شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
ایران کے صدر پزشکیان نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”نیو سلک روڈ منصوبے کو پاکستان کے راستے ملایا جا سکتا ہے“۔ ایران کو پاکستان کے ذریعے شاہراہ ریشم سے جوڑنا کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ نیو سلک روڈ یا چین کے Belt and Road initiative (BRI) کے عالمی منصوبے کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ایران کا نام اس منصوبے کے سٹریٹیجک فوائد سمیٹنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی تک نہیں دیکھا گیا۔
اب پاکستان اور ایران کے جنوب مشرقی کوریڈور کے ذریعے اس نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے امکانات کے بارے میں ایرانی صدر کے نئے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نیا راستہ ماضی کی ناکامیوں کو کسی کامیابی میں بدل سکتا ہے ؟ نیو سلک روڈ کا منصوبہ چین کی طرف سے سیکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔
یہ منصوبہ مشرقی ایشیا کو مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ سے زمینی اور سمندری راستوں سے ملاتا ہے۔ اس منصوبے میں چھے اہم کوریڈورز ہیں جن میں چائنا سنٹرل ایشیا یورپ کوریڈور، چائنا روس کوریڈور اور سب سے اہم چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) شامل ہے جو چین کے صوبے سنکیانگ سے شروع ہوتا ہے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر ختم ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیائی سیاسی محل وقوع کے پیش نظر اسلامی جمہوری ایران ، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ثالثی ربط ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی ترقی کے پیش نظر کچھ ماہرین اس راستے کو شاہراہ ریشم میں ایران کے داخلے کے ممکنہ کنکشن پوائنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی ”تسنیم“ کے مطابق ”12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی خصوصی مدد نے ایرانی حکام کو اس جنوب مشرقی پڑوسی (پاکستان) کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش کو بڑھایا ہے“۔
صدر پزشکیان کا حالیہ بیان، جس کے مطابق ”ایران کو پاکستان کے راستے نیو سلک روڈ پراجیکٹ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔“ اس کنکشن کو آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ سطح کی حکومتی حمایت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تسنیم کے مطابق شمال مشرقی راستوں کے برعکس، جنوب مشرقی راہداری کے فوائد زیادہ ہیں جیسے کھلے پانیوں سے قربت، گوادر پورٹ تک رسائی اور زمین اور سمندر کے ذریعے چین کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے کا موقع وغیرہ۔
پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ البتہ اس راستے کی کامیابی کا انحصار جغرافیائی سیاسی تقاضوں کے صحیح ادراک، علاقائی اقدامات سے ہم آہنگی اور ایران کے مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی رفتار پر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کو شاہراہ ریشم سے پاکستان کے راستے اور ایران کے کے ساتھ سکتی ہے سکتا ہے
پڑھیں:
اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو نہیں ہٹایا گیا تو ہم بقیہ میچز نہیں کھیلیں گے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایشین کرکٹ کونسل معاملہ سلجھانے کے لیے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پورے ٹورنامنٹ کے بجائے صرف پاکستان کے میچز سے پائی کرافٹ کو ہٹانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میچز میں پائی کرافٹ کی جگہ رچی رچرڈسن کو لگایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل ایشیا کپ میں پاک بھارت میچ کے دوران ٹاس کے وقت اینڈی پائی کرافٹ نے پاکستان کے کپتان سلمان آغا سے کہا تھا کہ ٹاس کے موقع پر شیک ہینڈ نہیں ہو گا، اینڈی پائی کرافٹ نے اس سے قبل پاکستان میڈیا منیجر سے کہا کہ یہ سب ریکارڈ نہیں ہونا چاہیے۔
میچ کے اختتام پر منیجر نوید اکرم چیمہ نے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر اینڈریو رسل سے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس پر اینڈریو رسل نے کہا تھا کہ ہمیں بھارتی بورڈ سے ہدایات ملی ہیں اور پھر کہا یہ اصل میں بھارتی حکومت کی ہدایات ہیں۔
آئی سی سی اور ایم سی سی کو لکھے گئے خط میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایم سی سی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسپرٹ آف دی گیم کو بار بار دہرایا لیکن میچ ریفری نے اپنی ذمے داریوں کو نہیں نبھایا۔
پی سی بی کا کہنا تھا کہ میچ ریفری نے آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی اور اسپرٹ آف دی گیم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
خط میں مزید لکھا گیا تھا کہ میچ ریفری کا کنڈکٹ اسپرٹ آف دی گیم اور ایم سی سی قوانین کے منافی ہے، پی سی بی سمجھتا ہے کہ یہ بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔
میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو تبدیل نہ کرنے پر پاکستان نے ایشیاء کپ میں مزید کوئی میچ نہ کھیلنے کی دھمکی دی تھی۔
ذرائع کے مطابق میچ ریفری تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ایشیاء کپ میں مزید کوئی میچ نہیں کھیلے گا۔
Post Views: 7