Express News:
2025-08-02@06:46:50 GMT

قاتل مسیحائوں کی قتل گاہ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

سب سے پہلے تو مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ بلکہ حیران اورشاداں و فرحاں ہوں کہ تاریخ میں پہلی بار منتخب عوامی شہنشاہوں کی کسی مجلس میں ’’عوام کالانعام‘‘ کی بات ہوئی ہے ، ورنہ یہ شہنشاہ تو عوام کو استعمال کرنے کے بعد ایسے بھول جاتے ہیں جیسے ایسی کوئی مخلوق اس دنیا میں ہے ہی نہیں ۔

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں

 بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

 دراصل وہ فنڈوں ،نوکریوں ،استحقاقوں کی بندر بانٹ میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ عوام نام کے ان کالانعاموں کو پانچ سال کے لیے مکمل طورپر بھول جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بات بھی ایک ہندو سینیٹر ڈاکٹر دنیش کمار نے کی ہے، اس نے سینیٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس پر بولتے ہوئے اس قتل عام کا ذکر کیا جو اس وقت اس مثالی فلاحی ملک میں ’’مسیحاؤں‘‘ کے ہاتھوں گلی گلی کوچے کوچے شہرشہر اورگاؤں میں جاری ہے۔ملک میں ڈاکٹروں کے بہیمانہ طرزعمل بے پناہ لمبے چوڑے نسخوں بلاضرورت ٹیسٹوں اورحاملہ خواتین کے بلاوجہ آپریشنوںکے معاملے پرہندو سینیٹرڈاکٹر دنیش کمار نے کی دہائی۔

پاکستان میں ڈاکٹرقصائی بنے ہوئے ہیں، اپنے کمیشن کے لیے بلاضرورت ادویات اورٹیسٹ لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر دنیش کمار نے توجہ دلاؤنوٹس پر سینیٹ کے اجلاس میں کہا کہ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ ڈاکٹر تین سے زیادہ دوائیاں نہیں لکھ سکتا لیکن یہاں صرف اپنے کمیشن کے لیے ڈاکٹر لمبے چوڑے نسخے لکھتے ہیں۔

بات کو حسب معمول وزیر انصاف وقانون نے چٹکی میں اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے ان کی شکایت وہاں جاکر کریں۔بات سرکاری اورعوامی منتخب نمایندوں کی دنیا میں تو آئی گئی ہوگئی لیکن درحقیقت یہ دونوں مسئلے بہت زیادہ گھمبیر اورناقابل برداشت ہوچکے ہیں،زیادہ لمبے چوڑے نسخے لکھنا اور حاملہ خواتین کے بلاوجہ پیٹ پھاڑنا ۔ جہاں تک نسخہ جات میں تین دواؤں کا تعلق ہے، یہ ایلوپیتھک یعنی مروجہ طرزعمل علاج کے عین مطابق ہیں کیوں کہ اس طرزعمل کی بنیاد تین اقسام کی دواؤں پر قائم ہیں، یہ جو بڑے اسٹوروں کی بڑی بڑی الماریوں میں بے حد وحساب دوائیں پڑی ہوتی ہیں یہ سب کی سب صرف ان زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ، نمبر ایک، اینٹی بائیوٹک۔نمبردو‘آرام پہنچانے والی اورنمبرتین۔ ٹانکس۔

یہ تین ہی دوائیاں ہیں جومختلف ناموں ، شکلوں اور پیکنگ میں چل رہی ہیں ،کمپنیاں ان کو مختلف فیشن ایبل شکلوں میں بناتی اورسپلائی کرتی ہیں اورڈاکٹر لوگ ان کمپینوں سے تعلقات کی بنا پر چلاتے ہیں ، چنانچہ اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا ظالمانہ وحشیانہ اورقاتلانہ کاروبار یہی علاج معالجہ ہے ۔

ڈاکٹردنیش کمار نے قصائی خانے کا لفظ استعمال کیا ہے جو بہت کم ہے ، قصائی بے چارہ تو ان مسیحاؤں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، قصائی کا تو پیشہ یہی ہے لیکن ان کا پیشہ مسیحائی ہے اورکرتے ہیں چنگیزوہلاکو کا کام۔تین دواؤں کے بجائے آٹھ دس مہنگی دوائیں تو عام سی بات ہے لیکن اس سے پہلے ٹیسٹوں، لیبارٹریوں اورایکسریز وغیرہ کی مار ماری جاتی ہے وہ ایک الگ داستان الم ہے بلکہ اب تو دوائیں لکھنے کی بھی تکلیف نہیں کی جاتی ،مریض جب کلینک کے چھوٹے ڈاکٹروں، لیبارٹریوں اورٹیسٹوں سے ہلکان ہوکر بڑے قصائی کے پاس پہنچتا ہے تو اس سے پرچہ لے کر ان مہروں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے جو اس کی آدھی میز پر پڑی ہوتی ہیں۔

 ان مہروں پرجو دواسازکمپنیاں فراہم کرتی ہیں ، دوا اورطریقہ استعمال لکھا ہوتاہے ، ڈاکٹر ان میں سے مہریں اٹھا اٹھا کر پرچے پر ثبت کرتا جاتا ہے ، پرچے کے دونوں طرف آٹھ دس دواؤں کی مہریں لگانے کے بعد وہ دستخط کرکے لکھ دیتا ہے کہ ہفتہ یا پندرہ دن بعد پھر آنا ۔ اورپرچہ مریض کو پکڑا دیتا ہے جو وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اٹھاتا ہے اورسامنے میڈیکل اسٹور پر چلاجاتا ہے جہاں ڈاکٹر کا بیٹا یابھائی یا ملازم اسے دواؤں سے لاد دیتا ہے ۔

