Express News:
2025-11-03@06:10:26 GMT

سات سچائیاں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی زبان اس کے منہ میں جاتی تھی اور پھر باہر آ جاتی تھی اور وہ ہوا کی دھن پر رقص کرتا ہوا کبھی پیچھے جاتا تھا اور کبھی آگے جھکتا تھا‘ میری ریڑھ کی ہڈی میں برف جم رہی تھی‘ ٹانگیں بے جان ہو رہی تھیں‘ دماغ میں آندھیاںچل رہی تھیں اور سانس سینے میں الجھتا‘ رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا‘ مجھے لگا میں چند لمحوں میں گر جائوں گا اور کوبرا رینگ کر میرے سینے پر بیٹھ جائے گا‘ میں نے خوف کے عالم میں ساتھی کی طرف دیکھا اور میں حیران رہ گیا‘ وہ کوبرے کو معصوم بچے کی طرح دیکھ رہا تھا۔

 اس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے حیرت اور خوشی تھی‘ مجھے محسوس ہوا وہ چند لمحوں میں تالیاں بجانا شروع کر دے گا‘ میں نے کنکھیوں سے کوبرے کی طرف دیکھا‘ کوبرا بدستور ہوا میں جھوم رہا تھا‘ میں نے اس کے بعد دوبارہ ساتھی کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرا رہا تھا‘ اس کے چہرے پر جوش تھا‘ خوشی تھی اور حیرت تھی‘ مجھے اس کا رویہ غیر معقول محسوس ہوا‘ مجھے لگا وہ خوف کے اس فیزمیں داخل ہو گیا ہے جہاں انسان خوشی سے ناچنے لگتا ہے‘ مجھے محسوس ہوا میرا ساتھی ڈر کی وجہ سے پاگل ہو چکا ہے‘ میں خود بھی پاگل پن کی طرف بڑھ رہا تھا‘ مجھے لگا میں بھی چند لمحوں میں اس کی طرح ہنسنے لگوں گا لیکن پھر ایک عجیب معجزہ ہوا‘ کوبرا زور سے جھوما اور پھر تیزی سے نیچے جھکنے لگا‘ وہ اس وقت ہوا بھرے کھلونے کی طرح محسوس ہورہا تھا۔

آپ نے اکثر ہوا بھرے کھلونوں کو دیکھا ہوگا‘ آپ جوں ہی ان کی نوزل ڈھیلی کرتے ہیں‘ یہ چند سیکنڈ میں پلاسٹک کا رومال بن کر زمین پر آگرتے ہیں‘ کوبرا بھی چند لمحوں میں پراندا سا بن کر زمین پر آگیا‘ وہ زمین پر لیٹا‘ آڑھا ترچھا ہوا اور ریت پر لوٹنیاں لیتا ہوا جھاڑیوں میں گم ہو گیا‘ اب وہاں وسیع صحرا تھا‘ دھوپ تھی‘ ٹنڈ منڈ جھاڑیاں تھیں‘ ریت پر کوبرے کی آڑھی ترچھی لکیریں تھیں اور میرے جسم پر پسینے کی آبشاریں تھیں‘ میں نے لمبا سانس لیا اور غصے سے اپنے ساتھی کی طرف دیکھنے لگا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ بھائی میں معافی چاہتا ہوں‘ میں نے زندگی میں پہلی بار کوبرا دیکھا چناںچہ میں ایکسائیٹڈ ہو گیا تھا‘‘

میں نے افسوس اور غصے سے سر ہلایا اور آگے چل پڑا‘ دراوڑ کا قلعہ ہمارے سامنے تھا۔
یہ 1998 کا نومبر تھا‘ میرے دوست نے لندن سے ایک صاحب کو میرے پاس بھجوا دیا‘ یہ صاحب تین نسلوں سے برطانیہ کے شہری تھے‘ دادا 1940میں کسی اسکاٹش میجر کا اردلی تھا‘ میجر اسے اپنے ساتھ گلاسکو لے گیا‘ والد نے گلاسکو میں پرورش پائی‘ 1960کی دہائی میں لندن شفٹ ہوا‘ بیٹا جمی 1971 میں ایسٹ لندن میں پیدا ہوا‘ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی اور لندن کی کسی کمپنی میں ملازم ہو گیا‘ وہ لوگ مزے کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر اچانک جمی کا دماغ خراب ہو گیا‘ جمی نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور لاہور آگیا‘ وہ پورا پاکستان دیکھنا چاہتا تھا۔

