نئے ٹیکس کانفاذ، پاک سوزوکی نے بھی موٹرسائیکلوں کی قیمتیں بڑھا دیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
کراچی(کامرس ڈیسک)پاک سوزوکی موٹر کمپنی (پی ایس ایم سی) نے یکم جولائی 2025 سے مؤثر موٹرسائیکلوں کی نئی ریٹیل قیمتوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں متعارف کرائی گئی تبدیلیوں کے بعد سامنے آیا ہے، جن میں آٹوموبائل سیلز پر نئی ”نیو انرجی وہیکل (این ای وی)“ لیوی کا نفاذ بھی شامل ہے۔
ڈیلرز کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں سوزوکی نے برانڈ کی فروخت اور سروسز کو فروغ دینے میں ان کی مسلسل کاوشوں کو سراہا۔
قیمتوں میں ترمیم کے بعد، جی ڈی 110ایس کی نئی قیمت 3,62,600 روپے، جی ایس150 کی قیمت 3,92,900 روپے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح جی ایس ایکس 125 کی قیمت اب 5,04,900 روپے جبکہ جی آر 150 کی قیمت 5,52,900 روپے ہے۔ علاوہ ازیں، اینازوما جی ڈبلیو 250 جے پی کی نئی قیمت 12,52,400 روپے مقرر کی گئی ہے۔
۔
اپنے نوٹیفکیشن میں کمپنی نے واضح کیا کہ یہ قیمتیں ایکس فیکٹری لاگت اور موٹرسائیکلوں کو ڈیلرشپ تک پہنچانے کے فریٹ چارجز کو شامل کر کے طے کی گئی ہیں۔
چند روز قبل اٹلس ہونڈا، جو پاکستان کی موٹرسائیکل مارکیٹ کا نصف سے زائد حصہ رکھتی ہے، نے بھی نئے ٹیکسوں کے باعث اپنی بائیکس کی قیمتیں فی یونٹ 2,000 سے 6,000 روپے تک بڑھا دی تھیں۔
فنانس ایکٹ 2025 کے تحت متعارف کرائی گئی این ای وی لیوی تمام انٹرنل کمبسشن انجن پر مبنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر لاگو ہوتی ہے اور اس کا نفاذ یکم جولائی 2025 سے ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ لیوی عام موٹرسائیکلوں سے لے کر لگژری ایس یو وی گاڑیوں تک تمام زمروں پر لاگو ہوتی ہے۔ تاہم یہ پالیسی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں، صرف برآمد کے لیے تیار کی گئی گاڑیوں، سفارتی مشنوں کی گاڑیوں اور ان بین الاقوامی اداروں کی گاڑیوں کو استثنیٰ دیتی ہے جو سفارتی مراعات رکھتے ہیں۔
قیمتوں میں حالیہ رد و بدل اس نئی این وی وی لیوی کے براہ راست اثرات کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ حکومت روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے بجائے ماحول دوست متبادل ذرائع آمد و رفت کی طرف منتقلی کو فروغ دے رہی ہے۔
مزید پڑھیں:پاکستان ناقابل تسخیر ڈکلیئرڈ ایٹمی طاقت ،بھارت علاقائی استحکام کیلئے خطرہ، ڈی جی آئی ایس پی آر
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