حالیہ اعدادوشمار کا تو پتہ نہیں اورویسے بھی اب جھوٹ اتناپھیل چکا ہے کہ اعداد وشمار کا کوئی بھروسہ نہیں رہا ہے ۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ساڑھے سات سو دوائیں رجسٹرڈ تھیں ، بنگلہ دیش میں نوسو۔ اور پاکستان میں ذرا دل تھام لیجیے اوراگر قریب میں کوئی سہارا ہوتو اسے لے کر سنئیے کہ پاکستان میں ’’اٹھائیس ہزار‘‘ دوائیں رجسٹرڈ تھیں اور ہر جہت میں جو ’’ترقی‘‘ ہوئی ہے۔

اس کا اندازہ کرکے اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو ان پرانے اعداد وشمار کو چار سے ضرب دے لیجیے اوریہ ساری دوائیاں بدنصیب کالانعاموں کو کھلائی جارہی ہیں بلکہ میراخیال ہے کہ لوگ اگر اس عظیم ظلم واستبداد سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو مستند اوربڑے بڑے ماہرین کے بجائے عطائیوں اور دم چف کی طرف واپس جاتے ہیں ۔ وہ کم ازکم یا تو آر کردیں یا پار۔ یوں آگ کے الاؤ کے اوپر لٹکنے سے اوراذیت ناک موت سے تو بچ جائیں گے۔ دنیابھر میں جہاں جہاں جس جس قسم کے مظالم ہورہے ہیں ان میں سب سے زیادہ مظالم اورپھر خاص طورپر پاکستان میں علاج معالجہ کے نام پر ہورہے ہیں ۔

رہے پوچھنے والے تو ان کو بیٹھے بٹھائے اپناحصہ مل جاتا ہے ۔

سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش

کہ دورشاہ شجاع است می دلیربنوش

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں جاتے ہیں

پڑھیں:

  وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قاتل کی شناخت ہوگئی

  کراچی: سپریم کورٹ کے سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل کی تحقیقات اہم پیشرفت ،قاتل کی شناخت ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق خواجہ شمس الاسلام پر فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ڈی ایچ اے فیز 6 ایک تاجرکی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مسجدسے باہرنکل رہے تھے،فائرنگ سے شمس الاسلام اوران کا بیٹازخمی ہواجنہیں فوری طور پر کلفٹن کے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وکیل شمس الاسلام زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے دو خول برآمد ہوئے ہیں، جنہیں فرانزک تجزیے کے لیے بھیجا جا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات مختلف زاویوں سے کی جا رہی ہیں اور قاتلوں تک جلد رسائی حاصل کر لی جائے گی۔
واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے ایس ایس پی ساؤتھ سے ابتدائی کارروائی کی تفصیلات فوری طلب کی ۔
ادھرپولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق شمس الاسلام پرفائرنگ کرنے والے شخص کی شناخت ہوگئی ہے ،جو ان کے سابق گن مین کابیٹاہے۔
ایس ایس پی ساتھ اسدرضاکے مطابق ملزم بھی جنازے میں شریک ہوا،جس نے مسجدسے نکلتے ہوئے شمس الاسلام پر فائرنگ کردی،ملزم نے شلوارقمیض پہن رکھی تھی جب کہ شناخت چھپانے کے لئے ماسک بھی پہن رکھاتھا۔ملزم نے فائرنگ کے بعدبلندآوازمیں کہاکہ اس نےاپنے باپ اور بھائی کابدلہ لے لیاہے۔
پولیس کے مطابق وکیل شمس الاسلام پر ماضی میں بھی حملے ہوچکے ہیں،چندروزقبل بھی ملزم نے حملہ کیاتھا۔ملزم کے والدکا2021میں قتل ہواتھا۔
ملزم کی گرفتاری کے لئے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ خواجہ شمس الاسلام کو شہر کا مہنگا ترین وکیل تصور کیا جاتا تھا۔ انہیں قیمتی گاڑیوں کا شوق تھا اور ان کی شخصیت کو کئی حلقے متنازع قرار دیتے تھے۔  ان کے خلاف مختلف مقدمات درج ہوئے، جن میں ایک کیس تاحال زیرِ التوا ہے۔ انہیں ماضی میں بعض جھگڑوں کے باعث حراست میں بھی رہنا پڑا۔ ادھرواقعے نے وکلا برادری میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، اور سیکیورٹی اقدامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  •   وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قاتل کی شناخت ہوگئی
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • پی ٹی آئی راہنماؤں کو سزائیں، آج جمہوریت کے لیے افسوسناک دن ہے، بیرسٹر گوہر
  • کچھ لوگ سسٹم لپیٹنا چاہتے ہیں ، سزائوں کا فیصلہ چیلنج کریں گے ، بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں؛ ایوان کا بائیکاٹ یا تحریک، فیصلہ جلد ہوگا، بیرسٹر گوہر
  • ہم وفاق کے اتحادی ہیں لیکن کراچی والوں پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے، خواجہ اظہار الحسن
  • ہم وفاق کے اتحادی ہیں لیکن کراچی والوں پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے: خواجہ اظہار
  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!
  • نریندر مودی نے کہا تھا 370 ہٹنے پر دہشتگردی ختم ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، عمر عبداللہ