Islam Times:
2025-08-03@18:41:15 GMT

شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ

اسلام ٹائمز: پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

ایران کے صدر پزشکیان نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”نیو سلک روڈ منصوبے کو پاکستان کے راستے ملایا جا سکتا ہے“۔ ایران کو پاکستان کے ذریعے شاہراہ ریشم سے جوڑنا کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ نیو سلک روڈ یا چین کے Belt and Road initiative (BRI) کے عالمی منصوبے کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ایران کا نام اس منصوبے کے سٹریٹیجک فوائد سمیٹنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی تک نہیں دیکھا گیا۔

اب پاکستان اور ایران کے جنوب مشرقی کوریڈور کے ذریعے اس نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے امکانات کے بارے میں ایرانی صدر کے نئے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نیا راستہ ماضی کی ناکامیوں کو کسی کامیابی میں بدل سکتا ہے ؟ نیو سلک روڈ کا منصوبہ چین کی طرف سے سیکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔

یہ منصوبہ مشرقی ایشیا کو مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ سے زمینی اور سمندری راستوں سے ملاتا ہے۔ اس منصوبے میں چھے اہم کوریڈورز ہیں جن میں چائنا سنٹرل ایشیا یورپ کوریڈور، چائنا روس کوریڈور اور سب سے اہم چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) شامل ہے جو چین کے صوبے سنکیانگ سے شروع ہوتا ہے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر ختم ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیائی سیاسی محل وقوع کے پیش نظر اسلامی جمہوری ایران ، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ثالثی ربط ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی ترقی کے پیش نظر کچھ ماہرین اس راستے کو شاہراہ ریشم میں ایران کے داخلے کے ممکنہ کنکشن پوائنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی ”تسنیم“ کے مطابق ”12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی خصوصی مدد نے ایرانی حکام کو اس جنوب مشرقی پڑوسی (پاکستان) کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش کو بڑھایا ہے“۔

صدر پزشکیان کا حالیہ بیان، جس کے مطابق ”ایران کو پاکستان کے راستے نیو سلک روڈ پراجیکٹ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔“ اس کنکشن کو آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ سطح کی حکومتی حمایت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تسنیم کے مطابق شمال مشرقی راستوں کے برعکس، جنوب مشرقی راہداری کے فوائد زیادہ ہیں جیسے کھلے پانیوں سے قربت، گوادر پورٹ تک رسائی اور زمین اور سمندر کے ذریعے چین کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے کا موقع وغیرہ۔

پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ البتہ اس راستے کی کامیابی کا انحصار جغرافیائی سیاسی تقاضوں کے صحیح ادراک، علاقائی اقدامات سے ہم آہنگی اور ایران کے مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی رفتار پر ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران کو شاہراہ ریشم سے پاکستان کے راستے اور ایران کے کے ساتھ سکتی ہے سکتا ہے

پڑھیں:

کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ اور ترقی یافتہ ممالک کی حکمتِ عملیاں

کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کا واقعہ ایک قدرتی موسمیاتی مظہر ہے، جس میں مختصر وقت میں کسی مخصوص مقام پر انتہائی زیادہ مقدار میں بارش ہوتی ہے۔

یہ بارش اس قدر شدید اور محدود علاقے میں مرتکز ہوتی ہے کہ ندی نالوں میں طغیانی اور شہری علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

عام طور پر کلاؤڈ برسٹ اس وقت ہوتا ہے جب گرم ہوا نمی سے بھری فضا کو اوپر لے جائے، اور بلندی پر ٹھنڈی ہو کر اچانک بھاری بارش کی صورت میں زمین پر گرے، مگر شدید ہوا کی وجہ سے یہ بارش بہت مختصر علاقے میں محدود رہتی ہے۔

مون سون کے دوران ایسے واقعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔

 دنیا میں کلاؤڈ برسٹ کے تباہ کن واقعات

 شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے  دنیا کے کئی ممالک میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث انسانی جانوں اور انفراسٹرکچر کو گہرا نقصان پہنچ چکا ہے۔

سب سے ہولناک واقعہ 2013 میں بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں پیش آیا، جب جون کے مہینے میں کلاؤڈ برسٹ اور اس کے بعد آنے والے لینڈ سلائیڈز نے کم از کم 5,700 افراد کی جان لے لی، جبکہ ہزاروں دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ اسے بھارت کی تاریخ کا سب سے مہلک قدرتی سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔
اسی طرح امریکہ میں کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں کئی علاقوں میں فلیش فلڈز کے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں خاص طور پر ایریزونا، نیو میکسیکو اور کولوراڈو کے علاقے شامل ہیں۔

ان واقعات سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ سڑکوں، پلوں اور مواصلاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا۔ بنگلہ دیش میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کلاؤڈ برسٹ جیسی قدرتی آفات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جہاں شہری علاقوں میں ناقص نکاسی کے نظام کی وجہ سے معمولی کلاؤڈ برسٹ بھی بڑی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
کلاؤڈ برسٹ سے نمٹنے کے لیے عالمی طریقہ کار
کلاؤڈ برسٹ جیسی ہنگامی موسمی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک نے سائنسی، تکنیکی اور انتظامی اقدامات کیے ہیں۔

جاپان، جو زلزلوں، طوفانوں اور بارشوں سے نبرد آزما رہتا ہے، وہاں ’ایمرجنسی وارٹر ڈرینج سسٹم‘ اور زیرزمین پانی جمع کرنے کے بڑے ذخائر بنائے گئے ہیں۔

ٹوکیو میں واقع “G-Cans Project” ایک زیرزمین میگا ٹنل سسٹم ہے جو شدید بارش کے دوران پانی کو محفوظ رکھ کر بعد میں خارج کرتا ہے۔
جبکہ امریکہ میں نیشنل ویدر سروس جدید ریڈار اور سیٹلائٹ سسٹمز کے ذریعے فلیش فلڈز کی پیشگی اطلاع دیتا ہے۔ عوام  کو ایپلی کیشنز اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے بروقت وارننگز جاری کی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ شہری منصوبہ بندی میں نکاسی آب کے سسٹمز کو ماڈرنائز کیا گیا ہے تاکہ پانی جمع نہ ہونے پائے۔ بھارت میں بھی حالیہ برسوں میں ’ڈیجیٹل فلڈ وارننگ سسٹمز‘ متعارف کرائے گئے ہیں جو شہروں کو کلاؤڈ برسٹ کے خطرے سے بروقت آگاہ کرتے ہیں، خاص طور پر ممبئی اور چنئی جیسے شہروں میں ان نظاموں نے مؤثر کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات اور نقصانات

پاکستان میں بھی کلاؤڈ برسٹ کے متعدد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سب سے نمایاں واقعہ 28 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ای-11 اور ڈی-12 میں پیش آیا، جہاں شدید بارش کے باعث برساتی نالے ابل پڑے، گھروں میں پانی داخل ہوگیا اور 2 افراد جان بحق ہوگئے۔ اس واقعے کو محکمہ موسمیات نے ابتدائی طور پر کلاؤڈ برسٹ قرار دیا تھا۔
اس سے قبل 2019 میں بھی اسلام آباد اور راولپنڈی میں کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں اچانک سیلاب آیا، جس میں کم از کم 22 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔

آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ سے متعلق واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں یہ مظہر زیادہ عام ہے جہاں زمینی ساخت پانی کے بہاؤ کو روکنے سے قاصر ہوتی ہے۔

چکوال میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ کا واقعہ

17 جولائی 2025 کو چکوال میں ہونے والی صرف 10 گھنٹے میں 427 ملی میٹر بارش ریکارڈ ک گئی۔ یہ واقعہ پاکستان کے تاریخ میں شدید ترین موسمیاتی واقعات میں سے ایک ہے۔

اس دوران آفت زدہ علاقوں کے اکثر گھروں میں پانی داخل ہو گیا، چھتیں گئیں، اور بہت سے لوگ رات بارہ گھنٹے کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہوئے۔

مختلف محلہ جات مثلاً بھناؤ، کلھایاں، سراولی اور ڈھوک بدیر میں نالیوں کا پانی گھروں میں داخل ہوا، گھروں کی  دیواریں گر گئیں، مویشی بہہ گئے، اور 2 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔

ضلعی انتظامیہ نے فوری طور پر بارش ایمرجنسی نافذ کی، بچاؤ اور امدادی ٹیمیں متحرک کی گئیں، اور پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں نے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔

پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والی تباہیوں کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی تجربات سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ملک میں جدید ’ڈوپلر ریڈار‘ سسٹمز کی تنصیب ضروری ہے تاکہ بارش کی شدت اور محل وقوع کے بارے میں بروقت اور درست معلومات حاصل ہو سکیں۔

اس کے علاوہ شہری منصوبہ بندی میں نکاسی آب کے مؤثر نظام کو یقینی بنایا جائے، خصوصاً اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں۔
مزید برآں، قدرتی نالوں اور دریاؤں کے گرد تعمیرات پر پابندی عائد کرنی چاہیے، جیسا کہ بھارت اور جاپان میں قانوناً کیا گیا ہے۔ اسکولوں اور کالجز میں موسمیاتی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ کلاؤڈ برسٹ جیسی صورتحال میں اپنی اور دوسروں کی جانیں بچانے کے قابل بن سکیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ’فلڈ ریسپانس یونٹس‘ کو ٹریننگ دے کر فعال کرے، اور ایمرجنسی الرٹ سسٹمز کو موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے عام شہریوں تک پہنچایا جائے۔

پانی کے زیرزمین ذخائر بنانے اور شہری منصوبہ بندی میں بارش کے پانی کو محفوظ رکھنے کے اقدامات پاکستان کو شدید موسمی تبدیلیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بنا سکتے ہیں۔
یہ تمام اقدامات پاکستان کو نہ صرف کلاؤڈ برسٹ بلکہ دیگر شدید موسمی مظاہر سے نمٹنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ عالمی تجربات ہمارے لیے ایک روشن مثال ہیں، اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہم اپنی زمین، اپنی شہری اور دیہی آبادی اور اپنے مستقبل کو قدرتی آفات کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خوشبخت صدیقی

بارش ترقی یافتہ ممالک کلاؤڈ برسٹ

متعلقہ مضامین

  • سچ کی تلاش اور عوام کی آواز بننا صحافیوں کا اصل مشن ہے، گورنر سندھ
  • عمران خان کے بچے قانونی منظوری کے بعد انسے ملاقات کر سکتے ہیں ،غیر ملکی شہریوں کو عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جا سکتی،حذیفہ رحمان
  • پاکستان اور ایران میں سالانہ تجارت 8ارب ڈالر تک پہنچنے کا ہدف مقرر
  • پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ تجارت 8ارب ڈالر تک پہنچنے کا ہدف مقرر
  • روزمرہ کے استعمال کی متعدد اشیاء کینسر کا سبب سن سکتی ہیں: تحقیق
  • ایرانی صدر کی اسلام آباد آمد کے موقع پر کونسے راستے بند رہیں گے؟ ٹریفک پولیس نے بتا دیا
  • ایرانی صدر کی لاہور آمد، پاکستان کے راستے چین سے تجارت کی خواہش
  • تینوں بڑی پارٹیوں کو دیکھ لیا، ترقی نہیں دیکھی: مفتاح اسماعیل
  • کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ اور ترقی یافتہ ممالک کی حکمتِ عملیاں