کون کہتا ہے کہ وہ ہفتہ یا چھ سے سات ماہ قبل مرچکی تھی،یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں۔مر تو وہ اسی دن گئی تھی جب اس گھن زدہ سماج کے رسم و روایت میں جکڑے فرسودہ خیالات کے گھرانے نے اس کے جینے کے حق کو چھین لیا تھا،گھر کے افراد مبینہ طور پر والد نے پدر شاہی کی گلی سڑی سوچ کے تحت اس کو اپنی آزادانہ سوچ میں جکڑنے کے تمام منفی جتن کیے تھے اور اسے فرسودہ رسم و رواج میں قید کرنے کی کوشش کی تھی،مگر وہ تھی کہ اپنی فطری آزادی کے تمام خدو خال سے واقف ایک باشعور سماج کا فرد بننا چاہتی تھی،وہ فن ومصوری کی صحتمند آزادی کے طاقتور خیالات کو اس سماج کی ہر نسواں کی سوچ اور تندرست آواز بنانا چاہتی تھی،فیض نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ!
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
آج وہ مر کر بھی ’’یادگار‘‘ تھی اور اس کے خیالات کو قید کرنے والے آزاد اور زندہ رہ کر بھی سماج کا وہ طمانچہ بن چکے ہیں جس کی زناٹے دار آواز ان کے گال پر ہر لمحے پر پڑتی رہے گی اور انھیں زندہ رکھتے ہوئے بھی بے چین کیے رکھے گی،یہ اس سماج کی ’’حمیرا اصغر‘‘ ایسی کروڑوں بیٹیوں کا مسئلہ ہے جو اپنے تخلیقی جوہر کے ذریعے دنیا کو سنوارنا سجانا چاہتی ہیں مگر اس گلے سڑے تعفن زدہ سوچ کا سماج ایسی بیٹیوں کی تخلیق میں رکاوٹ بنتا ہے،بس نئے سماج قائم کرنے کی امید کی ’’پو‘‘پھوٹنے کی راہیں اسی کشمکش سے نکلتی ہیں۔
اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جانے والے کے مضبوط ارادوں اور طاقتور پاؤں کا پیچھا کرکے جانے والے کی قدر و منزلت کے کھونے پر خود کو طمانچے مار مار کر ’’دکھاوے‘‘کی دنیا کو خوش کرتا ہے اور کچھ عرصے بعد سب کچھ بھول کر دنیا کی رنگینی میں اپنے منفی خیالات کی سڑاند پھر سے سماج میں بھرنے کی تیاری کرتا ہے اور ایسے منفی خیالات کے لوگ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب سماج کی کوئی اور بیٹی ان کے تعفن زدہ سوچ اور ہوسناکی کا شکار ہوکر ان کے مردہ ضمیروں کو نہ جگائے۔
سوال یہ ہے کہ اس سماج میں ناجائز دولت کے انبار کو کیوں طاقت سمجھ لیا گیا ہے؟ کیا یہ اس سماج کی پیدائشی خرابی ہے یا اس سماج کے افراد کو ’’دولت کو طاقت‘‘سمجھنے کی تربیت سے بے حس اور چاپلوس بنایا جارہا ہے؟ سماج کی سوچ اور اس کی ترقی کے زاویوں کا جائزہ لیا جائے تو وقت گذرنے کے ساتھ سماج میں زمانے کی تبدیلی ہی سماجی سوچ اور اس کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔پھر ہم برسوں برس گزر جانے کے بعد بھی زمانے کی ترقی کا دعویٰ کرنے والے اپنی سوچ اور سماجی برتاؤ میں ابھی تک کیوں’’تبدیلی‘‘ نہیں لا سکے ہیں؟کیوں ہم دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی بیٹی،ماں یا بہن کو اس ترقی یافتہ دور میں بھی تیسرے درجے کا فرد سمجھتے ہیں؟
ہم سماجی طور سے شاید منافقت کی اس گھٹیا ترین سطح کی سوچ کے افراد بنادیے گئے ہیں جو دولت اور چمک ہی کو اپنا ایمان جان کر اپنے رسم و روایت میں جاگیردارانہ،وڈیرانہ اور آمرانہ مزاج رکھ کر اپنی فطری و تعمیری صلاحیت کو کند کرکے تعمیری سوچ کو کھوکھلا اور تعفن زدہ کر رہے ہیں۔
