Express News:
2025-09-22@04:18:41 GMT

قدرت انسانوں سے انتقام لے رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

موجودہ صدی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کس طرح انسانوں سے انتقام لے رہی ہے اور ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کا جواب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔

موجودہ دور میں جتنے بھی مذاہب اس زمین پر موجود ہیں سب کا ماننا ہے کہ مرنے کے بعد اُنہوں نے آسمان پر جانا ہے اور وہاں اُنہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا، کیونکہ ہر مذہب نجات کی بات کرتا ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو نجات کا دعویدار قرار دیتا ہے۔ گو کہ وہ اُنہیں اپنے اعمال بہتر بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ ہر قسم کی برائیوں سے بھی باز رہنے کی بات کرتا ہے۔ دُنیا بھر کے انسانوں سے پیار بانٹنے اور معاف کرنے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اپنے پڑوسی کو برابر کے حقوق دینے کی بات بھی کرتا ہے۔ اس دنیا کوخوبصورت اور خوشحال بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ قدرت کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی بات بھی کرتا ہے اور قدرت کو خوبصورت بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔

لیکن دنیا بھر کے تمام مذاہب کے پیروکاروں نے شاید صرف ایک ہی بات سنی ہے کہ انہیں ان کا مذہب جنت کا ٹکٹ دے دے گا، اس لیے انہیں باقی چیزوں پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے اعمال کو بہتر بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس دنیا کو جہاں وہ خود رہتے ہیں پرامن اور خوشحال بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں کہ قدرت کی خوبصورتی اور دلکشی کو برقرار رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

یہی وجہ ہے کہ جب انسان نے خدا کی بنائی ہوئی قدرت اور فطرت کو اُس کی اصل شکل میں رہنے کے بجائے اُسے خراب کرنے کی کوشش کی تو پھر قدرت نے بھی انسانوں سے انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ جس کا ثبوت ہمیں سونامی کی شکل میں، زلزلوں کی شکل میں، ہر سال طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں، کبھی جنگلوں میں نہ بجھنے والی آگ کی صورت میں، کبھی موسموں کی شدت کی شکل میں ہمیں نظر آرہا ہے اور انسان ہر روز اس کا بھیانک تجربہ کررہا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اپنی روش سے باز نہیں آرہا۔

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے طاقتور انسانوں نے کمزور کو مغلوب بنانے کےلیے انسانیت کی حد درجہ تذلیل کی ہے اور ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ دو عالمی جنگ میں کروڑوں لوگ بے دردی سے قتل کردیے گئے۔ قدرت کی حسین وادیوں، سمندروں، دریاؤں، ندی نالوں کو خون سے نہلا دیا گیا۔ منوں ٹنوں کے حساب سے گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ محض کچھ دیر کےلیے یہ سلسلہ رکا تو سہی۔ کچھ اداروں کا وجود بھی عمل میں لایا گیا کہ انسانوں سے عالمی جنگوں جیسی غلطی تیسری بار نہ دہرائی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنے آپ کو محفوظ بنانے کےلیے اور دوسروں سے طاقتور بننے کےلیے ڈھیروں ڈھیر اسلحہ بھی بناتا رہا۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ وہ اس اسلحے کے ڈھیر میں خود کو چھپا کو محفوظ ہو جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ نہ صرف اسلحہ بنانے والا خود اور اُس کے ارد گرد کے پڑوسی بھی اُس سے غیر محفوظ ہوگئے۔

حیرت کی بات ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے مختلف اعلامیے پڑوسیوں سے اچھے سلوک کی بات کرتے ہیں اور مذہب بھی اپنے پیروکاروں کو یہی ترغیب دیتا ہے لیکن زمین پر بسنے والے انسانوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، کیونکہ وہ طاقت کے نشے میں بدمست سب سے پہلے اپنے پڑوسی ملک کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

آپ دنیا میں بیشتر جنگیں دیکھیں وہ آپ کو پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی نظر آئیں گی، چاہے وہ اسرائیل فلسطین کی جنگ ہو، اسرائیل ایران کی جنگ ہو، پاکستان انڈیا کی جنگ ہو، آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ ہو، عراق اور ایران کی جنگ ہو، جرمنی پولینڈ کی جنگ ہو، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ ہو اور انڈیا اور چین کی جنگ ہو۔ یہ تمام جنگیں پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں۔ ماضی میں جب کبھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا تھا تو آسمان روتا تھا اور سرخ ہوجاتا تھا، جسے دیکھ کر ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دنیا میں کوئی بے گناہ قتل ہوا ہے۔ لیکن شاید اب انسانوں کی سنگدلی دیکھتے ہوئے آسمان نے بھی رونا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے اب اُس طرح کبھی آسمان سرخ ہوا ہی نہیں۔

