بلاول بھٹو کے پیپلزپارٹی میں سیاسی رہنمائوں کی شمولیت کیلئے پارٹی کو احکامات
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی ) پاکستان پیپلز پارٹی میں سیاسی رہنمائو ں کی شمولیت کا امکان ہے، اس سلسلے میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کو احکامات جاری کر دئیے۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے ملکی سیاست میں مزید متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے، پنجاب اور خیبرپی کے میں پارٹی کو ازسرنو فعال کیا جائے گا۔صدر مملکت آصف علی زرداری جلد لاہور اور جنوبی پنجاب کا دورہ کریں گے۔ پیپلز پارٹی سیاسی رہنماوں کی پارٹی میں شمولیت کیلئے رابطے تیز کرے گی جس کیلئے قیادت نے پارٹی رہنمائوں کو ٹاسک سونپ دئیے۔ذرائع نے بتایا کہ پنجاب میں سیاسی رابطوں کیلئے ذمہ داری مخدوم خاندان کے سپرد کر دی گئی، جنوبی پنجاب میں سیاسی رابطوں کا ٹاسک مخدوم احمد محمود کو دیا گیا ہے، وسطی پنجاب میں راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کا ئرہ اور ندیم افضل چن کو ٹاسک ملا ہے۔صدر پیپلز پارٹی خیبرپی کے محمد علی شاہ باچا کو سیاسی رہنمائوں سے رابطوں کی ذمہ داری ملی ہے، پارٹی کے خیبر پختونخوا میں سیاسی شخصیات سے رابطے جاری ہیں۔ذرائع کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا سے جلد پیپلز پارٹی میں نئی شمولیت کا امکان ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پارٹی میں میں سیاسی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