کیا گھریلو آمرانہ طرز عمل اس سماج کو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخلیق کے تمام زاویوں سے آگاہی دے پائے گا؟ تخلیق کے تمام پیراہن اور تعمیری سوچ کے افراد اس سماج کے وہ بدبخت کردار بن کر رہ گئے ہیں جنھیں یہ آمرانہ طاقتور ریاست پوری طرح چلّانے بھی نہیں دیتی،ہماری بیٹی،بہن اور ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا پدر شاہی سماج ہماری سوچ کے گلے کاٹ کر ہیرو تو بننا چاہتا ہے،طاقتوروں کا چاپلوس تو بننا چاتا ہے مگر جنم دینے والی عورت کا تحفظ نہیں کر سکتا،ایسے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق پر عالیشان سیمینار منعقد کرنے والوں پر کسی بے بس عورت کا طمانچہ وہ کاری ضرب لگائے گا جو طاقت کے خدا مرتے دم تک وہ داغ نہ دھو سکیں گے،یاد رکھا جائے کہ وقت کا انتقام کسی بھی طاقتور کا ساتھ نہیں دیتا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بارش سے بچنے کیلیے سماجی تنظیموں کو منصوبہ سازی کرنی ہوگی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میرپورخاص(نمائندہ جسارت) مون سون امکانی بارشوں اور موسمی خطرات سے نمٹنے کے لئے سماجی تنظیم سول سوسائٹی سپورٹ پروگرام (سی ایس ایس پی) کے طرز عمل پر کام کرنا ہوگا جس سے دیہی علاقوں میں مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ اس امر کا اظہار ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرٹو و فوکل پرسن ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میرپورخاص(ڈی ڈی ایم اے) فیصل علی سومرو نے سی ایس ایس پی کے تحت گاؤں نانجی پٹیل میں امکانی بارشوں سے قبل گاؤں کے مکینوں کو سیفٹی وال ( بچاؤ بند) کے کام کا افتتاح کرنے کے موقع پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرپورخاص کی تمام سماجی تنظیموں کو مقامی لوگوں کو قدرتی آفات سے بچانے اور موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے کے منصوبے بنانے ہوںگے ڈی ڈی ایم اے ہر سطح پر تعاون کے لیے تیار ہے اس موقع پر سی ایس ایس پی ٹیم افشاں بھٹی ، پرکھو ایسر اور کمیونٹی کے معزز شیوا مل ، کرشن مل، جیا داس ، سنیتا و دیگر ممبران موجود تھے ۔اس موقع پر ڈسٹرکٹ منیجر سی ایس ایس پی محمد بخش کپری نے بتایا کہ سی ایس ایس پی تحصیل شجاع آباد کے مختلف گوٹھوں میں خواتین کے اسکل ٹریننگ کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں بھی کام کر رہی ہے، جس کے تحت آج گاؤں نانجی پٹیل میں امکانی بارشوں سے بچاؤ کے لیے گاؤں کو سیفٹی وال کے کام کا آغاز کیا گیا ہے جس سے امکانی بارشوں میں گاؤں میں نقصان میں کمی آسکتی ہے اس میں مقامی کمیونٹی، معززین افراد خواتین ایکٹیوسٹ اور فیتھ لیڈران کا تعاون بھی شامل ہے۔اس موقع پر گاؤں کی خواتین نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو گاؤں نانجی پٹیل گرلز اسکول دینے کے لئے درخواست بھی کی جس کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