اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بتایاجائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی،کس کس نے برآمد کی، یہ بھی بتایا جائے کہ کس کس ملک کو چینی برآمد کی گئی تھی. پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی کو ملک چینی کی قیمتوں پر بریفنگ دی گئی رکن کمیٹی معین پیرزادہ نے کہاکہ شوگر مافیا صوبائی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے، کیا مراد علی شاہ یا مریم نواز کے پاس اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے؟ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں تمام مال بیچنے والے موجود ہیں لیکن صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے.

یاد رہے کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے گزشتہ ہفتے حکومتی فیصلے کی روشنی میں چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری پر ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کا نوٹس لیتے ہوئے ایس آر او پر وضاحت کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو آج طلب کیا تھا چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے آج پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں پیش ہوکر انکشاف کیا کہ 5لاکھ ٹن چینی کی درآمد کیلئے کابینہ کی ہدایت پر 4 قسم کے ٹیکسوں میں کمی کی گئی، مختلف ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد پر لایا گیا.

سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ سیزن کے آغاز میں 1.3 ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا، چینی برآمد کرنے کی اجازت کاشتکاروں کو تحفظ دینے کے لیے دی گئی تھی، سیکرٹری فوڈ سیکورٹی کے ریمارکس پر کمیٹی کے ارکان نے تشویش کا اظہار کیا. چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ چند شوگر ملز مالکان کو ارب پتی بنانے کے لیے پہلے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پی اے سی نے چینی کا معاملہ آئندہ ہفتے تک موخر کر دیا واضح رہے کہ فاقی کابینہ نے شوگر ملز مالکان کی جانب سے 21 نومبر 2024 سے پیداوار شروع کرنے کی شرط پر مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی بعدازاں ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے گزشتہ ماہ 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم حکومت کو 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کے عالمی ٹینڈر پر کوئی بولی موصول نہیں ہوئی ہے.

علاوہ ازیں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے آڈٹ رپورٹ 24-2023 میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا، فراڈ پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث کمپنی کو قرضہ دینے کی وجہ سے 23 ارب روپے کے نقصان کا معاملہ بھی اجلاس بھی زیر غور آیا. آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک نے حیسکول پٹرولیم لمیٹڈ کا معاشی تجزیہ کیے بغیر یہ قرضہ دیا، سینیٹر افنان اللہ نے فنانس ڈویژن کے حکام سے سوال کیا کہ آپ بتائیں 23 ارب روپے کہاں گئے، سید نوید قمر نے کہاکہ آپ کو ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اندر 32 ملزمان کے نام تھے، اس میں کچھ بینکرز کا کردار بھی تھا، صدر نیشنل بینک نے بتایا کہ 2 ارب روپے ہمیں وصول ہوچکے ہیں، جنہوں نے جرم کیا وہ چھوٹ گئے جبکہ نیشنل بینک کے لوگ ایف آئی اے کے پاس ہیں۔ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حیسکول کے 12 میں سے 7 بندوں کا کوئی کردار نہیں تھا،2 افراد کو عدالت نے چھوٹ دی جبکہ 5 افراد کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا، پی اے سی نے معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ موخر کردیا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چینی برآمد کرنے کی اجازت پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی پی اے سی ٹن چینی چینی کی

پڑھیں:

 بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!

