مزید نااہلیاں۔۔۔۔ معاملہ کہاں رُکے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز9 مئی کے مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا یافتہ 9 ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے دیا، جن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن رہنما بھی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے الیکشن کمیشن کی اس کارروائی کو‘‘نااہلیوں کی مہم’’ قرار دیا، اور کہا کہ دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں درجن سے زائد ارکان کو برطرف کیا جا چکا ہے۔نااہل قرار دیے گئے 9 میں سے ایک تہائی ارکان کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ان کی نااہلی کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی نشستیں خالی قرار دے دی گئیں، جن پر ضمنی انتخابات متوقع ہیں ۔ گزشتہ ہفتے، فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 ؍مئی کے فسادات میں ملوث ہونے پر 108 افراد کو 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ ہنگامہ آرائی سابق وزیر اعظم عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد شروع ہوئی تھی۔سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے اس کارروائی کو ‘‘نااہلی کی مہم’’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص پی ٹی آئی ارکان کے خلاف غیرقانونی اقدامات کی حالیہ لہرکسی عدالتی فیصلے یا قانونی طریقہ کار کے بغیر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات الیکشن کمیشن کی جو کہ ایک غیرجانبدار انتخابی ادارہ ہونا چاہیے ،اختیارات سے تجاوز کی عکاسی کرتے ہیں، اصولی طور پر الیکشن کمیشن ایک انتخابی ادارہ ہے۔
کوئی ٹرائل یا اپیلٹ کورٹ نہیں ہے۔بیرسٹر ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 10A کے تحت دیے گئے منصفانہ ٹرائل کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے مطابق، آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت نااہلی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کسی شخص کو اخلاقی بددیانتی کے جرم میں 2سال سے زائد قید کی سزا دی گئی ہو۔انہوں نے واضح کیا کہ سزا حتمی ہونی چاہیے، یعنی اگر کسی اعلیٰ عدالت میں اپیل زیر التوا ہو تو سزا کو حتمی نہیں سمجھا جا سکتا۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے نواز شریف بنام الیکشن کمیشن (2018) کیس کا حوالہ دیا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت نااہلی کے لیے سزا کا حتمی ہونا ضروری ہے۔بیرسٹر ظفر کے مطابق، اگر الیکشن کمیشن ایسے افراد کو نااہل قرار دینا شروع کر دے جن کی سزائیں ابھی حتمی نہیں یا جن کے خلاف صرف ایف آئی آر یا تحقیقات جاری ہیں، تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس نااہلی کا تعین کرنے کا اصلی دائرہ اختیار نہیں ہے یہ ایک انتظامی/نیم عدالتی ادارہ ہے جو صرف کسی حتمی سزا یا عدالتی اعلامیے کے بعد ہی کارروائی کر سکتا ہے۔ زیر سماعت مقدمات میں سیاستدانوں کو نشانہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کا استعمال جمہوری نظام اور عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچا رہا ہے اور عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔سینیٹر کے مطابق،‘‘قانونی ڈھانچہ، سپریم کورٹ کی آئینی تشریحات، اور قدرتی انصاف کے اصول اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سزا حتمی ہو (یعنی تمام اپیلیں مکمل ہو چکی ہوں) آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت نااہلی عدالتی اعلامیے کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے۔الیکشن کمیشن ان 9 ارکان سے قبل بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر، ایم این اے عبد اللطیف (چترال)، سینیٹر اعجاز چوہدری اور ایم این اے محمد احمد چٹھہ کو جولائی کے آخری ہفتے میں نااہل قرار دے چکا ہے۔ 15 جولائی کو جمشید دستی کو بھی ‘‘جعلی تعلیمی اسناد’’کے باعث نااہل کیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن نے ان کی نااہلی کے بعد خالی نشست پر ضمنی انتخاب کے لیے شیڈول جاری کیا تھا، لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ حکم کے بعد اسے معطل کر دیا گیا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ30 جولائی 2025 کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں، این اے-175 مظفر گڑھ-1 میں ضمنی انتخاب کا جاری کردہ شیڈول معطل کیا جاتا ہے، جب تک کہ معزز عدالت مزید احکامات جاری نہ کرے۔
اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ9مئی کے افسوسناک واقعات کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ازبس ضروری تھا۔ عوام بھی پورا سچ جاننا چاہتے تھے اور ہیں بھی مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حقائق جانتے ہوئے بھی منصوبہ سازوں اور کرداروں کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرکے ہر 2 کو نہ صرف سنبھلنے کا موقع دیا گیا بلکہ اس عرصہ کے دوران ان منصوبہ سازوں اور کرداروں کے جو ہمدرد مختلف اداروں میں موجود ہیں انہیں بھی ذاتی پسندوناپسند کے مظاہرے کا آزادانہ موقع ملا۔ اب یہ کہنا کہ شفاف عدالتی کارروائی تک ملک سازشی عناصر کے ہاتھوں یرغمال رہے گا، بہت عجیب بات لگتی ہے۔ عوام حکومت اور الیکشن کمیشن کے معزز اراکان سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ2برس میں شفاف عدالتی کارروائی میں رکاوٹ کون بنا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اداروں کے اندر ہوتی پسند و ناپسند کی لڑائی نے جھوٹ سچ سب گڈمڈ کردیا ہے اور اس ہنگامہ آرائی کے منصوبہ ساز کرداروں کو ہیرو بناکر پیش کیا جارہا ہے؟ بہرطور یہ ایک رائے ہے اور اس سے آنکھیں چرانا غلط ہوگا۔اس ملک کے انصاف پسند عوام کے نزدیک اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا9 مئی کے واقعات محض عمران خان کی گرفتاری پر ان کے حامیوں کے ردعمل کا نتیجہ تھے یا پھر یہ واقعات ایک منصوبہ کے تحت کرائی گئی گرفتاری کا نتیجہ؟ منصوبہ پی ٹی آئی کا تھا یا جیسا کہ زبان زدعام ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ان سابقین کا تھا جن کا خیال تھا کہ اداروں میں موجود ہمارے شاگرد جونیئرز اور عزیز تبدیلی کے عمل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہاں ایک اہم اور چبھتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ کیا9 مئی محض سیاسی نظام کے پسندیدہ و ناپسندیدہ کرداروں کی حمایت یا مخالفت کا ‘‘پانی پت’’ تھا یا بنیادی طور پر یہ ملکی اداروں کے اندر بعض منصبوں پر ہونے والی تقرریوں کو قبول نہ کرنے کے جذبات کا عملی مظاہرہ اور یہ کہ اس مظاہرے کیلئے کانوں کی کچی زود رنج اور بدلے کی آگ میں گردن تک دھنسی پی ٹی آئی کی قیادت استعمال ہوگئی؟ یہ بات ریکارڈ پر ہے اور تمام بڑے اخبارات اور چینلز پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا یہ مطالبہ بار بار نشراور شائع ہوتارہاہے جس میں انھوں نے9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز تواتر کیساتھ پیش کی تھی، معاملات کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کا یہ مطالبہ صرف عمران خان کی جانب سے نہیں کیاگیا بلک مختلف الخیال حلقوں سے بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ سامنے آتا رہا۔ اگر اس معاملے میح حکومت اور اسٹبلشمنٹ کا دامن صاف ہوتا اور اس سلسلے میں قائم کئے گئے مقدمات کا مقصد عوام کی ایک حقیقی مقبول پارٹی کو منظر سے ہٹانا نہ ہوتا تو حکومت کو یہ مطالبہ اسی وقت تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور معاملات و رجحانات کو اسی وقت سمجھ لیا جانا چاہیے تھا جب ملکی نظام انصاف نے بعض معاملات پر حکم امتناعی جاری کئے کچھ اقدامات کو رد کردیا اور چند پر ایسے سوالات اٹھادیئے جو قانونی کم اور سیاسی زیادہ تھے۔ اندریں حالات یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آخری غلطی کے ذمہ داروں منصوبہ سازوں اور کرداروں کیخلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ9 مئی کے ‘‘پانی پت’’کیلئے منصوبہ سازی کرنے والوں اور سہولت کاری کرنیوالوں ہر دو طرح کے کرداروں کو بھی بے نقاب کرنا چاہئے تھا۔ اس کے بغیر پروپیگنڈے کی دنیا میں ففتھ جنریشن وار کے تربیت یافتگان کیلئے یہ ثابت کرنا بہت آسان ہوگا کہ انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ غور طلب امر یہی ہے کہ یہ انتقامی کارروائیوں والے پروپیگنڈے کو دوام کیوں مل رہاہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں اولاً منصوبہ سازوں اور کرداروں کیلئے اداروں کے اندر سے ہمدردی اور سہولت کاری ثانیاً ایف آئی آرز میں نامزد افراد کے ساتھ نامعلوم افراد کے لفظ کی بدولت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پولیس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے ایک طرف تو9مئی کو اپنے لئے منفعت بخش بنایا دوسری جانب تعداد پوری کرنے کے چکر میں سینکڑوں ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کرلیا جو تحریک انصاف اور عمران خان سے جذباتی لگاؤ تو رکھتے تھے مگر پرتشدد مظاہروں میں شریک نہیں تھے۔ اسی طرح یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ9 مئی کے مقدمات میں نامزد بعض افراد چند ماہ یا سال بھر تک پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی نگاہوں سے اوجھل رہے یا اوجھل سمجھے گئے دونوں صورتیں اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن ہی نہیں تھیں یا پھر کھلے دل سے اس امر کا اعتراف کرلیا جانا چاہیے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں مطلوب افراد کو تلاش و گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔
یہ بات آسانی سے سمجھ آنے والی ہے کہ اس طرح کا اعتراف خود سیکورٹی نظام کی خامیوں کو لوگوں کے سامنے لے آئے گا۔یہ بات واضح ہے کہ اداروں کے اندر پسندوناپسند اور سہولت کاری کے جذبات رکھنے والے افراد (وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں)کا احتساب کئے بغیر نہ تو9 مئی کے حقیقی منصوبہ ساز اور کردار بے نقاب ہوں گے نہ نظام ہائے مملکت اور سیاسی عمل سے کھلواڑ کرنے والے منطقی انجام تک پہنچائے جاسکیں گے۔ قانون کی بالادستی، انصاف ہوتا ہوادکھائی دے اور معاملات سیدھے سبھاؤ آگے بڑھیں یہ تینوں چیزیں اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر سطح پر سہولت کاری کی حوصلہ شکنی کی جائے جوکہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دستور و قانون کی حاکمیت اور سیاسی استحکام سے زیادہ ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اس سوچ کے خاتمے کیلئے کچھ کیا جائے کیونکہ جب تک یہ سوچ موجود ہے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور کیفر کردار تک پہنچانا جاگتی آنکھ کے خوابوں جیسا ہی ہوگا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اس کیساتھ ساتھ یہ بات بھی بطور خاص سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ادارے پسندوناپسند اور سہولت کاری کے کھیلوں سے خود کو الگ کر کے دستور کے مطابق نظام اور سیاسی عمل کو نہیں چلنے دیتے اس وقت تک یہ ملک ایک تماشا گاہ تو رہے گا ایک ایسی قومی جمہوری فلاحی ریاست نہیں بن سکے گا جو25 کروڑ افراد کو مثالی ماحول، سہولتیں، انصاف اور مساوات پر مبنی نظام فراہم کرسکے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ طاقت و اختیارات کے مراکز میں بیٹھے لوگ ان معروضات پر غور کرنے کیلئے کچھ وقت نکال لیں تاکہ مستقبل کے بحرانوں، انہونیوں اور تباہی سے بچا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: منصوبہ سازوں اور کرداروں الیکشن کمیشن کی اداروں کے اندر اور سہولت کاری کرداروں کو نااہل قرار اور سیاسی پی ٹی آئی افراد کو انہوں نے کے مطابق انصاف کے کے بغیر نہیں کہ کے بعد یہ بات مئی کے ہے اور کے تحت ہیں کہ اور اس کہا کہ
پڑھیں:
نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، الیکشن کمیشن کیخلاف عدالت جاوں گی، سینیٹر مشال یوسفزئی
نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، الیکشن کمیشن کیخلاف عدالت جاوں گی، سینیٹر مشال یوسفزئی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز
پشاور(سب نیوز)سینیٹر مشال یوسفزئی نے الیکشن کمیشن کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق31جولائی کو ثانیہ نشتر کی خالی نشست پر سینٹ کا الیکشن ہوا، کئی دن گزر جانے کے باوجود تاحال مشال یوسفزئی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا ہے۔نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے تاحال حلف برداری بھی نہ ہوسکی، خیبرپختونخوا سے باقی منتخب سینیٹرز کی حلف برداری کچھ ہی دن کے اندر ہوگئی تھی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشال یوسفزئی نے کہا کہ 7 دن گزر گئے تاحال نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، ابھی تک نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے حلف برداری کی تقریب منعقد نہیں ہوئی ہے۔مشال یوسفزئی نے کہا کہ امید ہے آنے والے کچھ دنوں میں نوٹیفکیشن جاری ہو جائے، علم نہیں کس وجہ سے الیکشن کمیشن نے میری بطور سینٹیر نامزدگی کا نوٹیفکیشن نہیں کیا۔
ترجمان الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا سہیل خان نے کہا کہ مشال یوسفزئی کی تمام ضروری دستاویزات اسلام آباد الیکشن کمیشن کو بھیج دی ہیں، ہونا چاہیے تھا کہ ان کا نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا، توقع ہے آج یا کل نوٹیفکیشن ہو جائے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقیام امن کیلئے مشرق وسطی کے تمام ممالک ابراہم معاہدے میں شامل ہوں، ٹرمپ قیام امن کیلئے مشرق وسطی کے تمام ممالک ابراہم معاہدے میں شامل ہوں، ٹرمپ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران 7کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ آدھی سے زیادہ الیکشن پیٹیشنز ابھی تک زیر التوا ہیں، فافن کی رپورٹ وزیراعظم کا نئے مالی سال کے پہلے ہی ماہ برآمدات 2.7 ارب امریکی ڈالرز پہنچنے پر اظہار اطمینان چیئرمین سی ڈی اے سے اسلام آباد کے اراکین پارلیمنٹ کی ملاقات، اسلام آباد کے شہری اور دیہی علاقوں کے عوام کے مسائل کو... سی ڈی اے کا اسلام آباد کو تجاوزات سے پاک کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کو مزید تیز کرنے کا فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم