اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حکومتوں پر نئے موسمیاتی منصوبے جلد از جلد پیش کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے ایسے مرحلے میں پہنچ گئی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور معدنی ایندھن کا دور اب اختتام پذیر ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ماحول دوست توانائی کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور شمسی و ہوائی توانائی کی قیمتیں معدنی ایندھن کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔

Tweet URL

ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کو روکا نہیں جا سکتا لیکن فی الوقت یہ تبدیلی نہ تو بہت تیزرفتار ہے اور نہ ہی اسے منصفانہ کہا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

حکومتوں کو چاہیے کہ وہ آئندہ سال برازیل میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل اپنے موسمیاتی منصوبے پیش کریں۔

سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ گزشتہ سال ماحول دوست توانائی کے لیے 2 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جو اس عرصہ میں معدنی ایندھن پر ہونے والی سرمایہ کاری سے 800 ارب ڈالر زیادہ تھی۔

قابل تجدید توانائی کا انقلاب

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے عالمی ادارے (آئی آر ای این اے) کی فراہم کردہ معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب شمسی توانائی کا حصول معدنی ایندھن سے حاصل ہونے والی توانائی کے مقابلے میں 41 فیصد سستا ہے۔

اسی طرح، ساحل سمندر کے قریب ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی معدنی ایندھن کی توانائی سے 53 فیصد سستی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے حصول کی استعداد معدنی ایندھن کی توانائی کے برابر ہے اور گزشتہ سال تقریباً تمام تر نئی توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہوئی جبکہ ہر براعظم نے معدنی ایندھن کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل تجدید توانائی کو اپنے نظام کا حصہ بنایا۔

ناقابل واپسی پیش رفت

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ ماحول دوست توانائی اب وعدہ نہیں رہا بلکہ اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب کوئی حکومت، کوئی صنعت اور کوئی خاص مفاد اسے روک نہیں سکتا۔ یقیناً معدنی ایندھن کا ادارہ اپنی کوشش کرے گا لیکن انہیں ناکامی ہو گی کیونکہ قابل تجدید توانائی کا شعبہ جس قدر ترقی کر چکا ہے وہاں سے واپسی نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی کے دوران صاف توانائی میں خرچ ہونے والے ہر پانچ ڈالر میں سے صرف ایک ڈالر چین کے علاوہ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں کو ملا۔ 1.

5 ڈگری کے ہدف کو قابل رسائی رکھنے اور دنیا بھر میں تمام لوگوں کی توانائی تک پہنچ کو یقینی بنانے کے لیے 2030 تک یہ مالی معاونت پانچ گنا سے زیادہ بڑھانا ہو گی۔

انتونیو گوتیرش نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا کہ وہ آئندہ چند ماہ میں اپنے قومی موسمیاتی منصوبے پیش کریں اور جی 20 ممالک عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے سے متعلق اپنے نئے منصوبے ستمبر میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں جمع کروائیں۔

UN Photo/Mark Garten چھ ضروری اقدامات

سیکرٹری جنرل نے معدنی ایندھن پر انحصار کے جغرافیائی سیاسی خدشات کے بارے میں بھی بات کی اور یوکرین پر روس کا حملہ ہونے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معدنی ایندھن آج توانائی کے تحفظ کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے۔

اس کے بجائے، سورج کی روشنی کی قیمت نہیں بڑھ سکتی اور ہوا پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ قابل تجدید توانائی کا مطلب توانائی کا حقیقی تحفظ ہے۔

انہوں نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کے لیے چھ اہم اقدامات کی اہمیت کو واضح کیا۔ ان میں پرعزم قومی موسمیاتی منصوبے، جدید گرڈ اور توانائی جمع کرنے کی صلاحیت، بجلی کی بڑھتی طلب کو پائیدار طریقے سے پورا کرنا، کارکنوں اور مقامی لوگوں کی قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی، ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجی کی ترسیل کے نظام کو وسعت دینے کے لیے تجارتی اصلاحات اور نئی منڈیوں کے لیے مالی وسائل کی دستیابی شامل ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے، کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں کو مضبوط بنانے، ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے اور موسمیاتی اقدامات کے عوض قرض معاف کرنے جیسے اقدامات کے لیے بھی زور دیا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماحول دوست توانائی قابل تجدید توانائی موسمیاتی منصوبے توانائی کی جانب معدنی ایندھن توانائی کے توانائی کا ہونے والی کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

پیسہ پیسہ کرکے!!

جانے آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں مگر میں گزشتہ چند دن سے اس پر غور و فکر کر رہی ہوں اور حیرت میں ڈوبتی جاتی ہوں ۔ ایک دکان سے پھل اور سبزی خریدتی ہوں، سبزیوں کے نرخ اس طرح سے ہیں کہ میرا بل بنتا ہے سات سو اٹھائیس روپے، میں دکاندار کو سات سو پچاس روپے دیتی ہوں تو وہ مجھے بیس روپے واپس کر دیتا ہے۔ میں کپڑوں کی دکان پر کچھ خریداری کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ میرا بل چار ہزار سات سو پچانوے روپے ہے۔

میں اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیتی ہو تو وہ مجھے دو سو روپے بقایا دیتا ہے۔ میں دوا خریدنے جاتی ہوں تو دوا کی ڈبیا پر دوا کی قیمت لکھی ہوئی ہے چار سو ستاسٹھ روپے۔ میں اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیتی ہوں اور وہ مجھے بقایا دیتا ہے تیس روپے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت کے حساب سے اگر آپ کا بل اتنا بنتا ہو کہ پانچ روپے سے کم بقایا بنتا ہو تو واپسی پر آپ کو پانچ روپے سے کم کی وہ رقم واپس نہیں ملتی۔