وفاقی بجٹ 2025-26 کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا یہ بجٹ پاکستان کی کمزور معیشت کو بحال کرنے، مہنگائی کم کرنے اور صنعتی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے دعووں کے برعکس یہ ریلیف اور اصلاحات فراہم کرنے کے بجائے، تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں خاص طورپر ہمارے امپورٹیڈ وزیر خزانہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو اعتماد اور تعاون سے چلتی ہو، نہ کہ دباؤ اور جبر سے بجٹ کے اعلان کے بعد حکومت کے اقدامات درحقیقت ان لوگوں کو ایک پیغامِ عدم اعتماد دے رہی ہے جو طویل عرصے سے قومی آمدنی کا ستون رہے ہیں۔ یہ بجٹ کاروباری برادری کو قومی ترقی میں شراکت دار کے بجائے مشتبہ افراد کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں نگرانی اور سزا کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدنی کا 70 فیصد سے زائد نجی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس شاندار کردار کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے مبینہ طورپر ایک جارحانہ اور مخالفانہ لہجہ اختیار کر رکھا ہے، جو سرمایہ کے انخلاء، سرمایہ کاری میں کمی اور مزید کاروباروں کے غیر دستاویزی معیشت میں منتقل ہونے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی معیشت میں روزگار اور جدت کے بنیادی انجن ہیں۔ اس شعبے کو نہ کوئی مؤثر ریلیف دیا گیا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، جو کہ پہلے ہی ایک پیچیدہ اور بوجھل نظام ہے۔ کاروباری برادری کی بار بار اپیلوں کے باوجود صنعتوں اور برآمد کنندگان کے لیے توانائی کی سبسڈی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔درمیانے طبقے اور کم آمدنی والے گروپوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافے کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں موجود نہیں، نہ ہی بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی ہے، اور نہ ہی بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نجات دی گئی ہے اس کے برعکس بجٹ کے اعلان کے بعد پے درپے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مہنگائی گھریلو آمدنی کو کھا رہی ہے، معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک بار پھر سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔حکومت اس بجٹ کو شفافیت اور دستاویزی معیشت کی جانب قدم قرار دے رہی ہے، مگر اس کے طریقے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔معاشی بحالی دباؤ سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ اقتصادی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو دباتا نہیں بلکہ سہارا دیتا ہے، توڑتا نہیں بلکہ تعمیر کرتا ہے۔حقیقی اصلاحات جبر سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، بلکہ ان کے لیے احترام، انصاف اور اعتماد ضروری ہے۔اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل دستاویزات کے فروغ کے لیے مراعات دے، نہ کہ دھمکیاں۔ توجہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ بار بار انہی ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر۔ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ خود ایف بی آر کے بجائے آزاد ٹربیونلز کو کرنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات، کاروباری اداروں کو ایک ایسے ماحول میں کام کرنے دیا جائے جو ان کی رازداری اور مالی وقار کا تحفظ کرے۔جب ہم اپنے خطے پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے زیادہ ترقی پسند اور کاروبار دوست پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کا ایک مؤثر نظام نافذ کیا ہے جو ایک ونڈو پلیٹ فارم کے ذریعے ٹیکس کی تعمیل کو آسان بناتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے۔ ویتنام کارپوریٹ ٹیکس کی مراعات اور صنعت و آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہدفی امداد کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر رہا ہے۔جب یہ ممالک معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، پاکستان کا نیا بجٹ دونوں کو روکنے کا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس بہتر آپشنز موجود تھیں۔ وہ SMEs کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کر سکتی تھی، ٹیکس ہالیڈیز اور اسٹارٹ اپ گرانٹس متعارف کروا سکتی تھی، اور مقامی صنعت و پیداوار کو بڑھانے کے لیے GST کم کر سکتی تھی۔ برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر سہارا دیا جا سکتا تھا۔ ایف بی آر کو شفاف، خدمت گزار ادارہ بنایا جا سکتا تھا، جس میں مؤثر داخلی احتساب ہوتا۔بدعنوانی کے خلاف اندرونی طور پر لڑنے کے لیے ”وسل بلوئر” نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسے بنیادی شعبوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے تاکہ انسانی ترقی کو پائیدار بنایا جا سکے۔بدقسمتی سے، بجٹ 2025-26 اصلاحات کا خاکہ نہیں بلکہ مالیاتی آمریت کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔اس صورت حال کا اگر بروقت ادراک نہ کیاگیااور اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کاروباری طبقے کو خود سے دور کرنے، جدت کو کمزور کرنے، اور معاشی زوال کو مزید گہرا کرنے کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔معاشی بحالی دھونس سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جو سہارا دے، نہ کہ دباؤ ڈالے ،تعمیر کرے، نہ کہ توڑے۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں کاروبار کو سراہا جائے، نہ کہ مجرم ٹھہرایا جائے اور جہاں پالیسی شراکت داری کا عکس ہو، نہ کہ سزا کا۔
پاکستان نے اس ماہ ایک اور مالی سال کا آغاز کرتے ہی بجٹ کے حوالے سے پائے جانے والے وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کے باوجود، حکمرانوں نے عوامی جذبات کونظرانداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔یہ صحیحہے کہ آج پاکستان2سال قبل کے مقابلے مجیں جب ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا تھا اور روپے کو شدید اتار چڑھاؤ درپیش تھا کافی فاصلے پر کھڑا ہے، ۔اس کامیابی کا سبب حکمرانوں کی پالیسیوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی ہے جس نے پاکستان کو وقتی طور پر مالی استحکام دلا دیا۔مگر، عوام کے جذبات اور اقتدار کے ایوانوں کے بیانیے کے درمیان یہ خلیج ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں، لیکن ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو ان دعووں کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے بارہا انتباہی اشاروں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً 40 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ”سب اچھا ہے” کے نعرے پر ملک کی قیادت کرنا مستقبل سے متعلق سنگین غلط فہمیوں کو جنم دے
سکتا ہے۔اس تلخ حقیقت کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی کا گہرا چیلنج بھی ہے، جس کی عکاسی پاکستان بھر میں جاری بارش سے جڑے تباہ کن واقعات سے ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بمشکل ہی کوئی علاقہ ایسا ہوگا جہاں مون سون کی بارشوں نے غیر متوقع اثرات نہ ڈالے ہوں۔ بدلتے موسم کے رجحانات اس بات کا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی غذائی سلامتی اب خطرے میں ہے۔گزشتہ مالی سالجولائی 2024 تا جون 2025کے دوران زرعی پیداوار میں محض 0.6 فیصد کی معمولی شرح نمو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔زراعت میں جاری نقصانات نے پاکستان کے صدیوں پرانے فصلاتی نظام کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر غذائی تحفظ سے جڑے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ان کے بھیانک نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔زراعت سے منسلک روزگار اور آمدنی کے بے شمار مواقع اس شعبے کو ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم بناتے ہیں۔ جب تک غریب کسانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آتی اور انہیں مؤثر تحفظ نہیں ملتا، پاکستان کو آنے والے برسوں میں ایک وسیع تر سماجی و معاشی بحران کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان افراد کی حفاظت کی جا سکے جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ بھی گہرے سوالات کی زد میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی آئی۔ فی الحال، پاکستان کے جاری کھاتے میں بہتری بنیادی طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ملک کو اب تک بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کی ضمانت بالآخر برآمدات میں مضبوط اور متنوع اضافے سے ہی مشروط ہونی چاہیے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے زراعت سے لے کر صنعت تک برآمدات میں تنوع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔آخر میں، اس ہفتے تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے سادہ ٹیکس فائلنگ نظام کی رونمائی پر کی گئی سرکاری تشہیر پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔ ٹیکس محصولات میں سب سے بڑی کمی پاکستان کے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے میں نہیں بلکہ ان اہم شعبوں میں ہے جو یا تو انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت سے کہیں کم ادا کرتے ہیں۔بارہا پاکستان کو ایسے خلا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جو ریاستی رٹ نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اب جب کہ پاکستان کو اقتصادی میدان میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ماضی کی غلطیوں کو درست کر کے ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔بالآخر، پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت کا انحصار ان اصلاحات پر ہے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ یہ اصلاحات اسی وقت کامیاب ہوں گی جب پاکستان کے رہنما واضح رہنمائی فراہم کریں گے اور خود اس پر عمل کر کے مثال قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • غریب بجلی صارفین کو سبسڈی کی مد میں نقد رقم دینے کا فیصلہ
  • شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد کے قرضے واپس نہ کرنے کا انکشاف
  • چینی امپورٹ کا فیصلہ کابینہ نے کیا، ہم تو فیصلے کے پابند ہیں: چیئرمین ایف بی آر
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی: چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف
  • چینی کی ایکسپورٹ کیلیے 4 طرح کے ٹیکسز کو صفر پر رکھا گیا، قائمہ کمیٹی میں انکشاف
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ 
  • حیدرآباد، سیری پولیس کا اسٹریٹ کرمنلز سے مقابلہ، ایک زخمی حالت میں گرفتار، دو فرار
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!
  • شہر کو صاف رکھنے کا عزم،آئی سی سی نے شجرکاری مہم کا آغاز کر دیا