پاکستان کے بعد وہ بھارت‘ چین اور سینٹرل ایشیا جانا چاہتا تھا‘ میرے دوست نے مجھے فون کیا اور جمی سے متعارف کرا دیا‘ جمی پورا انگریز تھا‘ اس کا لہجہ‘ اس کا محاورا اور اس کا رویہ ہر چیز‘ ہر عادت برطانوی تھی‘ وہ چولستان دیکھنا چاہتا تھا‘ اس کی خواہش تھی‘ میں اس کے ساتھ جائوں‘ میں ان دنوں صرف کالم لکھتا تھا‘ میرے دن رات فارغ ہوتے تھے لہٰذا میں جمی کے ساتھ چل پڑا‘ وہ دل چسپ کمپنی تھا‘ پڑھا لکھا‘ مہذب‘ دانش ور اور جہاں دیدہ‘ وہ دنیا کے ہر معاملے میں اپنی آزاد اور ٹھوس رائے رکھتا تھا‘ میں اس کے ساتھ آٹھ دن صحرا میں گھومتا پھرتا رہا‘ ہم دریائے ہاکڑا کی گم شدہ تہذیب تلاش کر رہے تھے۔

یہ دریا ہزاروں سال پہلے زمین میں گم ہو گیا تھا‘ ہندوئوں کے پران اس گم شدہ دریا کو سرسوتی اور ہاکڑا کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ ہاکڑاجاتے جاتے زمانہ قدیم کی سیکڑوں بستیاں بھی ساتھ لے گیا ‘ یہ بستیاں ریت میں جذب ہو گئیں لیکن ان کے نشان آج بھی پاکستان میں چولستان اور بھارت میں راجستھان میں موجود ہیں‘ جمی ریت میں دفن ماضی کی ان قدیم بستیوں کو کریدنا چاہتا تھا‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا‘ ہم چلتے چلتے دراوڑ کے قریب پہنچے تو اچانک کوبرا نکلا اور پھن پھلا کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا‘ وہ کم از کم پانچ فٹ اونچا تھا‘ میں اپنے چہرے پر اس کی پھنکار کی گرمی محسوس کر رہا تھا‘ میں خوف کی انتہا کو چھو رہا تھا جب کہ جمی بچوں جیسی حیرت سے کوبرے کو دیکھ رہا تھا‘ یہ غیر سنجیدہ رویہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا‘ مجھے غصہ آ گیا اور میں غصے میں تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔

ہم دراوڑ پہنچ گئے‘ قلعے کے گرد چھوٹا سا گائوں تھا‘ گائوں میں پرانا کنواں تھا‘ کنوئیں کی دیواروں پر صدیوں کی سبز کائی جمی تھی اور پانی سے سرسوتی کی بو ساند آ رہی تھی‘ ہم دونوں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے‘ میں غصے سے خاموش تھا اور وہ خجالت سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا‘ ہمارے درمیان وقت بہتا رہا‘ شام صحرا پر اتر رہی تھی‘ افق لال ہو رہا تھا‘ قلعے کی چمگادڑیں چیخ رہی تھیں اور پرندوں کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا‘ جمی نے لمبی سانس لی‘ اس کی سانس میں شرمندگی کا ہوکا تھا‘ اس نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور آہستہ آہستہ بولا’’ یہ سب مولانا روم کا کیا دھرا ہے‘ میں نہ مثنوی پڑھتا اور نہ آج آپ کا دل دکھتا‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ ذرا سا جھکا‘ کنوئیں کی گہرائی میں دیکھا۔

کنوئیں میں اوووو کی آواز لگائی اور چند لمحوں تک اوووو کی بازگشت سنتا رہا‘ وہ پھر سیدھا ہو کربولا ’’میری زندگی مزے سے گزر رہی تھی‘ نوکری تھی‘ گھر اور گاڑی تھی‘ دوست بھی تھے اور گرل فرینڈز بھی تھیں لیکن پھر میرے ایک انگریز دوست نے مجھے مولانا روم کی مثنوی گفٹ کر دی‘ یہ مثنوی کا انگریزی ترجمہ تھا‘ میں نے کتاب پڑھنا شروع کر دی‘ میں پڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ میں اس فقرے تک پہنچ گیا جس نے مجھے ساڑھے چھ ہزار کلو میٹر دور کنوئیں کی اس منڈیر پر پہنچا دیا اور آپ منہ لٹکا کر‘ ناراض ہو کر میرے ساتھ بیٹھے ہیں‘‘

