وزیراعظم کا پی آر اے ایل کو 6 ماہ میں ختم کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
ویب ڈیسک : وزیراعظم شہباز شریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی آئی ٹی کمپنی پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کو 6ماہ میں ختم کرنے کا دیا ہے .
حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے گزشتہ ماہ یہ فیصلہ اس وقت کیا جب PRAL کے بورڈ اراکین بھی اجلاس میں موجود تھے۔
PRAL گزشتہ تین دہائیوں سے ایف بی آر کیلیے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے، ٹیکس ادائیگی اور دیگر اہم ڈیٹاکا مرکزی ذخیرہ رہی ہے، تاہم اس کا موجودہ ہارڈویئر اور سافٹ ویئر فرسودہ ہوچکا ہے، جس سے اس کی سروسزکی پائیداری پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے تین ارکان کو نااہل قرار دے دیا،9 نشستیں خالی ہو گئیں
2019 میں حکومت نے PRAL کے نظام کو جدید بنانے کیلیے غیر ملکی قرض لیا تھا، جس میں عالمی بینک سے 400 ملین ڈالر کی رقم شامل تھی، مگر 80 ملین ڈالر کی آئی ٹی اپ گریڈیشن کیلیے مختص رقم کے باوجود تمام ڈیڈلائنز ختم ہوچکی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر میں اصلاحات اور آئی ٹی کے دو الگ الگ ونگز کی وجہ سے ذمہ داری اور اختیار کا توازن بگڑگیا، جس سے نظام کی بہتری میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ نیا ادارہ ماہر پیشہ ور افراد پر مشتمل ہو، مکمل مالی اور انتظامی خودمختاری کا حامل ہو، اور ایف بی آر کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کیلیے عالمی معیار کی سروسز فراہم کرنے کے قابل ہو، تاہم ماہرین کے مطابق، سال کے آخر تک مکمل طور پر نیا ادارہ قائم کرنا اور PRAL کی ذمہ داریاں سنبھالنا بڑا چیلنج ہوگا، خاص طور پر جب PRAL میں چیف انفارمیشن سیکیورٹی آفیسر کی بھرتی بھی ممکن نہ ہوسکی۔
خاتون نے بوائے فرینڈ سے تحفے کے طور پر لیے آئی فونز فروخت کرکے اپنا گھر خرید لیا
ادھر ایف بی آر کے تین بڑے ڈیٹا سینٹرزاسلام آباد کے ایف بی آر ہاؤس، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک اورکراچی کے کسٹمز ہاؤس کی حالت بھی ناقص ہوچکی ہے، جنہیں آخری بار 2010 میں اپ گریڈکیاگیا تھا، حکومت نے 14 اگست کو نئے ڈیٹا سینٹرزکاافتتاح کرنے کا ہدف رکھا ہے تاہم سرورز کی تیاری مکمل نہ ہونے کے باعث تاخیر کا خدشہ ہے۔
مزید برآں، ٹیکس پالیسی سے متعلق وزیراعظم کے حالیہ اجلاس میں بتایاگیا کہ ایف بی آر نے بعض تاجروں سے مفاہمت کے باعث سخت اقدامات سے پیچھے ہٹ کر کمزور پوزیشن اختیار کی ہے، جس سے ریونیو اہداف متاثر ہو سکتے ہیں۔
4 روزہ تعطیلات، بڑی خوشخبری آگئی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ایف بی ا ر
پڑھیں:
آن لائن خرید و فروخت پر ٹیکس کی سختی، ایف بی آر نے ای کامرس ریٹیلرز کے لیے نئی شرائط طے کر دیں
ایف بی آر نے ای کامرس ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اہم اقدامات کرتے ہوئے آن لائن لین دین پر ٹیکس کی کٹوتی اور رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ای کامرس فروخت کنندگان کی رجسٹریشن اور ڈیجیٹل لین دین پر ٹیکس وصولی کے لیے نئے طریقہ کار جاری کر دیے ہیں۔
یہ اقدامات ریٹیل مارکیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ڈیجیٹل طور پر آرڈر کی جانے والی اشیا و خدمات پر ٹیکس کی مکمل عملداری کو یقینی بنانے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں۔
ایف بی آر نے انکم ٹیکس سرکلر نمبر 01 اور سیلز ٹیکس سرکلر نمبر 02 جاری کیے ہیں، جن کا مقصد ای کامرس ریٹیلرز کو قومی ٹیکس نمبر (این ٹی این) الاٹ کرنے کے عمل کو آسان بنانا اور مؤثر ود ہولڈنگ ٹیکس سسٹم کا نفاذ ہے۔
نئے نظام کے تحت، آن لائن مارکیٹ پلیس (او ایم پی) یا ویب سائٹ کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر آرڈر کی گئی اشیا یا خدمات کی تمام ادائیگیاں ٹیکس کے دائرے میں آئیں گی اور سیکشن 6 اے کے تحت ملکی ای کامرس لین دین پر ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔
سیکشن 153(2 اے) میں کی گئی تبدیلیوں کے مطابق، ادائیگی فراہم کرنے والے ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے، فارن ایکسچینج ڈیلرز اور ڈیجیٹل گیٹ ویز، اب ای کامرس لین دین پر 1 فیصد ٹیکس منہا کرنے کے پابند ہوں گے، جب کہ کیش آن ڈیلیوری (سی او ڈی) کا انتظام کرنے والے کورئیرز، سیلرز کو ادائیگی منتقل کرنے سے قبل 2 فیصد ٹیکس منہا کریں گے۔
یہ مختلف ٹیکس شرحیں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے اور معیشت کو کیش لیس بنانے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہیں۔
سیکشن 6 اے کے تحت جمع کیا گیا ٹیکس، سیلرز کی ملکی و برآمدی آمدن پر حتمی ٹیکس شمار ہوگا۔
ادائیگی کے ثالثی ادارے اور کورئیر سروسز اس ٹیکس کی وصولی کے ذمہ دار ہوں گے، جسے ہر سیلر کے نام پر قومی خزانے میں ماہانہ جمع کروایا جائے گا، ساتھ ہی متعلقہ ود ہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹس بھی جمع کرانا ہوں گی۔
نئے نظام کے تحت، ای کامرس فروخت کنندگان کے لیے انکم ٹیکس میں رجسٹریشن قانونی طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔
آن لائن مارکیٹ پلیسز (او ایم پیز) اور کورئیر سروسز کو غیر رجسٹرڈ فروخت کنندگان کو خدمات فراہم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں، او ایم پیز اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر کام کرنے والے تمام فروشوں کی تفصیلات پر مشتمل بیانات وقتاً فوقتاً ایف بی آر کو جمع کرائیں۔
غیر رجسٹریشن یا ٹیکس کی کٹوتی میں ناکامی پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں، جن کا اطلاق ان او ایم پیز اور کورئیر سروسز پر ہوگا جو ٹیکس منہا کرنے یا رجسٹریشن کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہیں۔
ای اسٹورز یا موبائل ایپس کے ذریعے سی او ڈی کی صورت میں چاہے وہ ایگریگیٹر ہوں، او ایم پی ہوں یا براہِ راست ڈیلیوری فراہم کرنے والے ٹیکس کی وصولی اور رپورٹنگ کی ذمہ داری کورئیر سروس پر عائد ہوگی، خواہ فروش او ایم پی کے ذریعے کاروبار کر رہا ہو یا آزادانہ طور پر۔
سیلز ٹیکس کے فریم ورک میں، کورئیرز کو ویڈ ہولڈنگ ایجنٹس کے طور پر مقرر کیا گیا ہے تاکہ ای کامرس سیکٹر میں قابلِ ٹیکس سرگرمیوں کا احاطہ کیا جا سکے۔
حکومت نے سیلز ٹیکس کی عملداری سخت کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔
سیکشن 3(7 اے) کے تحت، کورئیرز اور ثالثی اداروں کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر آرڈر کردہ اشیا پر جمع کیا گیا ٹیکس، کاٹیج انڈسٹری اور نان-ٹائر-1 ریٹیلرز کے لیے حتمی ذمہ داری شمار ہوگا، اور اس پر کوئی ان پٹ ٹیکس دستیاب نہیں ہوگا۔
دیگر کاروبار معمول کے سیلز ٹیکس نظام کے تحت کام جاری رکھیں گے، جہاں منہا کیا گیا ٹیکس ان کے آؤٹ پٹ ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
سیکشنز 14(1 اے) اور 14(1 بی) میں ترامیم کے تحت، اب تمام ای کامرس فروش حتیٰ کہ غیر ملکی افراد بھی، جو پاکستان میں یا یہاں سے ڈیجیٹل طور پر اشیا فروخت کرتے ہیں، ان کو سیلز ٹیکس فریم ورک کے تحت رجسٹر ہونا اور عمل کرنا لازمی ہوگا۔
مزید برآں، سیکشن 26 میں ترامیم کے تحت، او ایم پیز، ادائیگی ثالثی اداروں اور کورئیرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس بیانات جمع کروانے ہوں گے، جن میں فروشوں کے مطابق ادائیگیاں، ٹیکس کی تفصیلات اور دیگر ضروری معلومات شامل ہوں گی، جو ملکی ڈیجیٹل لین دین کے حوالے سے درکار ہوں گی۔
یہ تبدیلیاں ای کامرس سیکٹر میں ٹیکس کی بہتر عملداری اور حکومت کی ڈیجیٹل معیشت کی طرف منتقلی کی حمایت کے لیے کی گئی ہیں۔
Post Views: 3