ابراہیم اکارڈ، جدید دین اکبری
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
معاہدہ ابراہیمی ایک سفارتی معاہدہ ہے جو 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ امریکا کی ثالثی میں کیا۔ اس معاہدہ کے تحت ان مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ سفارتی تعلقات قائم کیے اور باقاعدہ سفارت خانے بھی کھولے جانے کا آغاز کیا۔ ان معاہدوں کا نام سیدنا ابرہیمؑ کے نام پر رکھا گیا تاکہ تینوں ابراہیمی ادیان یہودیت، عیسائیت، اسلام کو مشترکہ بنیاد پر لایا جائے۔ یہ معاہدہ بظاہر ترقی اور استحکام کے لیے کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ فلسطینی کاز کے ساتھ کھلی بے وفائی ہے۔ اسرائیل نے طویل عرصے سے مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینی علاقوں میں مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان حالات میں کسی بھی اسلامی ملک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ظلم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام سے لیکر اب تک فلسطین کے حق خودداریت کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور بعد ازاں تمام حکومتوں نے یہ ہی موقف اختیار کیا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق نہیں مل ملتا پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ روز قبل پاکستان کے ایک وزیر کی جانب سے معاہدہ ابراہیمی کی حمایت اور اس معاہدے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا گیا جو کہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے اور فلسطینی بھائیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف اور ان کی قربانیوں کی توہین ہے۔
2020 میں ہو نے والا ابراہیم اکارڈ بظاہر مشرق وسطیٰ میں امن، سفارت کاری اور تعاون کا معاہدہ ہے لیکن یہ اصل میں فلسطینی کاز کے زوال، عرب دنیا کی تقسیم اور گریٹر اسرائیل منصوبہ ہے۔ ابراہیم اکارڈ دراصل اسرائیل اور جدید عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سلسلہ ہے۔ اس کا آغاز متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوا سعودی عرب تاحال کسی طور اس معاہدے میں شامل نہیں مگر اس کی پس پردہ سفارتی روابط کی اطلاعات گردش میں ہیں۔ ان معاہدات کا سب سے بڑا نقصان فلسطین کو ہوا ہے۔ فلسطینی قیادت نے ان معاہدات کو فلسطینی کاز کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں سے فلسطینی ریاست کا تصور کمزور ہوگا اور اسرائیل کو قبضے جاری رکھنے کے باوجود سفارتی برتری حاصل ہوجائے گی اور اس معاہدے سے اسرائیل کو گریٹر اسرائیل کے قیام میں بڑی مدد حاصل ہوگی۔ گریٹر اسرائیل کا مطلب وہ اسرائیلی ریاست ہے جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک جاتی ہیں اور جس میں اردن، عراق، شام، لبنان اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل تصورکیے جاتے ہیں۔ ابراہیم اکارڈ کے بعد اسرائیل کو خطے میں وہ قبولیت مل رہی ہے جو ماضی میں ناممکن سمجھیں جاتی تھی۔ بعض حلقے اسے ’’دین اکبری‘‘ کی جدید سیاسی شکل قرار دے رہے ہیں۔ مغل بادشاہ اکبر نے مختلف مذاہبِ کو یکجا کر کے ’’دین الٰہی‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی طرز پر اب ابراہیم اکارڈ کے ذریعے اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ایک سیاسی اتحاد میں لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کے عقائد، تاریخ اور نظریاتی بنیادوں سے متصادم سمجھا جا رہا ہے۔ ابراہیم اکارڈ بظاہر امن کا معاہدہ ہے مگر درحقیقت اس سے فلسطین کا مقدمہ کمزور ہوگا اور اسرائیل کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ عرب دنیا تقسیم ہو جائے گی اور عرب ممالک میں امریکا کی بالادستی قائم ہوجائے گی اور یہ معاہدہ اسلامی ممالک کے لیے ان کی اسلامی شناخت کے لیے ایک بڑا چیلنج تصور کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش اور تنبیہ ثابت ہوگا۔ امت مسلمہ کے حکمراں اور امت جاگے کہ ورنہ پھر یہ تماشا ’’دین اکبری‘‘ کی طرح ایک اور سیاہ باب بن کر رہے جائے گا۔
پاکستان کی ریاست اور عوام کا پختہ عزم اور موقف رہا ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ معاہدہ مسلم دنیا کو دو حصوں میں بانٹ رہا ہے۔ جو بھی حکومتی وزیر کسی بھی طاقت ور کے ایماء پر اس معاہدے کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار اور بات کررہا ہے وہ کھلم کھلا فلسطین کے کاز سے غداری کررہا ہے۔ اسلام ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے نہ کہ ظالم کے ساتھ۔ اسرائیل ایک غاصب، قاتل اور نسل پرست ریاست ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں یا معاہدہ ابراہیمی کی حمایت نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ یہ پاکستان کے نظریاتی تشخص آئینی بنیادوں اور اسلامی اخوت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے تاریخی موقوف پر ڈٹ کر قائم رہے اور اسرائیل جیسے قابض ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات سے مکمل گریز کیا جائے اور فلسطین کی مکمل آزادی تک اس کی حمایت جاری رکھی جائے۔ان شاء اللہ وہ وقت بھی دور نہیں جب قبلہ اوّل کو آزادی حاصل ہوگی اور فلسطین آزاد ہوگا۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو تسلیم ابراہیم اکارڈ اور اسرائیل اور فلسطین اس معاہدے کی حمایت کے ساتھ کسی بھی رہا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی افواج نے ایک اور فلسطینی شہری کو شہید کر دیا ہے، جس کے بعد جنگ بندی کے آغاز سے اب تک شہادتوں کی تعداد 236 ہو گئی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اتوار کو اسرائیلی ڈرون نے غزہ شہر کے علاقے شجاعیہ میں ایک فلسطینی شہری کو نشانہ بنایا، جہاں صبح سے اسرائیلی فوج عمارتوں کو منہدم کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ مقتول شخص نے جنگ بندی کی لکیر عبور کی اور فوجیوں کے قریب پہنچا، تاہم اس الزام کے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی افواج کے حملوں میں 600 فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ گھروں اور عمارتوں کے ملبے سے مزید 502 لاشیں برآمد کی گئی ہیں، جس سے مجموعی فلسطینی شہادتوں کی تعداد 68,856 ہو گئی ہے۔
دوسری جانب حماس نے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں عالمی ادارۂ ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بین یامین نیتن یاہو کے دفتر نے لاشوں کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پہنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ لاشیں تل ابیب کے ابو کبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ میں منتقل کر دی گئی ہیں، جہاں ان کی شناخت کا عمل دو دن تک جاری رہ سکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل اب ان قیدیوں کے بدلے 45 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کرے گا، یعنی ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 15 فلسطینیوں کی لاشیں۔
ماہرین اور امریکی حکام کے مطابق باقی ماندہ 8 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی تلاش مزید مشکل مرحلہ ثابت ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل غزہ فلسطین