مدرسے میں استاد کے تشدد سے بچے کے جاں بحق ہونے پر شہزاد رائے بھی بول اٹھے
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
سوات کے مدرسے میں استاد کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے 14 سالہ فرحان کو انصاف دلانے کےلیے سماجی کارکن اور زندگی ٹرسٹ کے بانی شہزاد رائے بھی آواز اٹھاتے ہوئے میدان میں آگئے ہیں۔
ایکس پر اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ جسمانی سزا کو جواز فراہم کرنے والا قانون سیکشن 89 اب ماضی کا حصہ ہے۔ اس لیے بچوں پر تشدد کرنے والے اساتذہ کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔
شہزاد رائے نے والدین اور طلبا سے اپیل کی کہ وہ ظلم کے خلاف خاموشی توڑیں اور ایسے واقعات رپورٹ کریں تاکہ فرحان جیسے معصوم بچوں کو بچایا جاسکے۔
Farhan lost his life, but we can save many children.
سماجی کارکن، گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے بانی شہزاد رائے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ سوات کے علاقی خوازہ خیلہ میں 14 سالہ فرحان نامی بچہ مدرسے میں پڑھتا تھا۔ مدرسے کے استاد نے بچے پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرحان کے قاتل نہیں بچیں گے۔ میرا ویڈیو بنانے کا مقصد فرحان جیسے بچوں کو ان جیسے واقعات سے بچانا ہے۔
شہزاد رائے نے کہا کہ ملک میں ایک قانون سیکشن 89 تھا۔ اس قانون کے مطابق استاد بچوں کو بھلائی میں مار سکتا تھا۔ زندگی ٹرسٹ نے اس قانون کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین سے متصادم قراد دیا۔ انہوں نے کہا کہ برسوں سے یہ ہوتا رہا ہے کہ استاد اس قانون کا غلط استعمال کرتے تھے۔ جب تشدد پر ان کو پکڑا جائے تو کہتے ہیں بچوں کی بھلائی کے لیے مارا ہے۔
ملک میں سیکشن 89 کا قانون ختم ہوچکا ہے۔ اب کوئی استاد طالب علم پر تشدد نہیں کرسکتا۔ شہزاد رائے نے کہا کہ اگر کوئی طالب علم چاہے مدرسے کا ہو یا اسکول کا، اگر استاد بچے پر تشدد کرتا ہے تو یہ قانوناً جرم ہے۔ میں بچوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر ان کا استاد تشدد کرتا ہے تو اپنے والدین کو بتائیں اور والدین ان واقعات کی رپورٹ ضرور کریں۔
شہزاد رائے نے کہا کہ ان واقعات کی روک تھام کےلیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے ملزمان کی گرفتاری پر خیبرپختونخوا کے آئی جی پولیس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان ریلویز میں بوگس دستاویزات پر کواٹرز کی الاٹمنٹ میں 3 ریٹائرڈ افسران بھی ملوث نکلے
پاکستان ریلویز میں بوگس دستاویزات پر کواٹرز کی الاٹمنٹ کرانے والوں میں تین ریٹائرڈ افسران بھی ملوث نکلے۔
بوگس کوارٹر ز کی الاٹمنٹ میں ملوث اہم ملازم عادل شہزاد نے اپنا تحریری بیان دے دیا
عادل شہزاد کے تحریری بیان میں بیس کے قریب پاکستان ریلویز کے کلر ک سے لیکر سول انجینئرز اور ایکسیئن تک ملوث نکلے۔
ایکسپریس نیوز کو پاکستان ریلویز میں رہائشی کوارٹر کی الاٹمنٹ کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے ملازم عادل شہزاد کا ریلوے انتظامیہ کو دیے جانے والے بیان کی دستاویزات مل گئیں۔
عادل شہزاد نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے مجھے بھی جو کھوٹی الاٹ کی گئی وہ بھی جعلی دستاویزات پر دی گئی اور اس سارے کھیل میں اسٹیٹ انسپکٹر ز کلرک فوٹوکاپیر سے لیکر ایکسئین تک ملوث ہیں۔
اس فراڈ میں تین ریٹائرڈ ایکسئین خالد حسن قاضی بدر اور فیصل عمران بھی شامل ہیں جو اپنے ہیڈ کلرک فورمین سے مل کر بیک ڈیٹ یعنی پرانی تاریخوں میں دستاویزات بنوا کر آ س کی آڑ میں کواٹر ز اور پرکشش لوکیشن پر موجود گھروں کی الاٹمنٹ کراتے تاکہ کسی کو شک بھی نہ پڑے اگر پکڑے بھی جائیں تو کہا جائے ہمارے دستخط جعلی ہیں۔
یہ پورا منظم گروہ ہے جس میں وقاص ضیغم حافظ عمیر حسیب ریحان قریشی رانا عمران وقاص طارق اسٹیٹ انسپکٹر راشد رشید قاسم زیشان شاہد انیس مبارک علی اویس اور زاہد شامل ہیں۔
عادل شہزاد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جس ملازم سے کوارٹر خالی کرانے جاتے وہ بھی سات لاکھ سے لیکر جتنے میں ڈیل ہو رقم وصول کرتا اور جو کوارٹر یا گھر لیتا وہ بھی پانچ لاکھ سے لیکر دس لاکھ تک رقم ادا کر کے گھر لیتا یہ ساری رقم مختلف حصوں میں وصول کی جاتی جس کا جو حصہ بنتا اس کو ملتا۔
اب سارا ملبہ مجھ پر ڈالا جا رہا ہے مجھے جان کا خطرہ تھا اس لیے روپوش ہوگیا تھا شوگر کا مریض ہوں مجھ پر تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