آپ تصور کریں کہ کسی پٹرول پمپ پر، کسی سبزی پھل کی دکان پر یا کسی کپڑے ، جوتے یا کتابوں کی دکان پر… ایک دن میں کتنے گاہک آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا بقایا پانچ روپے سے کم ہو تو انھیں وہ واپس نہیں ملتا اور کوئی اس کے بارے میں فکر بھی نہیں کرتا کیونکہ اس وقت پچاس اور سو روپے کی اتنی بھی وقعت نہیں ہے تو پانچ دس روپے کی کیا وقعت ہے کہ کسی کو واپس نہ ملنے پر دکھ ہو۔

اس دکاندار کو سوچیں جو کہ دن میں جانے کتنے ہی لوگوں سے اتنی چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کر کے ایک دن، ہفتے ، مہینے یا سال میں کتنی رقم جمع کرتا ہے جس کا نہ کوئی شمار ہوتا ہے اور نہ حساب۔ درست بل دینا کہ جس پر ٹیکس نمبر بھی لکھا ہو، وہ ہمارے یہاں چھوٹے دکاندار کو عادت ہی نہیں، بل اس وقت دیتے ہیں جب آپ مطالبہ کریں۔ کارڈ سے بل نہیں لیتے کیونکہ وہ ریکارڈ میں آجاتا ہے اور اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کاروبار ہیں جو کہ آپ کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ کیش میں ادائیگی کریں تو آپ کو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔

ہم سب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ملکی مفاد میں سوچیں تو ہمیں ایسی پیشکش کو ٹھکرا دینا چاہیے مگر جب ہم کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ٹیکس دے کر کیا ملتا ہے؟ سارا ٹیکس تو انھیں کے اللوں تللوں اور ان کے شاہانہ اخراجات میں چلا جاتا ہے جو پہلے سے ہی اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر رہ رہے ہیں۔

ہمیں کون سا ان ممالک کی طرح بنیادی انسانی سہولیات میسر ہیں جیسی کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر ہم شاید اس میں بھی پہلے نمبر پر ہوں گے کیونکہ ہم ایسی چیزوں میں درجہء کمال پر ہیں جو درست نہیں ہیں۔

سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں پیسے کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کارڈ پر ادائیگی کرنا چاہیں تو دکانداروں کی مشین نہیں چلتی، بڑے بڑے دکاندار بھی کئی بار کہہ دیتے ہیں کہ مشین میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ کے کارڈ میں۔ اگر کارڈ پر بل لینے کو مان بھی جائیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ کی فیس گاہک کو دینا ہو گی۔ بڑے بڑے سنار ( جیولرز) لاکھوں اور کروڑوں کے بل لیتے ہیں، وہ ساری سیل نہ چھپاتے ہوں تو بھی کچھ نہ کچھ چھپا جاتے ہیں۔

ٹیکس نیٹ میں ہر چھوٹے بڑے کاروباری کو لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے اپنے کھاتے سدھار سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیکس کے محکمے کے ہی لوگ ، ملوث ہیں جو کہ لوگوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتاتے ہیں۔ پھر میںنے عہد کیا کہ چھوٹے ٹھیلوں، سڑک کے کنارے ریڑھی بانوں یا کسی کو نقد دینے کے علاوہ میں ہر جگہ کارڈ استعمال کروں گی۔

اس دوران میں نے غور کیا کہ کپڑے کا بڑے سے بڑا کاروباری برانڈ بھی آپ کو بل بتاتا ہے گیارہ سو ستر… جب آپ کارڈ سے رقم ادا کرتے ہیں تو آپ کے گیارہ سو ستاسٹھ روپے کٹتے ہیں، استفسار کریں کہ انھوں نے توبل گیارہ سو ستر بتایا تھا تو جواب ملے گا کہ انھوں نے اس رقم کو Round up کر دیا تھا۔ راؤنڈ اپ تو گیارہ سو ساٹھ یا پنسٹھ بھی ہو سکتے ہیں مگرکسی کے پاس اب کہاں سکے ہوتے ہیں اور دس روپے تک کا نوٹ بھی متروک ہو چکا ہے۔ کارڈ پر ادائیگی کر کے آپ کچھ نہیں تو ہر ماہ کچھ رقم بچا سکتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی پر کشش پیش کش کرتا ہے ، نقد دینے پر ٹیکس میں اتنی چھوٹ ہو گی تو اس جال میں نہ پھنسیں، ذمے داری کا ثبوت دیں۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک اور نظام کو خراب نہ ہونے دیں۔

متعلقہ مضامین

  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • پیسہ پیسہ کرکے!!
  • امریکا آنیوالے تمام غیر ملکیوں کو اب 250 ڈالرز اضافی ویزا فیس دینا ہوگی
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • ایلون مسک کی سیاست میں واپسی کا امکان، اسپیس ایکس نے سرمایہ کاروں کو خبردار کر دیا
  • اربعین پالیسی 2025 ایران کی زائرین کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  •  سی پیک دوسرے مر حلے ‘ چینی بھائیوں کیلئے محفوط ‘ کاروبار دوست ماحول بناہیں رہے ہیں : وزیراعظم 
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی