Express News:
2025-11-03@09:58:22 GMT

سماجی تعفن

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

 کون کہتا ہے کہ وہ ہفتہ یا چھ سے سات ماہ قبل مرچکی تھی،یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں۔مر تو وہ اسی دن گئی تھی جب اس گھن زدہ سماج کے رسم و روایت میں جکڑے فرسودہ خیالات کے گھرانے نے اس کے جینے کے حق کو چھین لیا تھا،گھر کے افراد مبینہ طور پر والد نے پدر شاہی کی گلی سڑی سوچ کے تحت اس کو اپنی آزادانہ سوچ میں جکڑنے کے تمام منفی جتن کیے تھے اور اسے فرسودہ رسم و رواج میں قید کرنے کی کوشش کی تھی،مگر وہ تھی کہ اپنی فطری آزادی کے تمام خدو خال سے واقف ایک باشعور سماج کا فرد بننا چاہتی تھی،وہ فن ومصوری کی صحتمند آزادی کے طاقتور خیالات کو اس سماج کی ہر نسواں کی سوچ اور تندرست آواز بنانا چاہتی تھی،فیض نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ!

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

آج وہ مر کر بھی ’’یادگار‘‘ تھی اور اس کے خیالات کو قید کرنے والے آزاد اور زندہ رہ کر بھی سماج کا وہ طمانچہ بن چکے ہیں جس کی زناٹے دار آواز ان کے گال پر ہر لمحے پر پڑتی رہے گی اور انھیں زندہ رکھتے ہوئے بھی بے چین کیے رکھے گی،یہ اس سماج کی ’’حمیرا اصغر‘‘ ایسی کروڑوں بیٹیوں کا مسئلہ ہے جو اپنے تخلیقی جوہر کے ذریعے دنیا کو سنوارنا سجانا چاہتی ہیں مگر اس گلے سڑے تعفن زدہ سوچ کا سماج ایسی بیٹیوں کی تخلیق میں رکاوٹ بنتا ہے،بس نئے سماج قائم کرنے کی امید کی ’’پو‘‘پھوٹنے کی راہیں اسی کشمکش سے نکلتی ہیں۔

 اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جانے والے کے مضبوط ارادوں اور طاقتور پاؤں کا پیچھا کرکے جانے والے کی قدر و منزلت کے کھونے پر خود کو طمانچے مار مار کر ’’دکھاوے‘‘کی دنیا کو خوش کرتا ہے اور کچھ عرصے بعد سب کچھ بھول کر دنیا کی رنگینی میں اپنے منفی خیالات کی سڑاند پھر سے سماج میں بھرنے کی تیاری کرتا ہے اور ایسے منفی خیالات کے لوگ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب سماج کی کوئی اور بیٹی ان کے تعفن زدہ سوچ اور ہوسناکی کا شکار ہوکر ان کے مردہ ضمیروں کو نہ جگائے۔

 سوال یہ ہے کہ اس سماج میں ناجائز دولت کے انبار کو کیوں طاقت سمجھ لیا گیا ہے؟ کیا یہ اس سماج کی پیدائشی خرابی ہے یا اس سماج کے افراد کو ’’دولت کو طاقت‘‘سمجھنے کی تربیت سے بے حس اور چاپلوس بنایا جارہا ہے؟ سماج کی سوچ اور اس کی ترقی کے زاویوں کا جائزہ لیا جائے تو وقت گذرنے کے ساتھ سماج میں زمانے کی تبدیلی ہی سماجی سوچ اور اس کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔پھر ہم برسوں برس گزر جانے کے بعد بھی زمانے کی ترقی کا دعویٰ کرنے والے اپنی سوچ اور سماجی برتاؤ میں ابھی تک کیوں’’تبدیلی‘‘ نہیں لا سکے ہیں؟کیوں ہم دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی بیٹی،ماں یا بہن کو اس ترقی یافتہ دور میں بھی تیسرے درجے کا فرد سمجھتے ہیں؟

ہم سماجی طور سے شاید منافقت کی اس گھٹیا ترین سطح کی سوچ کے افراد بنادیے گئے ہیں جو دولت اور چمک ہی کو اپنا ایمان جان کر اپنے رسم و روایت میں جاگیردارانہ،وڈیرانہ اور آمرانہ مزاج رکھ کر اپنی فطری و تعمیری صلاحیت کو کند کرکے تعمیری سوچ کو کھوکھلا اور تعفن زدہ کر رہے ہیں۔

کیا گھریلو آمرانہ طرز عمل اس سماج کو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخلیق کے تمام زاویوں سے آگاہی دے پائے گا؟ تخلیق کے تمام پیراہن اور تعمیری سوچ کے افراد اس سماج کے وہ بدبخت کردار بن کر رہ گئے ہیں جنھیں یہ آمرانہ طاقتور ریاست پوری طرح چلّانے بھی نہیں دیتی،ہماری بیٹی،بہن اور ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا پدر شاہی سماج ہماری سوچ کے گلے کاٹ کر ہیرو تو بننا چاہتا ہے،طاقتوروں کا چاپلوس تو بننا چاتا ہے مگر جنم دینے والی عورت کا تحفظ نہیں کر سکتا،ایسے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق پر عالیشان سیمینار منعقد کرنے والوں پر کسی بے بس عورت کا طمانچہ وہ کاری ضرب لگائے گا جو طاقت کے خدا مرتے دم تک وہ داغ نہ دھو سکیں گے،یاد رکھا جائے کہ وقت کا انتقام کسی بھی طاقتور کا ساتھ نہیں دیتا۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔


پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔


ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔


آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔


لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔


لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • صدر زرداری کل سے شروع ہونے والی دوحہ کانفرنس میں شرکت کرینگے
  • عقیل شہزاد آرائیں کو کمیونٹی خدمات پر تعریفی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
  • صدر مملکت آصف زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شرکت کرینگے
  • صدرِ مملکت آصف علی زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شریک ہوں گے
  • قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں: مراد علی شاہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا