قدرت انسانوں سے انتقام لے رہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
موجودہ صدی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کس طرح انسانوں سے انتقام لے رہی ہے اور ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کا جواب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
موجودہ دور میں جتنے بھی مذاہب اس زمین پر موجود ہیں سب کا ماننا ہے کہ مرنے کے بعد اُنہوں نے آسمان پر جانا ہے اور وہاں اُنہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا، کیونکہ ہر مذہب نجات کی بات کرتا ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو نجات کا دعویدار قرار دیتا ہے۔ گو کہ وہ اُنہیں اپنے اعمال بہتر بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ ہر قسم کی برائیوں سے بھی باز رہنے کی بات کرتا ہے۔ دُنیا بھر کے انسانوں سے پیار بانٹنے اور معاف کرنے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اپنے پڑوسی کو برابر کے حقوق دینے کی بات بھی کرتا ہے۔ اس دنیا کوخوبصورت اور خوشحال بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ قدرت کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی بات بھی کرتا ہے اور قدرت کو خوبصورت بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔
لیکن دنیا بھر کے تمام مذاہب کے پیروکاروں نے شاید صرف ایک ہی بات سنی ہے کہ انہیں ان کا مذہب جنت کا ٹکٹ دے دے گا، اس لیے انہیں باقی چیزوں پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے اعمال کو بہتر بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس دنیا کو جہاں وہ خود رہتے ہیں پرامن اور خوشحال بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں کہ قدرت کی خوبصورتی اور دلکشی کو برقرار رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب انسان نے خدا کی بنائی ہوئی قدرت اور فطرت کو اُس کی اصل شکل میں رہنے کے بجائے اُسے خراب کرنے کی کوشش کی تو پھر قدرت نے بھی انسانوں سے انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ جس کا ثبوت ہمیں سونامی کی شکل میں، زلزلوں کی شکل میں، ہر سال طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں، کبھی جنگلوں میں نہ بجھنے والی آگ کی صورت میں، کبھی موسموں کی شدت کی شکل میں ہمیں نظر آرہا ہے اور انسان ہر روز اس کا بھیانک تجربہ کررہا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اپنی روش سے باز نہیں آرہا۔
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے طاقتور انسانوں نے کمزور کو مغلوب بنانے کےلیے انسانیت کی حد درجہ تذلیل کی ہے اور ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ دو عالمی جنگ میں کروڑوں لوگ بے دردی سے قتل کردیے گئے۔ قدرت کی حسین وادیوں، سمندروں، دریاؤں، ندی نالوں کو خون سے نہلا دیا گیا۔ منوں ٹنوں کے حساب سے گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ محض کچھ دیر کےلیے یہ سلسلہ رکا تو سہی۔ کچھ اداروں کا وجود بھی عمل میں لایا گیا کہ انسانوں سے عالمی جنگوں جیسی غلطی تیسری بار نہ دہرائی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنے آپ کو محفوظ بنانے کےلیے اور دوسروں سے طاقتور بننے کےلیے ڈھیروں ڈھیر اسلحہ بھی بناتا رہا۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ وہ اس اسلحے کے ڈھیر میں خود کو چھپا کو محفوظ ہو جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ نہ صرف اسلحہ بنانے والا خود اور اُس کے ارد گرد کے پڑوسی بھی اُس سے غیر محفوظ ہوگئے۔
حیرت کی بات ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے مختلف اعلامیے پڑوسیوں سے اچھے سلوک کی بات کرتے ہیں اور مذہب بھی اپنے پیروکاروں کو یہی ترغیب دیتا ہے لیکن زمین پر بسنے والے انسانوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، کیونکہ وہ طاقت کے نشے میں بدمست سب سے پہلے اپنے پڑوسی ملک کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپ دنیا میں بیشتر جنگیں دیکھیں وہ آپ کو پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی نظر آئیں گی، چاہے وہ اسرائیل فلسطین کی جنگ ہو، اسرائیل ایران کی جنگ ہو، پاکستان انڈیا کی جنگ ہو، آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ ہو، عراق اور ایران کی جنگ ہو، جرمنی پولینڈ کی جنگ ہو، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ ہو اور انڈیا اور چین کی جنگ ہو۔ یہ تمام جنگیں پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں۔ ماضی میں جب کبھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا تھا تو آسمان روتا تھا اور سرخ ہوجاتا تھا، جسے دیکھ کر ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دنیا میں کوئی بے گناہ قتل ہوا ہے۔ لیکن شاید اب انسانوں کی سنگدلی دیکھتے ہوئے آسمان نے بھی رونا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے اب اُس طرح کبھی آسمان سرخ ہوا ہی نہیں۔
حال ہی میں آنے والی خبر جسے پڑھ کر دل بہت دکھی ہوا کہ غذائی قلت کے باعث غزہ میں سیکڑوں انسان جن میں بزرگ، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں وہ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور خبر نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا کہ انڈیا میں میانمار کے روہنگیائی قوم کے پناہ گزینوں کو سمندر غرق کردیا گیا۔ انسان اتنا بے رحم اور سفاک کیسے ہوسکتا ہے؟ انسانوں کے اس رویے کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ فرعون، نمرود ، ہلاکو خان، چنگیز خان ، ہٹلر، مسولینی کی روح موجود دور کے سفاک رہنماؤں کی صورت میں ابھی بھی موجود ہے۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ ان جنگوں سے انسان تو لقمہ اجل بنے ہی ہیں قدرت اور فطرت کو بھی خاصا نقصان پہنچا ہے۔ کھیت کھلیان، چراگاہیں، جنگل، سمندر، دریا، آب و ہوا، حتیٰ کہ پہاڑوں تک اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں ہونے والی تغیراتی تبدیلیاں، موسموں کی شدت اور بارشوں کے لامتناہی سلسلے نے انسانوں کےلیے زمین پر رہنا مشکل کردیا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی ریاست ٹیکساس میں آنے والے سیلاب نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اگر امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کے سسٹم کے باوجود وہاں انسان متاثر ہوسکتے ہیں تو ہمارے جیسے ملک میں جہاں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے سسٹم کو چرا لیا جائے (کچھ ماہ قبل نالہ لئی راولپنڈی ممیں یہ واقع ہوا تھا) تو وہاں قدرت کیا غضب ڈھا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہمیں مل چکا ہے اور شاید ابھی تک مل رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بارشوں نے رواں برس قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ ڈھائی سو کے قریب انسان تاحال لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ان بے سرو سامان خاندانوں کو آسرا فراہم کرسکے۔ انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ عوام خوفزدہ ہیں اور بارش کو رحمت کے بجائے زحمت قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر کی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی تباہی کے پیش نظر اپنے ملکوں میں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں، جس میں سب سے اہم جنگلات کا اُگانا ہے، کیونکہ سیلابوں کو روکنے کےلیے جنگلات بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کچھ منصوبہ بندی تو کی گئی ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ پوش سوسائٹیوں کے نام پر جنگلات اور دیہی سرسبز زمینوں کو سوسائٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اُس کے نتیجے میں ملک بھر کے شہر موسمیاتی تغیراتی تبدیلوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
سادہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک بھر میں ایمرجنسی کی صورت میں بھی نو دولتیے سیر و سیاحت کے شغل میں مصروف ہوکر اُن علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جنہیں حکومت نے ڈینجر زون قرار دے رکھا ہے۔ اب جو لوگ وہاں مقیم ہیں اور شاید اُن کےلیے ممکن نہیں کہ وہ وہاں سے انخلا کرسکیں لیکن میدانی علاقوں کے لوگ جانے کیوں ایڈونچر کے چکر میں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔
اس ضمن میں حکومت سے گزارش ہے کہ اُن علاقوں میں جانے والے لوگوں پر سختی کی جائے اور مستقبل میں مون سون میں پہلے ہی سے پابندی عائد کر دی جائے کہ اُن علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو وہاں مقامی لوگ ہیں اور اُن کے انخلا ممکن نہیں تو اُن کو ہر ممکن سہولت دی جائے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
ملک میں شجر کاری کےلیے کسی ایک محکمے کو ہی ذمے داری نہ دی جائے بلکہ شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں ہر شخص پر لازم کیا جائے کہ وہ نہ صرف درخت لگائے بلکہ اُس کے پروان چڑھانے تک اُس کا ذمے دار ہو۔ ایسا سختی سے نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کو اپنا فرض سمجھنا ہوگا کہ وہ انسانیت کو بچانے کےلیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ ہم نے کون سا اُس درخت کی چھاؤں میں بیٹھنا ہے بلکہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ جن درختوں کی چھاؤں سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بھی ہمارے جیسے کسی انسان نے لگائے تھے۔ ندی، نالوں، دریاؤں اور سمندروں کو صاف رکھنے کےلیے ہمیں سنجید ہ پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے اور کس طرح قدرت اور فطرت کو اپنی اصل شکل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دنیا بھر کے انسانوں کو جنگی جنون کے بجائے انسانیت کو بچانے کےلیے تگ و دو کرنی چاہیے کیونکہ خیال کیا جائے کہ ہمارے پڑوسی کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے تو کہیں وہ آگ ہمارے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ اسلحہ بنانے اور بیچنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں جنت کا ٹکٹ حاصل کرنے کےلیے اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرکے جنت نہیں ملنی بلکہ انسانیت کو بچا کر ہی شاید وہ اس دنیا کو جنت بناسکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قدرت، فطرت کے مظاہر سے لطف اندوز ہوں اور انہیں نقصان پہنچانے کے بجائے اس کو خوبصورت اور پرامن بنانے کےلیے ہر ممکن جدوجہد کریں تو شاید ہوسکتا ہے کہ قدرت کو بھی انسانوں پر رحم آجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی بات بھی کرتا ہے کوئی ضرورت نہیں کی شکل میں کی جنگ ہو کے بجائے دنیا بھر ہیں اور جائے کہ ملک میں نے والے رہے ہیں نے والی قدرت کی دنیا کو کرنے کی کہ وہ ا رہی ہے ہے اور کر رہی بھر کے ہیں کہ شاید ا اپنے ا
پڑھیں:
آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔
تحریر: روشین عاقب
کسی بیٹی کے لیے اپنے جان سے عزیز والد کی جدائی سہنا اور پھر اس کرب و صدمے کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہے جسے بیان کرنے کے لیے کسی بھی زبان میں کوئی مکمل لغت موجود نہیں۔ وہ دکھ جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جائے، اسے کاغذ پر اتارنا ممکن نہیں۔
پاپا کی ذات ایک انجمن تھی۔ اتنے پہلو، اتنے رنگ کہ اگر ہر پہلو پر الگ سے لکھا جائے تو دفتر درکار ہوں۔ وہ ایک بے مثل انسان، صاحبِ طرز تخلیق کار، بہترین دوست اور بے پناہ محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے۔ بچپن میں ہمیں شاید اس نسبت کا احساس نہ تھا مگر جیسے جیسے شعور کی آنکھ کھلی، یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ ہم ایک غیرمعمولی انسان کی اولاد ہیں وہ جو انسانیت کا کامل نمونہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’’بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے‘‘ امجد اسلام امجد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے
اگر ان کی تخلیقات کی بات کی جائے تو نظم، نثر، کالم، ڈراما، سفرنامہ، تنقید۔ ادب کی ہر صنف میں ان کا کام گویا موتیوں میں تولنے لائق ہے۔ ان کی تحریریں سچائی اور بے ساختگی کا ایسا آئینہ تھیں کہ پڑھنے والا خود کو ان میں موجود پاتا۔
اور یہی سچائی اور صاف گوئی ان کی ہر تحریر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ان کے ڈرامے اٹھائیے، کردارنگاری کا مطالعہ کیجیے، ہر کردار زمینی ہے، ہمارے آس پاس کا ۔۔۔ ہماری ہی باتیں کرتا ہے ہمارے ہی مسائل بیان کرتا ہے ہماری ہی زبان بولتا ہے ہم ان سب کرداروں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہم خود ہیں۔
شاعری میں ان کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ خواب، بارش، سمندر، وقت اور محبت جیسے استعارے ان کے قلم سے ایک نئی جہت پاتے۔ ان کی نظم ’محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے‘ ایک ابدی خوشبو کی طرح دل میں اترتی ہے، اور ’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘ جیسی نظمیں تلخ حقیقتوں کو اس انداز میں بیان کرتی ہیں کہ قاری تادیر سوچتا رہ جائے۔
مگر کسی بھی شخصیت کی اصل عظمت اس کی تخلیقات سے زیادہ اس کے کردار میں ہوتی ہے۔ اور اگر یہ میزان ہو، تو پاپا اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے ان سے بڑھ کر شفاف دل، درگزر کرنے والا اور خالص انسان کوئی نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’اپنی نیکی کبھی یاد نہیں رکھنی اور دوسرے کی کبھی بھولنی نہیں‘۔
اور یہ محض زبان سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ خود مجسم مثال تھے۔
مزید پڑھیے: محبتوں کے شاعر امجد اسلام امجد ہمیں چھوڑ گئے
اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کر جاتا تو وہ نہ صرف اسے معاف کر دیتے بلکہ معاف کرتے ہی فوراً بھول جاتے تھے۔ دوبارہ ذکر آتا تو اس شخص کی طرف سے وکیل بن کر اس کا دفاع کرتے۔ ان کے لیے سب سے مشکل کام کسی کو تکلیف میں دیکھنا تھا۔ وہ تو دوسروں کا دکھ بانٹتے کے عادی تھے۔ کوئی بھی دنیاوی نقصان ان کے لیے کبھی صدمہ نہ بنا۔ ان کا اپنا مصرع تھا:
’وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا‘
اور یہ فقط ایک مصرعہ نہیں بلکہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔
انہوں نے زندگی بھر ہماری آسائش کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، سب کے لیے وہ ایک سایہ دار شجر تھے۔ اگر کسی نے ان کے سامنے اپنی پریشانی ظاہر کر دی تو وہ خود بھول جائے تو بھول جائے لیکن پاپا سکون سے نہ بیٹھتے جب تک اسے حل نہ کر لیں۔
وہ شوہر کیسے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد میری ماما ایک برس بھی جی نہیں پائیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائیں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت کرنے والا، ہر مشکل میں ان کی ڈھال بن جانے والا اور ان کی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہونے والا شخص انہیں کیسے چھوڑ گیا۔ اسی بے یقینی میں وہ بھی رخصت ہو گئیں۔ میں سوچتی ہوں پاپا نے بھی یہ ایک سال ماما کے بغیر نہ جانے کیسے گزارا ہوگا تب ہی تو انہیں فوراً بلوا لیا۔۔۔
مزید پڑھیں: معروف شاعر امجد اسلام امجد مرحوم کی اہلیہ بیگم فردوس امجد چل بسیں
پاپا نے پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ انہیں عادت ہی نہیں تھی کہ کوئی ان کے لیے بھی کچھ کرے۔ وہی سب کی فکر کیا کرتے تھے اسی لیے جاتے ہوئے بھی چپکے سے نیند میں چلے گئے۔
وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسی روشنی تھے جو اب بھی دل کے نہاں خانوں میں جلتی رہتی ہے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوتی۔
(امجد اسلام امجد کی صاحبزادی روشین عاقب کی خصوصی تحریر جس کو ایکسپریس نے چھاپا)
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وی نیوز کا آفیشل ویب ڈیسک اکاؤنٹ
امجد اسلام امجد بیگم فردوس روشین عاقب