وہ خاموش ہوا‘ کنوئیں کی طرف جھکا اور اوووو کی ایک اور آواز لگائی‘ میری ناراضی کی برف پگھلنے لگی‘ میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا‘ جمی بولا‘ میں نے کتاب میں پڑھا ’’موت کا ذائقہ تو ہر نفس چکھتا ہے لیکن زندگی کا ذائقہ کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے‘‘ یہ فقرہ میرے اندر ایٹم بم کی طرح پھٹا‘ میں نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور اپنے آپ سے کہا ’’جمی تو کتنا بے وقوف ہے‘ موت تو گلی کے کتے کو بھی آ جاتی ہے تم موت سے گھبرا رہے ہو‘۔

اصل زندگی تو زندگی کا ذائقہ ہے‘ تم اگر اس سے محروم رہ کر دنیا سے رخصت ہو گئے تو تم سے بڑا چغد کون ہوگا‘ میں نے اپنا بینک اکائونٹ چیک کیا‘ میرے اکائونٹ میں 18 ہزار پائونڈز تھے‘ میں نے اگلے دن نوکری سے استعفیٰ دیا اور زندگی کے ذائقے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے بے چین ہو کر پوچھا ’’کیا تم نے زندگی کا ذائقہ پا لیا‘‘ وہ مسکرایا اور آہستہ آواز میں بولا ’’ہاں تھوڑا تھوڑا پا رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’اب تک کیا پایا؟‘‘

جمی نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’زندگی سات بڑی سچائیوں کا شربت ہے‘ پہلی سچائی نعمت ہے‘ آپ جب تک زندگی کو نعمت نہیں سمجھتے آپ زندگی کے ذائقے کو نہیں سمجھ سکتے‘ دوسری سچائی محبت ہے‘ آپ جب تک دوسروں سے مذہب‘ نسل‘ زبان اور طبقے سے بالاتر ہو کر محبت نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے کو محسوس نہیں کر سکتے‘ تیسری سچائی درگزر ہے‘ آپ جب تک دل بڑا نہیں کرتے آپ دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرنا نہیں سیکھتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے‘ چوتھی سچائی بے پروائی ہے‘ آپ جب تک موت‘ رزق اور اسٹیٹس سے بے پروا نہیں ہوتے زندگی کا ذائقہ اس وقت تک آپ کے قریب نہیں آتا‘ پانچویں سچائی علم ہے‘ آپ جب تک علم کی تلاش میں اپنی ایڑھیاں زخمی نہیں کر لیتے آپ کو زندگی کا ذائقہ نہیں مل سکتا‘

چھٹی سچائی سفر ہے ‘آپ جب تک سفر نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے سے محروم رہتے ہیں اور ساتویں اور آخری سچائی خدا ہے‘ آپ جب تک خدا پر پختہ ایمان نہیں لاتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ’’ یہ سچائیاں آپس میں ملتی ہیں تو زندگی کا شربت بنتا ہے اور آپ جب تک یہ شربت نہیں پیتے زندگی کا ذائقہ آپ کی سمجھ میں نہیں آتا‘‘ وہ تیسری بار کنوئیں کی منڈیر پر جھکا‘ اووووو کی صدا لگائی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ قلعہ دراوڑ ہمارے سامنے تھا اور قلعے کی دیوار پر شام اتر چکی تھی۔
نوٹ:ہمارا گروپ 20اگست کو چترال جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
+92 301 3334562
+92 331 3334562
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی کا ذائقہ زندگی کے ذائقے کی طرف دیکھا چاہتا تھا کنوئیں کی آپ زندگی محسوس ہو آپ جب تک کے ساتھ نہیں کر رہا تھا رہی تھی تھی اور کی طرح ہو گیا

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • سکھر میں صفائی کا فقدان، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، انتظامیہ غائب
  • حفیظ جمال نے زندگی محنت کشوں کے نام کر دی،حیدر خوجہ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • ارشد وارثی کو زندگی کے کونسے فیصلے پر بےحد پچھتاوا ہے؟
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری