کے پی میں کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا، نیشنل ایکشن پلان پر لازمی عمل ہوگا، طلال چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کا مسئلہ سیکیورٹی فورسز کا نہیں بلکہ سیاسی قیادت کی بزدلی کا ہے، باجوڑ سمیت کسی بھی جگہ کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا، البتہ نیشنل ایکشن پلان پر لازمی عمل ہوگا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز لڑ رہی ہیں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی فورسز کہاں ہیں؟ خیبر پختونخوا میں سیاسی قیادت کمپرومائزڈ ہے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں اگر وزیر اعلیٰ نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی احتجاج پر انہوں نے کہا کہ احتجاج حق ہے لیکن یہ نہیں کہ آپ آئین و قانون سے ماورا احتجاج کر سکتے ہیں، آج سے تین دن پہلے ڈاک سے ڈی سی آفس کو درخواست موصول ہوئی، کبھی کہتے ہیں اسلام آباد آئیں گے اور کبھی کہتے اپنے اپنے شہروں میں کریں گے۔
طلال چوہدری نے واضح کیا کہ احتجاج 100 بار کریں ہم گرفتار نہیں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کیوں نہیں انتظامیہ کو آگاہ کرتے؟ میڈیا سے خبر ملتی ہے، یہ انتظامیہ کو آن بورڈ کیوں نہیں لیتے۔ یہاں سے جتھوں کو لے جا کر اڈیالہ جیل پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ بچوں کو استعمال کیا گیا، بچے والد سے ملنا چاہتے تو کیا دو سال میں ویزا نہ ملتا؟ ہمدردی کے لیے بچوں والا سیاسی اسٹنٹ تھا، بچے کیا بانی پی ٹی آئی کے بچے بن کے آرہے ہیں یا گولڈ اسمتھ کے پوتے بن کر آرہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیمرون میں انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج، سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے 48 ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیمرون میں صدارتی انتخابات کے نتائج نے ملک کو ایک بار پھر سیاسی اور انسانی المیے کی جانب دھکیل دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دارالحکومت یاؤندے اور دیگر شہروں میں صدر پال بیا کی آٹھویں مرتبہ کامیابی کے خلاف شروع ہونے والے پُرامن احتجاج پر سیکورٹی فورسز نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 48 شہری جان سے جا چکے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، بیشتر افراد کو براہِ راست گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی مظاہرین پولیس کے لاٹھی چارج اور تشدد سے شدید زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے ذرائع نے ان ہلاکتوں کو ریاستی جبر کی بدترین مثال قرار دیا ہے، تاہم حکومتِ کیمرون کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
92 سالہ صدر پال بیا، جو 1982 سے اقتدار میں ہیں، نے رواں انتخابات میں 53.66 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے اہم حریف سابق وزیر عیسیٰ ٹکروما بکاری کو 35.19 فیصد ووٹ ملے۔ اپوزیشن کی جانب سے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ووٹنگ کے فوراً بعد ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق احتجاج کرنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں اور خواتین کی تھی جو شفاف انتخابات اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے صدر بیا کے استعفے اور انتخابی نتائج کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا۔
دوسری جانب حکومت نے مظاہروں کو ملک دشمن سرگرمی قرار دیتے ہوئے سیکورٹی فورسز کو امن و امان بحال رکھنے کا حکم دیا، جو بالآخر ایک خونریز کریک ڈاؤن میں تبدیل ہوگیا۔
امریکا کے ری پبلکن سینیٹر جم رش نے اس صورتحال پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پال بیا کا انتخاب شرمناک دھوکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیمرون کی حکومت نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ امریکی شہریوں کے حقوق کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ واشنگٹن دوطرفہ تعلقات پر نظرِثانی کرے کیونکہ کیمرون اب امریکا کا قابلِ اعتماد اتحادی نہیں رہا۔
اُدھر مقامی سول سوسائٹی تنظیم اسٹینڈ اپ فار کیمرون نے ایک ہفتہ قبل ہی خبردار کیا تھا کہ ریاستی تشدد کے نتیجے میں 23 شہری مارے جا چکے ہیں، تاہم تازہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد بڑھ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری مداخلت نہ کی تو کیمرون ایک نئے سیاسی المیے میں پھنس سکتا ہے۔