حال ہی میں آنے والی خبر جسے پڑھ کر دل بہت دکھی ہوا کہ غذائی قلت کے باعث غزہ میں سیکڑوں انسان جن میں بزرگ، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں وہ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور خبر نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا کہ انڈیا میں میانمار کے روہنگیائی قوم کے پناہ گزینوں کو سمندر غرق کردیا گیا۔ انسان اتنا بے رحم اور سفاک کیسے ہوسکتا ہے؟ انسانوں کے اس رویے کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ فرعون، نمرود ، ہلاکو خان، چنگیز خان ، ہٹلر، مسولینی کی روح موجود دور کے سفاک رہنماؤں کی صورت میں ابھی بھی موجود ہے۔

آپ ملاحظہ کیجیے کہ ان جنگوں سے انسان تو لقمہ اجل بنے ہی ہیں قدرت اور فطرت کو بھی خاصا نقصان پہنچا ہے۔ کھیت کھلیان، چراگاہیں، جنگل، سمندر، دریا، آب و ہوا، حتیٰ کہ پہاڑوں تک اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں ہونے والی تغیراتی تبدیلیاں، موسموں کی شدت اور بارشوں کے لامتناہی سلسلے نے انسانوں کےلیے زمین پر رہنا مشکل کردیا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی ریاست ٹیکساس میں آنے والے سیلاب نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اگر امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کے سسٹم کے باوجود وہاں انسان متاثر ہوسکتے ہیں تو ہمارے جیسے ملک میں جہاں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے سسٹم کو چرا لیا جائے (کچھ ماہ قبل نالہ لئی راولپنڈی ممیں یہ واقع ہوا تھا) تو وہاں قدرت کیا غضب ڈھا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہمیں مل چکا ہے اور شاید ابھی تک مل رہا ہے۔

ہمارے ملک میں بارشوں نے رواں برس قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ ڈھائی سو کے قریب انسان تاحال لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ان بے سرو سامان خاندانوں کو آسرا فراہم کرسکے۔ انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ عوام خوفزدہ ہیں اور بارش کو رحمت کے بجائے زحمت قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر کی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی تباہی کے پیش نظر اپنے ملکوں میں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں، جس میں سب سے اہم جنگلات کا اُگانا ہے، کیونکہ سیلابوں کو روکنے کےلیے جنگلات بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کچھ منصوبہ بندی تو کی گئی ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ پوش سوسائٹیوں کے نام پر جنگلات اور دیہی سرسبز زمینوں کو سوسائٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اُس کے نتیجے میں ملک بھر کے شہر موسمیاتی تغیراتی تبدیلوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

سادہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک بھر میں ایمرجنسی کی صورت میں بھی نو دولتیے سیر و سیاحت کے شغل میں مصروف ہوکر اُن علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جنہیں حکومت نے ڈینجر زون قرار دے رکھا ہے۔ اب جو لوگ وہاں مقیم ہیں اور شاید اُن کےلیے ممکن نہیں کہ وہ وہاں سے انخلا کرسکیں لیکن میدانی علاقوں کے لوگ جانے کیوں ایڈونچر کے چکر میں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔

اس ضمن میں حکومت سے گزارش ہے کہ اُن علاقوں میں جانے والے لوگوں پر سختی کی جائے اور مستقبل میں مون سون میں پہلے ہی سے پابندی عائد کر دی جائے کہ اُن علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو وہاں مقامی لوگ ہیں اور اُن کے انخلا ممکن نہیں تو اُن کو ہر ممکن سہولت دی جائے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔

ملک میں شجر کاری کےلیے کسی ایک محکمے کو ہی ذمے داری نہ دی جائے بلکہ شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں ہر شخص پر لازم کیا جائے کہ وہ نہ صرف درخت لگائے بلکہ اُس کے پروان چڑھانے تک اُس کا ذمے دار ہو۔ ایسا سختی سے نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کو اپنا فرض سمجھنا ہوگا کہ وہ انسانیت کو بچانے کےلیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ ہم نے کون سا اُس درخت کی چھاؤں میں بیٹھنا ہے بلکہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ جن درختوں کی چھاؤں سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بھی ہمارے جیسے کسی انسان نے لگائے تھے۔ ندی، نالوں، دریاؤں اور سمندروں کو صاف رکھنے کےلیے ہمیں سنجید ہ پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے اور کس طرح قدرت اور فطرت کو اپنی اصل شکل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔

دنیا بھر کے انسانوں کو جنگی جنون کے بجائے انسانیت کو بچانے کےلیے تگ و دو کرنی چاہیے کیونکہ خیال کیا جائے کہ ہمارے پڑوسی کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے تو کہیں وہ آگ ہمارے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ اسلحہ بنانے اور بیچنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں جنت کا ٹکٹ حاصل کرنے کےلیے اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرکے جنت نہیں ملنی بلکہ انسانیت کو بچا کر ہی شاید وہ اس دنیا کو جنت بناسکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قدرت، فطرت کے مظاہر سے لطف اندوز ہوں اور انہیں نقصان پہنچانے کے بجائے اس کو خوبصورت اور پرامن بنانے کےلیے ہر ممکن جدوجہد کریں تو شاید ہوسکتا ہے کہ قدرت کو بھی انسانوں پر رحم آجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی بات بھی کرتا ہے کوئی ضرورت نہیں کی شکل میں کی جنگ ہو کے بجائے دنیا بھر ہیں اور جائے کہ ملک میں نے والے رہے ہیں نے والی قدرت کی دنیا کو کرنے کی کہ وہ ا رہی ہے ہے اور کر رہی بھر کے ہیں کہ شاید ا اپنے ا

پڑھیں:

معاہدہ اور رومانوی دنیا!

ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربوں کو ”جنگی رضاکاروں” کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ”اربوں” کی!پاک سعودیہ معاہدہ دونوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، مگر کتنی؟ یہ پہلو ابھی پردۂ ابہام میںہے۔ بلا شبہ یہ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں مشرق وسطیٰ کے اندر تبدیلیوں کے آتش فشاں کو دہکانے والا ایک لاوا موجود ہے۔ مگر معاہدے کو پاکستان میں حرمین شریفین کے تحفظ کی ایک رومانوی گوٹا کناری کرکے پیش کیا جا رہا ہے، اگر ردِ عمل کی مختلف پرتوں کو کھولا جائے تو ‘سرکاری’ سرپرستی کے بیانئے میں یہ ایک انوکھا واقعہ بھی لگتا ہے۔معاہدے کے انوکھے پن کے ساتھ حرمین شریفین کے تحفظ کا ایک سرشار کردینے والا تاثر اپنی نہاد میں جائزہ طلب ہے۔ درحقیقت یہ منظر نامہ ہماری قومی طاقت کے ارتکاز میں ریاستی مقاصد کے خدمت گار تمام روایتی اداروں بشمول مذہبی روایت کے زوال سے پیدا ہونے والی ایک ذہنیت کا آئینہ دار بھی ہے۔
معاہدے کے انوکھے پن کے ابتدائی تاثر کو پہلے لیتے ہیں۔ پاکستان اور سعودیہ میں مستقبل کے دفاعی تعلقات کی بنیاد 1951ء کے ایک معاہدے سے ڈالی گئی۔ یہ باہمی تعاون کا پہلا خاکہ تھا۔پاکستان کا سعودی عرب سے 1967 سے 1970 کی پوری دہائی تک غیر رسمی دفاعی تعاون جاری رہا۔ اس دوران میں سعودی فضائیہ اور زمینی افواج کی تربیت کااہتمام ہوتا رہا۔ پاکستان سے فوجی انسٹرکٹرز اور پائلٹ تربیت فراہم کرتے رہے۔ یہ تعلقات1982ء میں ایک باضابطہ دفاعی تعاون میں ڈھل گئے یہاں تک کہ اس معاہدے کے بعد سعودی دفاعی ڈھانچے کی تنظیم نو کی گئی۔ 1990 میںپہلی خلیجی جنگ ( آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ)کے موقع پر پاکستان کے فوجی دستے باقاعدہ سعودی عرب میں تعینات رہے۔اگلی دہائی (2000ئ) بھی خالی نہیں گئی۔ یہ دونوں ملکوں میںانسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ ، فوجی مشقیں اور دہشت گردی کے خلاف شراکت کا عرصہ رہا۔ 2015ء میں یمن کا بحران پیدا ہوا۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے فوجی مداخلت کا فیصلہ مسترد کردیا، تب پاکستان نے براہِ راست جنگ میں شرکت تو نہیں کی لیکن فوجی مشاورت اور تربیت کا عمل رُک نہیں سکا۔ پاکستان اور سعودیہ کے درمیان میں2018 سے 2021 تک ایک سپریم کوآرڈی نیشن کونسل متحرک رہی جس نے مشرکہ مشقوں اور دفاعی تعاون کو ایک ادارہ جاتی شکل دے دی۔ انسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور عسکری تربیت بھی جاری رہی۔
اس پورے تاریخی بہاؤ میں17ستمبر 2025 کو پاکستان میں” اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ ”کا ایک معاہدہ عمل میں آیا۔ غور کیا جائے تو پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ تعلقات میں ابتدائی کردار زیادہ تر فوجی تربیت، دفاعی ڈھانچے کی معاونت اور انسٹرکٹرز کی فراہمی پر مبنی رہا۔ پھر 1982 سے 2025 تک یہ باضابطہ دفاعی شکل کی صورت بھرتے رہے۔ نتیجہ معلوم ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ اپنے دفاعی ڈھانچے کے لیے پاکستانی فوجی تجربے پر انحصار کیا۔سوال یہ ہے کہ معاہدوں ، مشقوں ، تربیتوںاور تعلق داریوں کی اس پوری تاریخ میں ایسا کیا انوکھا ہوا کہ 17ستمبر کے معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت ملنے لگی؟نیا معاہدہ دراصل ایک مسلسل روایت کا حصہ ہی ہے جو آٹھ دہائیوں پر محیط ہے ۔البتہ ہر دور میں حالات کے مطابق ان معاہدوں کی نوعیت اور توجہ کا محور حسب ِ ضرورت بدلتا رہا۔یعنی اس نوع کے معاہدوں کی فوجی، مالی، سرمایہ کاری یا توانائی کی جہتوں سے تشریح کی جاتی رہی۔حالیہ پاک سعودیہ معاہدے کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ”کسی بھی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر بھی تصور کیا جائے گا”۔ یہ معاہدے کی پہلی ہی شق ہے۔ صرف اسی شق پر پاکستان میں فتح کے شادیانے ، عالم اسلام کے اتحادی ترانے ، اور سرشاری کے نغمے سنائی دے رہے ہیں۔ مگر اسی شق نے عالمی سطح پر جو سوالات پیدا کیے ، اس کا پہلا اثر وزارت خارجہ کے ترجمان کی محتاط زبان پر دکھائی دیا۔ جب اُنہوںنے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ یہ ایک دفاعی معاہدہ ہے اور یہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیں۔ اگر یہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیںتو کیا اِسے پاکستان اور سعودیہ کی روایتی تاریخ میں ایک تربیتی نوع کا معاہدہ سمجھا جائے گایا نہیں؟ اس کے جواب میں بغلیں بجانے کا عمل رک سکتا ہے۔ اس لیے یہ سوال نظرانداز کر دیں۔
عالمی سطح پر سب سے زیادہ تجسس یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ سعودی عرب کو جوہری چھتری فراہم کرتا ہے۔ یہ پہلو معاہدے میں ابہام رکھتاہے۔ مگر پاکستان کے غیر موثر اور اپنے بیانات میں ناقابل اعتبار وزیر دفاع خواجہ آصف نے اب تک دو موقف اختیار کیے ہیں۔پاکستان کے ایک نجی چینل پر 18 ستمبر کو وزیر دفاع سے یہ سوال ہو اکہ” پاکستان کو جو دفاعی تحفظ ایٹمی ہتھیاروں سے حاصل ہے ، کیاوہ سعودی عرب کو بھی فراہم کیا جائے گا؟” خواجہ آصف نے جواب دیا:”ریاض اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کے تحت ضرورت پڑنے پر پاکستان کا جوہری پروگرام سعودی عرب کے لیے دستیاب ہو گا”۔ خواجہ آصف کے اس بیان کو عرب ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ جگہ دی گئی۔ مگر جب یہی سوال برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے خواجہ آصف سے پوچھا تو اُن کا جواب مختلف تھا:”معاہدے میں ایٹمی ہتھیار شامل نہیں، البتہ اسے خلیج کے دیگر ممالک تک بھی بڑھایا جاسکتا ہے ”۔ یہ ایک ہی زبان سے ادا کیے گئے دو مختلف موقف ہیں۔ یہ نکتہ واضح رہنا چاہئے کہ سعودی عرب واضح اشارہ دے رہا ہے کہ ”وہ اس معاہدے سے ایک طرح کی ”ایٹمی ڈھال” حاصل کر رہا ہے”۔ ان تضادات کو یہیں پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پاکستان میں رومانوی دنیا میں آسودہ مگر عملی دنیا سے لاتعلق مذہبی ذہن کی جذباتی تسکین اور لفطی گولہ باری کا سامان بکھر نہ جائے۔ ایک نکتے کے طور پر واضح رہنا چاہئے کہ عالمی سطح پر یہ تجسس موجود ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو ”ایٹمی ڈھال” دے گا یا نہیں؟
اب آئیے! حرمین شریفین کے تحفظ کے سرشار کردینے والے تاثر کی معنویت کو حقائق کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل نے 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رہائشی کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے حماس کے جلاوطن قیادت کو نشانہ بنایا ۔ جس نے پوری عرب دنیا کو بے چین کردیا۔ کیونکہ اس حملے کو امریکا نے قطر میں اپنا عسکری اڈہ (العدید ائیربیس) ہونے کے باوجود روکا نہیں۔ا س کے بعد 57اسلامی ممالک کے سربراہان ایک کانفرنس میں 15 ستمبر کو دوحہ میں جمع ہوئے ، مگر ایک مذمتی بیان سے زیادہ کچھ بھی طے نہ کر سکے۔ظاہر ہے کہ مسلم ذہن جو عالم اسلام کے حکمرانوں سے برگشتہ اور برانگیختہ حالت میں ہے، مگر اسے مختلف قسم کی روایتی اور غیر روایتی تعبیرات میں الجھا کر گمراہ کن طریقے سے ایک مسیحائی انتظار کی رومانوی فضا میں رکھا گیا ہے۔اس ذہن کو اپنے آپ سے لڑتے ہوئے خود ہی تسلی وتشفی کا ایک سامان کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ قطر میں دوحہ کانفرنس سے مایوس مسلم ذہن نے اس کے ٹھیک دو روز بعد 17ستمبر کو پاکستان سعودیہ کے ”اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ ” معاہدہ کو اسرائیل کے خلاف سمجھ کر قبول کر لیا۔ اور اس کی مختلف تعبیرات پیش کرنا شروع کردیں۔ یہاں تک کہ جمعة المبارک کے اجتماعات کو اس معاہدے کی تقدیس بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حیرت ہے کہ بلاول بھٹو کی زبان سے بھی حرمین شریفین کا ذکر ہوا اور اصحابِ منبر و محراب اور صاحبان ِجبہ و دستار نے بھی اس کی تعبیر کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے۔ سرکاری ہینڈلرز بھی اسی کا ابلاغ کر رہے تھے تو اسلامی انقلاب کے علمبرداران کی زبانوں سے بھی یہی” زمزم ”بہہ رہا تھا۔ایسی زبردست ہم آہنگی میںاس سوال پر کسی نے غور تک نہیں کیا کہ کیا سعودی عرب ، اسرائیل کو ایک دشمن ریاست سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ کیا سعودی عرب کے نزدیک اسرائیل اس کے لیے کوئی خطرہ بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال کوئی عجیب نہیں، قرین حقیقت ہے۔اس کا جواب اگلی تحریر میںڈھونڈیں گے۔ بس یہاں یہ یاد رکھیں کہ اس کے جواب سے ہی معاہدے کے گرد بُنے گئے بیانئے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • چوکیدار  
  • جارجیا میں 18 لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا دریافت
  • جیورجیا میں 18 لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا دریافت
  • معاہدہ اور رومانوی دنیا!
  • عمران خان کی ایکس پوسٹس غیرقانونی قرار دینے کےلیے درخواست دائر
  • بجٹ خسارے کی کہانی
  • امریکا میں ورک ویزا کے خواہشمندوں کےلیے بڑا جھٹکا، فیس میں بھاری اضافہ
  • سیرت طیبہؐ انسانوں سے محبت سکھاتی ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • سبز مستقبل کی بنیاد: پنجاب نے بچوں کےلیے ماحولیاتی کہانیوں کی کتاب متعارف کرادی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