Juraat:
2025-09-17@23:34:54 GMT

ہائے چینی ۔۔ ہائے مہنگائی

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

ہائے چینی ۔۔ ہائے مہنگائی

آواز
۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کے 2 بڑے سیاسی خاندانوں صدر آصف علی زرداری اور وزیر ِ اعظم شہبازشریف کی سب سے زیادہ شوگر ملز ہیں، اس کے باوجود ان کی اپنی حکومت کے اعلان کے مطابق عام آدمی کو کنٹرول ریٹ پرچینی خریدنے کیلئے خجل خوار ہورہاہے۔ اس کا صاف صاف مطلب تو یہی لیاجاسکتاہے کہ حکومت اپنی رٹ کھو چکی ہے یا پھر سب مال کمانے کے چکرمیں ہیں۔ اب آڈیٹر جنرل نے انکشاف کرڈالاہے کہ چینی بحران میں شوگر ملز مالکان نے 300 ارب روپے زیادہ کمالیے۔ مناسب یہ تھا کہ یہ کہتے شوگرمافیا نے عوام سے 300 ارب ہتھیا لیے ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میںایف بی آر اور وزارت صنعت کے نمائندوں کے درمیان” تو تو میں میں” نے ماحول کو گرمادیا۔ کمیٹی ارکان نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں سے یہی ڈرامہ جاری ہے، کبھی چینی بر آمد کی جاتی ہے، کبھی درآمد کی جاتی ہے لیکن قیمتوںمیں استحکام ممکن نہ ہوا اوررعوام ، اراکین نے حکومت، شوگر مافیا اور ایڈوائزی بورڈ پرسخت تنقید کی اور سیکرٹری فوڈ کی جانب سے پیش کردہ قیمتوں کے اعداد و شمار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، دوران اجلاس مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، چیئرمین جنید اکبر نے کہا شوگر ملز مالکان کو برآمد کیلئے سبسڈی کیوں دی گئی؟ عامر ڈوگر نے کہا سندھ کی ساری شوگر ملز آصف زرداری کی ہیں، شازیہ مری نے کہا الزامات ثابت کریں یا واپس لیں، عامر ڈوگر کے ریمارکس پرافنان اللہ نے طنز کرتے ہوئے کہایہ بھی بتائیں کہ آپکی پارٹی کس کے پیسے سے بنی؟ عمر ایوب سمیت کچھ ارکان نے کہا کہ ان کے علاقوں میں چینی 200 روپے سے زائد میں فروخت ہو رہی ہے۔سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا مارکیٹ سے چینی ختم ہے جو مل رہی ہے وہ بہت مہنگی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے اس موقع پہ کہا42 بندے اور اور 80 شوگر ملیں ہیں، لائسنس کیوں نہیں دیتے لوگوں کو، ہر سال یہی ڈرامہ ہے کبھی ایکسپورٹ ہوتی ہے کبھی امپورٹ ہوتی ہے، عمر ایوب نے کہا کہ قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، چینی ناپید ہو گئی ہے۔ معین پیرزادہ نے کہا کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، فساد کی جڑ شوگر ایڈوائزری بورڈ ہے، شوگر مافیا حکومتوں کا حصہ ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر باخبرذرائع کا یہ کہناہے کہ جولائی 2024 سے جون 2025 کے درمیان چینی برآمد کرنے والی شوگر ملز کی فہرست سامنے آگئی۔ دستاویز کے مطابق مجموعی طور پر 67 شوگر ملز نے 40 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی برآمد کی، جس میں سب سے زیادہ 7 کروڑ 30 لاکھ 90 ہزار کلو چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے برآمد کی۔ تاندلیانوالا شوگر ملز نے 4 کروڑ 14 لاکھ 12ہزار 200 کلو اور حمزہ شوگر ملز نے 3کروڑ 24 لاکھ 86 ہزار کلو چینی برآمد کی۔ تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمٹیڈ نے دو کروڑ 91 لاکھ 7ہزار کلو اور المعیز انڈسٹریز نے 2کروڑ 94 لاکھ 52ہزار کلو چینی برآمد کی۔ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے سب سے زیادہ 73ہزار90 میٹرک ٹن چینی 11 ارب 10 کروڑ روپے میں برآمد کی۔ تندلیانوالہ شوگر ملز نے 41ہزار412 میٹرک ٹن چینی 5 ارب 98 کروڑ روپے میں برآمد کی اور حمزہ شوگر ملز نے 32 ہزار 486 میٹرک ٹن چینی 5 ارب 3 کروڑ روپے میں برآمد کی۔ تھل انڈسٹریز کارپوریشن نے 29ہزار107 میٹرک ٹن چینی 4ہزار 553 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔ المعیز انڈسٹریز نے 29ہزار453 میٹرک ٹن چینی 4ہزار322 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔ جے کے شوگر ملز نے 29ہزار969 میٹرک ٹن چینی 4ہزار89 ملین روپے، مدینہ شوگر ملز نے 18ہزار869 میٹرک ٹن چینی 2ہزار787 ملین روپے، فتیما شوگر ملز نے 17ہزار365 میٹرک ٹن چینی 2ہزار684 ملین روپے، ڈھیرکی شوگر ملز نے 16ہزار533 میٹرک ٹن چینی 2ہزار447 ملین روپے اور رمضان شوگر ملز نے 16ہزار116 میٹرک ٹن چینی 2ہزار413 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔ انڈس شوگر ملز نے 14ہزار47 میٹرک ٹن چینی 2ہزار103 ملین روپے، اشرف شوگر ملز نے 11ہزار317 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار669 ملین روپے، شکر گنج لمیٹڈ نے 7ہزار867 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار128 ملین روپے، یونی کول لمیٹڈ نے 6ہزار857 میٹرک ٹن چینی ایک ہزار19 ملین روپے اور حبیب شوگر ملز نے 6ہزار253 میٹرک ٹن چینی 960 ملین روپے مالیت میں برآمد کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادوں کی ملکیت رمضان شوگر ملز نے 2ارب 41 کروڑ روپے کی چینی برآمد کرکے اربوں کمائے جبکہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز جے ڈی ڈبلیو اور جے کے شوگر ملز نے 15 ارب روپے سے زائد کی چینی برآمد کی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں خالصتاً کاروباری گروپوں کے علاوہ سیاسی افراد شوگر ملز کے مالک یا ان میں حصے دار ہیں جو چینی کی تجارت اور قیمتوں سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر ان کے اثرانداز ہوتے رہتے ہیں جو انتہائی خوفناک ہے یعنی حکومت چینی سے متعلق پالیسیاں عوامی مفادمیں نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنا تی ہے۔
ویسے تو ملک میں سب سے بڑا شوگر پروڈیوسر جے کے ٹی (جہانگیر ترین) گروپ ہے، جس کا مارکیٹ شیئر تقریباً 15 فیصد ہے۔ اس کے بعد اومنی گروپ ہے، ملکی سطح پر مجموعی پیداوار میں اس گروپ کا حصہ 12 فیصد ہے۔ وزیر صنعت ہارون اخترخان ایک بڑی شوگر مل کے مالک ہیں جبکہ ان دنوں شہباز شریف کی سابق حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اِس وقت لنکا ڈھاتے ہوئے حکومت کی چینی پالیسی پر شدید تنقید کر رہے ہیں جس میں اس بحران کا ذمہ دار حکومت کوقراردے رہے ہیں ۔ویسے حالات وواقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو حکومت صرف چینی ہی نہیں ہر بحران کی ذمہ دار ہوتی ہے جس سے صرف نظرنہیں کی جاسکتی۔ جب ملک کے 2 بڑے سیاسی خاندانوں صدر آصف علی زرداری اور وزیر ِ اعظم شہبازشریف کی سب سے زیادہ شوگر ملزہیںتواس لحاظ سے ضیاء الحق کی حکومت ہویاپھر مشرف کا دور ، پیپلزپارٹی اقتدار میں واپس آئے یا پھر پانامہ فیم نوازشریف کا زمانہ ہو یا نئے پاکستان کا دور دورہ ہو یا آج، فیلڈ مارشل کا دور آ گیا ہے ہماری بھی کیا قسمت ہے ۔ہم ہمیشہ چینی کے بحران اور مہنگائی کا سیاپا کرتے رہتے تھے اور پھر کیسی ستم ظریقی ہے کہ پاکستان جہاں 90 شوگر ملز ہیں اس کو متحدہ عرب امارات سے چینی امپورٹ کرنا پڑے جہاں فقط 2 شوگر ملز ہیں ۔چینی ہرگھرکی ضرورت کے علاوہ ایک ضروری آئٹم بن چکی ہے۔ تجارتی لحاظ سے بھی اس کی ضرورت مسلمہ ہے۔ یہ واحد انڈسٹری ہے جس کو کسی کاروباری مقابلے کا سامنا نہیں کیونکہ اس کی کھپت پیداوار سے زیادہ ہے ۔اس شعبے میں جب تک حکومتی مداخلت ختم نہیں ہوتی، یہ ا سکینڈل آتے رہیں گے اور شوگرمافیا ہرسال عوام سے 300 ارب ہتھیاتا رہے گا داد نہ فریاد عوام بدحال جائیں تو جائیں کہاں؟
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ملین روپے مالیت میں برآمد کی میٹرک ٹن چینی چینی برآمد کی شوگر ملز نے سب سے زیادہ کروڑ روپے کی چینی کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)چیئرمین اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ اور سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ شرح سود کو برقرار رکھنا پاکستان کے ٹیکس گزاروں پر خطے کا مہنگا ترین بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، پاکستان میں شرح سود خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے،شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے۔

(جاری ہے)

اپنے بیا ن میں انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا ایماندار ٹیکس گزاروں مزید بوجھ ڈالنا ہے، مالیاتی خسارہ شرح سود کو مہنگائی کے مطابق کم کر کے قابو کیا جا سکتا ہے۔پرائیویٹ کاروبار اس صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب اسے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن مانیٹری پالیسی کی ضرورت ہے، پائیدار معاشی ترقی کے لیے یکساں مواقع ہونا ضروری ہیں۔پاکستان میں شرح سود خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ، پاکستان میں مہنگائی 3فیصد اور شرح سود 11فیصد ہے، بھارت میں مہنگائی 1.5فیصد اور شرح سود 5.5فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں مہنگائی 8.3فیصد اور شرح سود 10 فیصد ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی کے بحران پر قابو پانے کےلئے سرکاری قیمت 177 فی کلو مقرر
  • شوگر کے مریضوں کے لیے مورنگا (سہانجنا) کے 6 حیرت انگیز فوائد
  • وزیر آباد: نالہ ایک سے سیلاب  میں آنے والا مارٹر گولہ برآمد
  • کراچی، پوش علاقے کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی سے مرد و خاتون کی لاشیں برآمد
  • فیفا کا بڑا اعلان: 2026 ورلڈ کپ میں کلبز کو 99 ارب روپے ملیں گے
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • پھل کھائیں یا جوس پئیں؟ ماہرین نے فائدے اور نقصانات بتا دیے
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی