وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکیخلاف تحریک عدم اعتمادسے متعلق گورنرکا اہم بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے واضح کیا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کا ایک بھی رکن حکومت سے زیادہ ہوا تو اپوزیشن آئینی طور پر تحریکِ عدم اعتماد لانے کا حق رکھتی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں اس وقت اپوزیشن کے پاس 52 نشستیں ہیں، جبکہ 30 ارکان آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔ اگر کبھی اپوزیشن کو عددی اکثریت حاصل ہوئی، تو تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہی اصول وفاق اور پنجاب میں بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لا سکتی ہے۔ ہم ماضی میں قومی اسمبلی میں بھی یہ قدم اٹھا چکے ہیں، اور آئندہ بھی ایسا کرنا ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ سیاسی معاملات میں ہم کشادگی رکھتے ہیں، کسی سے ہاتھ ملانے یا غمی خوشی میں شریک ہونے سے گریز نہیں کرتے۔ ہماری کئی ملاقاتیں کیمروں کے سامنے ہوتی ہیں جبکہ کئی پسِ پردہ رہتی ہیں۔
سینیٹ انتخابات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پاس امیدواروں کی کمی ہے، اسی لیے ابھی تک انہوں نے کسی امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ ان کا ہدف خیبرپختونخوا سے پانچ نشستیں حاصل کرنا ہے۔
قبل ازیں، پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی قیادت میں ایک وفد نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ بعدازاں خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق اہم نکات پر بات چیت ہوچکی ہے، اور بیشتر معاملات طے پا چکے ہیں، باقی آئندہ دو روز میں طے کر لیے جائیں گے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کو آگے بڑھائے۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف)، اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نشستوں کی تقسیم پر اتفاق ہو چکا ہے، جس کے تحت پیپلز پارٹی خواتین کی نشست، جبکہ جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستیں لیں گی۔
ہارس ٹریڈنگ سے متعلق سوال پر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس عمل کی مخالفت کی ہے۔ اگر حکومت کوئی ضابطہ طے کرتی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے، لیکن اگر میدان سجے گا تو پھر سب کو معلوم ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ رمضان کے دوران پی ٹی آئی رہنما مولانا فضل الرحمان کے گھر سحر و افطار کرتے رہے، اُس وقت مولانا صاحب پی ٹی آئی کے سیاسی مسیحا لگتے تھے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی قیادت ان کے قدم چومتی رہی، جبکہ خیبرپختونخوا کا پی ٹی آئی چیپٹر انہیں تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پی ٹی ا ئی انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
تنزانیا: انتخابات میں خاتون صدر کامیاب‘ملک گیر پرتشدد مظاہرے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دودوما (انٹرنیشنل ڈیسک) تنزانیا کی خاتون صدر سامیہ صولحو حسن نے صدارتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ۔ الیکشن کمیشن نے ہفتے کے روز نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سامیہ نے 97.66 فی صد ووٹ حاصل کیے اور تمام انتخابی حلقوں میں سبقت برقرار رکھی۔ ابتدائی نتائج میں انہیں 95 فی صد ووٹ ملے تھے، جو کہ ملک گیر ہنگاموں کے 3دن بعد جاری کیے گئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہیں ۔ انتخابات میں صدر سامیہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔ اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا ۔ احتجاج کے دوران شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ادھر حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے پیش کردہ اعداد و شمار پر پہلے رد عمل میں وزیرِ خارجہ محمود ثابت کومبو نے انہیں انتہائی مبالغہ آمیز قرار دیا اور طاقت کے بے جا استعمال کی تردید کی۔ مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا ۔ جواب میں پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور گولیاں چلائیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم 100ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پرتشدد واقعات کے بعد دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