کے ساتھ جنگ کے دوران صدر ٹرمپ کے کردار کی تعریف کر چکے ہیں۔
مئی میں انڈیا اور پاکستان کے ایک دوسرے پر حملوں کے دوران اچانک صدر ٹرمپ نے دونوں کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کی بدولت چار روز سے جاری فضائی جنگ رک گئی تھی۔
اس کے بعد سے صدر ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی کی وجہ سے ایک جوہری جنگ کو ٹال دیا تھا، جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں بچیں۔
جبکہ ایسا گلہ بھی ان کی جانب سے سامنے آ چکا ہے کہ اس بات کا انہیں کریڈٹ نہیں ملا۔
پاکستان اس امر پر اتفاق کرتا ہے کہ امریکہ کی سفارتی مداخلت سے جنگ بند ہوئی تاہم دوسری جانب انڈیا کا کہنا ہے کہ اصل میں جنگ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان باہمی معاہدے کے بعد بند ہوئی تھی۔
پاکستان نے 21 جون کو اعلان کیا تھا کہ وہ ٹرمپ کو ’ایک حقیقی امن ساز‘کے طور پر نامزد کر رہا ہے اور انہوں نے دور اندیشی اور شاندار حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔
صدر ٹرمپ بھی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ایسے تنازعات کی لمبی فہرست شیئر کر چکے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ کہ انہوں نے ان کو حل کیا۔
ان میں پاکستان اور انڈیا کا تصادم بھی شامل تھا جبکہ ان کے پہلے دور میں ہونے والے ابراہم اکارڈز کا بھی ذکر تھا جو اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان کرایا گیا تھا۔
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’مجھے نوبیل پرائز نہیں ملے گا چاہے میں جو بھی کر لوں۔
پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کی نامزدگی اسی ہفتے میں سامنے آئی جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکہ میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔
یہ پہلی بار تھا کہ کسی سول حکومت کے دور میں کسی پاکستانی فوج کے سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی گئی ہو۔
اسی طرح پیر کو اسرائیل نے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل پرائز کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان کو نامزدگی کی دستاویز بھی پیش کی۔
Post Views: 2.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ان کی جانب سے پاکستان کی وائٹ ہاو س کے درمیان کے دوران انہوں نے کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ اور نیتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات؛ غزہ جنگ بندی اور ایران پر اہم فیصلے متوقع
امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی آج رات وائٹ ہاؤس میں عشائیہ پر اہم ملاقات ہوگی جس میں مشرق وسطیٰ سے متعلق ’مثبت پیش رفت‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بات وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں بتائی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ اور وزیرِاعظم نیتن یاہو اس ملاقات میں خطے میں امن، استحکام اور سفارتی مواقع کے حوالے سے بات کریں گے۔
اس اہم ملاقات میں غزہ جنگ بندی اور حماس کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلے کیے جانے کا امکان ہے اور ایران کے جوہری پروگرام پر بھی گفتگو ہوگی۔
علاوہ ازیں ٹرمپ اور نیتن یاہو ملاقات میں لبنان کی سیاسی صورت حال اور حزب اللہ کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کی حمایت اور مدد پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان سعودی عرب سے تعلقات پر بھی بات ہوگی اور سعودیہ کو اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدہ کرکے تعلقات کی بحالی بھی زیر غور لائی جائے گی۔
اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ کے رکن وزیر آوی ڈکٹر نے اسرائیلی میڈیا کو بتایا کہ ہم ایک اصطلاح بارہا استعمال کرتے رہے ہیں وہ ہے ’نیا مشرق وسطیٰ‘ مگر اب یہ ایک حقیقی معنی اختیار کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ میں کئی مہینوں سے جاری کشیدگی اور غزہ میں تباہ کن جنگ کے بعد امریکی اور اسرائیلی قائدین کے درمیان یہ پہلی تفصیلی ملاقات ہوگی۔
سفارتی حلقے اسے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے ابراہم معاہدے کے توسیعی مرحلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ وہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک تاریخی پیش رفت ہوگی۔