جموں و کشمیر کی 25 کتابوں پر پابندی کے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر کی تاریخ پر بات کرتے تھے، وہ اسے بھی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلٰی فاروق عبداللہ نے کہا کہ محمد علی جناح  کا خیال تھا کہ کشمیر ایک مسلم ریاست  ہے، یہ ان کے ساتھ چلے گا، جناح کا خیال تھا کہ کشمیر کہیں اور نہیں جائے گا۔ فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ اس وقت انگریزوں نے یہی کیا تھا، اگر کوئی ہندو بادشاہ ہے اور وہاں کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں تو عوام کی مرضی ہوگی کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں، جیسا کہ جوناگڑھ میں ہوا، جیسا حیدرآباد میں ہوا۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ ہاتھ ملانے والوں کا کیا حشر ہوا۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ آج لوگوں نے (جموں و کشمیر میں) حکومت کو منتخب کیا ہے لیکن طاقت کس کے پاس ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہے۔

جموں و کشمیر کی 25 کتابوں پر پابندی کے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر کی تاریخ پر بات کرتے تھے، وہ اسے بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بات دہلی میں ضیاء سلام اور آنند مشرا کی مشترکہ تحریر کردہ کتاب ’"دی لائین آف نوشہرہ" کی تقریب رونمائی میں کہی۔ واضح رہے کہ فاروق عبداللہ کی پارٹی مرکزی حکومت پر حملہ کر رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ فاروق عبداللہ نے 7 اگست کو انڈیا الائنس میٹنگ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فاروق عبداللہ نے نے کہا کہ کشمیر کی

پڑھیں:

بھارت: کشمیر میں پچیس کتابوں پر پابندی اور دکانوں پر چھاپے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد سے متنازعہ خطے میں پولیس کی جانب سے کتابوں کی دکانوں اور اشاعت خانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ مذکورہ کتابیں "پرجوش علیحدگی پسندی" کو ہوا دیتی ہیں۔

بھارتی حکومت نے جن مصنفین کی کتابوں کو ممنوع قرار دیا ہے، ان میں بھارت کی معروف ناول نگار اور بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے کے ساتھ ساتھ ماہرین تعلیم بھی شامل ہیں۔

حکومت نے ان پر بھارت کے خلاف "نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے" کا الزام لگایا ہے۔

بعض دیگر معروف دانشوروں کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے، جس میں بھارت کے معروف آئینی امور کے ماہر اے جی نورانی، سمنترا بوس کرسٹوفر سنیڈن اور وکٹوریہ شوفیلڈ جیسے نامور ماہرین تعلیم اور مورخ بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ہمیں اس بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟

پابندی سے متعلق احکامات کے مطابق ان مصنفین کی کتابوں کو فروخت کرنا، انہیں خریدنا یا اپنے پاس رکھنا اب ایسا جرم ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔

پابندی کا اعلان بدھ کے روز سامنے آیا تھا اور جمعرات کے روز سے کتب فروشوں کی دکانوں پر چھاپے کی کارروائی شروع ہوئی، تاکہ ایسی تمام کتابوں کو ضبط کیا جا سکے۔

پولیس نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، "آپریشن میں علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دینے یا دہشت گردی کو فروغ دینے والے مواد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امن اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔

"

پولیس نے بتایا کہ حکم کی تعمیل میں پولیس اہلکاروں نے جمعرات کو کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے، سڑک کے کنارے کتاب فروشوں اور مرکزی شہر سری نگر اور خطے کے متعدد مقامات پر ممنوعہ لٹریچر کو ضبط کرنے کے لیے اشاعت خانوں اور دیگر اداروں کی تلاشی لی۔"

اس سے قبل فروری میں بھی سری نگر سمیت کئی شہروں میں حکام نے اسی طرح کی ایک چھاپہ مار مہم شروع کی تھی اور اس وقت بھی گھروں اور دکانوں سے اسلامی لٹریچر سمیت کتابیں ضبط کی گئی تھیں۔

حکام نے پابندی پر کیا کہا؟

پابندی سے متعلق حکم نامے میں 25 کتابوں کو بھارت کے نئے ضابطہ فوجداری کے تحت "ضبط شدہ" قرار دیا گیا اور پورے متنازعہ خطے کشمیر ایسی کتابوں کی سرکولیشن، کسی کے پاس ہونے یا رسائی پر مؤثر طریقے سے پابندی لگا دی گئی۔

ایسی کتب رکھنا اب ایک جرم ہے، جس کے لیے تین سال، سات سال یا حتیٰ کہ عمر قید تک کی سزا کا خطرہ ہو سکتا۔

البتہ ابھی تک اس کے تحت کسی کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ہے۔

محکمہ داخلہ نے اپنے نوٹس میں کہا کہ "شناخت شدہ 25 کتابیں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی پائی گئی ہیں۔" اس میں کہا گیا کہ اس طرح کی کتابوں نے "نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور بھارتی ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

"

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی "جھوٹی داستانوں اور علیحدگی پسند لٹریچر کے منظم طریقے سے پھیلاؤ" کے بارے میں 'تحقیقات اور قابل اعتماد انٹیلیجنس' کے بعد کی گئی ہے۔"

کتابوں پر پابندی کی مذمت

کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بھارتی حکومت کے "عدم تحفظ اور محدود سمجھ بوجھ کو ظاہر کرتا ہے۔

" انہوں نے اس اور اس فیصلے کو "آمرانہ" بھی قرار دیا۔

میر واعظ عمر فاروق نے ایکس پر لکھا: "اسکالرز اور معروف مورخین کی کتابوں پر پابندی تاریخی حقائق کو نہیں مٹا سکتی۔"

مصنفہ سومنترا بوس، جو ایک سیاسی سائنسدان ہیں، کی کتاب "کشمیر ایٹ کراس روڈز" کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

بوس نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا "میں نے 1993 سے بہت سے دوسرے موضوعات کے علاوہ کشمیر پر بھی کام کیا ہے۔

پورے وقت میں، میرا بنیادی مقصد امن کے راستوں کی نشاندہی کرنا رہا ہے تاکہ تشدد کا پوری طرح خاتمہ ہو اور بھارت اور برصغیر میں تنازعہ والے علاقے کے لوگ خوف اور جنگ سے پاک ایک مستحکم مستقبل سے مجموعی طور لطف اندوز ہو سکیں۔"

انہوں نے کہا، "میں پرامن نقطہ نظر اور مسلح تنازعات کے حل کی پرعزم اور اصولی حامی ہوں، چاہے وہ کشمیر میں ہو یا دنیا میں کہیں بھی ہو۔

"

سن 2019 میں بھارت کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کشمیر میں گزشتہ برس پہلے اسمبلی انتخابات ہوئے۔ تاہم چونکہ مودی حکومت نے کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال نہیں کیا ہے، اس لیے بڑی حد تک وہاں ایک بے اختیار حکومت ہے۔ کشمیر سے متعلق تمام بڑے فیصلے دہلی کی حکومت کرتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کتابوں پر پابندی کا یہ حکم کشمیر پر مودی حکومت کی براہ راست حکمرانی کے چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کیا گیا۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • بھارتی عوام اور حکومت سے دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں پر اختلاف ہے، وزیر مملکت
  • پرتگال اسکینڈل کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں، مشیر اطلاعات وزیراعلیٰ کے پی
  • بزرگ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز شہید کی 17ویں برسی؛ کشمیریوں کا عزم، شہدا کا مشن جاری رکھنے کا اعلان
  • بھارت: کشمیر میں پچیس کتابوں پر پابندی اور دکانوں پر چھاپے
  • لاکھوں کشمیری قید‘ یاسین ملک ودیگر کی رہائی کیلئے مہم چلائی جائے، مشعال ملک
  • کسی قوم کی اصل طاقت اس کے عوام کے درمیان اتحاد میں پوشیدہ ہوتی ہے؛ احسن اقبال
  • کشمیر میں کتابوں پر پابندی عائد کرنے سے حقائق مٹ نہیں سکتے، میرواعظ عمر فاروق
  • بھارتی ریاست بہار کے الیکشن سے پتا چلے گا کہ بھارتی عوام کیا سوچتے ہیں، عبدالباسط
  • مودی اور نیتن یاہو کی پالیسیوں میں تشویشناک مماثلت ہے.عاصم افتخار