کوہلی اور روہت شرما کی مشکلات میں اضافہ، ون ڈے ورلڈ کپ کے دروازے بند؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
کراچی:
بھارتی کرکٹ لیجنڈز ویرات کوہلی اور روہت شرما کیلئے ون ڈے ورلڈ کپ کے دروازے بند ہونے کا امکان ہے۔
بھارتی اخبار "دینک جاگرن" کی رپورٹ کے مطابق ویرات اور روہت کیلئے 2027 ورلڈ کپ کیلئے ٹیم میں جگہ بنانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔
دونوں کھلاڑی چونکہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ نہیں کھیل رہے اس لیے آئندہ برسوں میں ان کا میچ ٹائم محدود رہے گا جو سلیکشن کمیٹی اور بی سی سی آئی حکام کے لیے خدشات پیدا کر رہا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر دونوں کھلاڑی اس سال دسمبر میں شروع ہونے والے وجے ہزارے ٹرافی (ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹ) میں حصہ نہیں لیتے تو ان کے لیے ورلڈ کپ کے دروازے کھلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بھارتی اخبار کے مطابق ٹیم مینجمنٹ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ویرات کوہلی اور روہت شرما ہمارے 2027 ورلڈ کپ پلانز میں شامل نہیں ہیں۔
مزید یہ کہ رپورٹ کے مطابق دونوں کھلاڑی انگلینڈ کے دورے کا حصہ بننا چاہتے تھے مگر سلیکٹرز نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کا انتخاب ممکن نہیں جس پر انہوں نے فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔
بھارت کی اگلی ون ڈے سیریز اکتوبر میں آسٹریلیا کے خلاف ہوگی اور امکان ہے کہ یہ سیریز ان کے کیریئر کا اختتام ثابت ہو کیونکہ اس مرحلے پر ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔
حالیہ انگلینڈ سیریز میں بھارت کے ٹیسٹ کپتان شبمن گل کی شاندار کارکردگی نے سلیکشن کمیٹی کا اعتماد مزید بڑھا دیا ہے اور کئی حلقے انہیں مستقبل میں بھارت کا آل فارمیٹ کپتان سمجھ رہے ہیں۔
نوجوان کھلاڑیوں کی شاندار انٹری کے بعد ممکن ہے کہ سلیکٹرز 2027 ورلڈ کپ کے لیے بھی انہی پر انحصار کریں۔
یوں جیسے ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ میں تبدیلی کا عمل مکمل ہو چکا ہے ویسے ہی ون ڈے کرکٹ میں بھی بڑی تبدیلی متوقع ہے جو ویرات کوہلی اور روہت شرما کے لیے صورتحال کو خاصا مشکل بنا رہی ہے۔
واضح رہے کہ ویرات کوہلی اور روہت شرما حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کش ہو چکے ہیں تاہم دونوں نے ابھی تک ون ڈے انٹرنیشنل فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کیا۔
بھارتی ٹیم نے ٹیسٹ اور ٹی 20 فارمیٹس میں ان بیٹنگ لیجنڈز کے بغیر آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے تاہم روہت اب بھی 50 اوورز کی ٹیم کے کپتان ہیں جبکہ ویرات کی اہمیت بھی برقرار ہے۔
دونوں کا ہدف 2027 کا ون ڈے ورلڈ کپ نظر آتا ہے لیکن انہوں نے اپنے مستقبل کے منصوبے پر کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ورلڈ کپ کے اور ٹی کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بدحالی، ورلڈ بینک کی رپورٹ سندھ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، منعم ظفر
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور کے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد، سرکلر ریلوے کو فی الفور بحال اور مکمل کیا جائے، وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن روزانہ جھوٹے دعوے اور اعلانات کرکے اہل کراچی کو بے وقوف بنا نا بند کریں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بدترین صورتحال پر ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ 17 سال سے مسلط پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، لاہور کی سڑکوں پر ای ٹرین چل رہی ہے اور کراچی کے عوام اور خواتین چنک چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں اور صوبائی وزراء آئے روز ڈبل ڈیکر بسوں کے اعلانات کرکے عوام کو لولی پاپ دے رہے ہیں، ریڈ لائن پروجیکٹ کے نام پر پورا یونیورسٹی روڈ کھدا پڑا ہے اور ہزاروں افراد روزانہ شدید ذہنی و جسمانی اذیت سے دو چار ہورہے ہیں، گرین لائن پروجیکٹ تقریبا 4 سال سے ادھورا چل رہا ہے، چند سو بسیں کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کی ضرورت کو کسی صورت پورا نہیں کرسکتیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کی ضرورت کے مطابق فوری طور پر 15 ہزار بسیں لائی جائیں، ادھورے گرین لائن پروجیکٹ کو فی الفور مکمل اور ریڈ لائن پروجیکٹ کی تکمیل یقینی بنائی جائے، نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور کے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد، سرکلر ریلوے کو فی الفور بحال اور مکمل کیا جائے، وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن روزانہ جھوٹے دعوے اور اعلانات کرکے اہل کراچی کو بے وقوف بنا نا بند کریں۔
منعم ظفر خان نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ شہر میں 2002ء سے آنے والی بسوں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے کہ یہ سڑکوں سے کیوں غائب ہوئیں، اس وقت کہاں ہیں اور انہیں غائب کرنے میں کون لوگ ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں کے سی آر کب شروع ہوگا؟ اس کے روٹ کب تک کلیئر ہونگے؟ ڈبل ڈیکر بسیں کب شہر میں آئیں گی؟، دعوے تو ڈبل ڈیکر بسوں کے کیے جارہے ہیں، مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ سنگل ڈیک بسیں بھی سڑکوں پر موجود نہیں، وزراء اور سیکریٹریز شہریوں کو سفری سہولتوں کی فراہمی کے اعلانات کرنے کے بعد اگلے اعلانات کی تیاری شروع کردیتے ہیں، چند ماہ قبل وزیر ٹرانسپورٹ نے 150 بسوں کے کراچی پہنچنے کا اعلان کیا تھا مگر چار ماہ کا عرصہ ہوگیا یہ بسیں کہیں نظر نہیں آرہیں، بہتر سفری سہولت اہل کراچی کے لیے خواب بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کمیٹیاں ٹھنڈے کمروں میں اعلان کرکے واپس چلی جاتی ہیں اور دوبارہ کبھی نہیں پوچھتیں کہ اجلاس کے منٹس پر کیا کاروائی ہوئی، اسی طرح صوبائی حکومت کے وزراء اور ذمہ داران کے اجلاس بھی TA,DA بنانے تک محدود ہوگئے ہیں، ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق شہر کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، شہر میں چلنے والی بیشتر بسیں خراب حالت میں ڈپوں پر کھڑی کردی گئیں ہیں، خود کے ایم سی گلشن اقبال میں موجود سٹی وارڈن کے دفتر میں متعدد بسیں خراب حالت میں کھڑی ہیں، اسی لیے انہیں سڑکوں پر نہیں لایا جارہا، اسی طرح گرین لائن اور ریڈ بسیں بھی چھوٹے موٹے پرزوں کی عدم موجودگی پر یہ بڑی تعداد میں کھڑی کردی گئیں ہیں اور جو بسیں چل رہی ہیں، مسافروں کی غیر معمولی تعداد کے باعث شہریوں بالخصوص خواتین اور بزرگوں کے لیے شدید اذیت ناک بنی ہوئی ہیں اور سندھ سرکار چین کی بانسری بجا رہی ہے۔