جرمنی اور آسٹریا کا اسرائیل سے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: جرمنی اور آسٹریا کے وزرائے خارجہ نے اسرائیلی ہم منصب پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فوری انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائیں اور فلسطینیوں کے لیے سیاسی مستقبل کی راہ ہموار کرنے کے لیے سفارتی عمل کی بحالی میں کردار ادا کریں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق تین ملکی اجلاس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے کہاکہ بین الاقوامی انسانی قوانین اور اخلاقی ذمے داریوں سے انحراف ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہمارے لیے غیر متنازع اصول ہیں، غزہ کی صورتحال پر تشویش ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پائیدار امن فلسطینی عوام کے سیاسی مستقبل کے بغیر ممکن نہیں۔
آسٹریائی وزیر خارجہ نے ان رپورٹس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت، امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر غزہ کے فلسطینیوں کو علاقہ بدر کرنے یا وہاں مستقل قبضے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے،غزہ فلسطینی علاقہ ہے اور فلسطینیوں کا ہی رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی صورتحال کی بہتری موجودہ وقت کی فوری ضرورت ہے اور اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے اقدامات کو محدود رکھنا ہوگا۔
جرمن وزیر خارجہ جوہان ویڈیفُل نے اپنی آسٹریائی ہم منصب کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی سیکیورٹی جرمنی کے لیے ناقابلِ تنسیخ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کی تکالیف پر بھی توجہ دینا ناگزیر ہے۔
ویڈیفُل نے کہا کہ غزہ میں بھوک، بیماری اور موت نے سنگین صورت اختیار کر لی ہے، لوگ امداد حاصل کرنے کی کوشش میں مارے جا رہے ہیں، بچے بھوک سے مر رہے ہیں، ہم سب اس صورت حال پر گہرے دکھ میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کی جانب سے بار بار خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ امداد انتہائی ناکافی ہے،ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
یاد رہے کہ یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ مذاکرات میں غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے چند اقدامات پر اتفاق ہوا ہے، جن میں امدادی ٹرکوں کی تعداد میں اضافہ، ایندھن کی فراہمی اور خوراک کی تقسیم شامل ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں غزہ میں فوجی کارروائی شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں اب تک 57,700 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ کم از کم 19 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور خوراک، ادویات اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا شکار ہیں۔
اسرائیل کو اس وقت غزہ میں جاری کارروائیوں کے باعث بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا سامنا بھی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جنگ بندی کے لیے دوسری ملاقات، غزہ میں 40 فلسطینی شہید
ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی ثالث جنگ بندی کے معاہدے کو مکمل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 40 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ یہ ان کی دو دنوں میں دوسری ملاقات ہے۔
ٹرمپ جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جس سے غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اور حماس امریکی جنگ بندی کی ایک نئی تجویز پر غور کر رہے ہیں جس سے جنگ کو رکے گی، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی ملے گی اور غزہ میں انتہائی ضروری امداد بھیجی جائے گی۔
دوسری جانب خان یونس کے ناصر ہسپتال نے بتایا کہ مرنے والوں میں 17 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔ اور ایک حملے میں ایک ہی خاندان کے 10 افرادشہید ہوئے، جن میں تین بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیلی فوج نے ان حملوں کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن یہ کہا ہے کہ اس نے گذشتہ روز غزہ میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔
وسیع و عریض ساحلی علاقے المواصی میں، جہاں بہت سے لوگ بے گھر ہونے کے بعد عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، عبیر النجار نے کہا کہ انہیں مسلسل بمباری کے دوران اپنے خاندان کے لیے خوراک اور پانی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔
’میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ (جنگ میں) ایک وقفہ آ جائے، اور یہ ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے ایک یا دو مہینے جھوٹ بولیں، پھر وہی کرنا شروع کریں جو وہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہم مکمل جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘
امانی ابو عمر کا کہنا تھا کہ پانی کا ٹرک ہر چار دن بعد آتا ہے، جو ان کے پانی کی کمی سے دوچار بچوں کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہیں گرمی کی شدت سے جلد پر خارش کی شکایت تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے بے چین ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انہیں دوبارہ مایوس کیا جائے گا۔
’ہم نے کئی مواقع پر جنگ بندی کی توقع کی تھی، لیکن سب لاحاصل رہا۔‘
غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا۔ اس حملے میں 12 سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کے جوابی حملے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
امریکی صدر سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے منگل کو کیپیٹل میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کا اور ٹرمپ کا حماس کو تباہ کرنے کی ضرورت پر ’اتفاق‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی اس وقت اسرائیل کی 77 سالہ تاریخ میں سب سے بہتر ہے۔
دوسری ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اور ٹرمپ نے دو ہفتے قبل ختم ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی اور امریکی حملوں سے ایران پر ’عظیم فتح‘ پر بھی بات کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں امن کے دائرے کو بڑھانے اور ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کے مواقع موجود ہیں۔