دوسرا ون ڈے: پاکستان کی ویسٹ انڈیز کیخلاف بیٹنگ جاری، بارش کے باعث میچ روک دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
دوسرے ون ڈے میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کیخلاف 2 وکٹوں پر 60 رنز بنالیے تاہم بارش کے باعث میچ کو روک دیا گیا۔میزبان ٹیم کی جانب سے بیٹنگ کی دعوت پر پاکستان کی جانب سے اننگز کا آغاز صائم ایوب اور عبداللہ شفیق نے کیا تاہم پہلے جوڑی زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکی اور عبداللہ شفیق 24 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے جبکہ دوسری وکٹ بابر اعظم کی گری جو بغیر کھاتہ کھولے پویلین لوٹ گئے۔عبداللہ شفیق 23 اور محمد رضوان 8 رنز کیساتھ کریز پر موجود ہیں جبکہ 16 اوورز مکمل ہونے پر میچ کو بارش کے باعث روک دیا گیا۔قبل ازیں ٹرینیڈاڈ کے برائن لارا کرکٹ سٹیڈیم میں ہونیوالے ون ڈے سیزیز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان شائے ہوپ نے ٹاس جیت کر مہمان ٹیم کے کپتان سلمان آغا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔واضح رہے کہ قومی ٹیم پہلے ون ڈے میں ویسٹ انڈیز کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر سیریزمیں 0-1 کی برتری حاصل کر چکی ہے اور آج کی فتح سے سیریز اپنے نام کرنے کی کوشش کرے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ویسٹ انڈیز
پڑھیں:
ملک میں سولر پینلز کے استعمال کا بڑھتا رجحان، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کر دیا
لاہور:پاکستان میں توانائی کے بحران اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کو متبادل ذرائع کی طرف راغب کیا ہے، جن میں سب سے نمایاں رجحان سولر انرجی ہے۔
گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب سے لے کر بڑے شمسی پارکس تک یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں طوفانی بارشیں، سیلاب اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اس نظام کو ایک نئے ماحولیاتی بحران میں بدل سکتے ہیں۔
ماہر ماحولیات اور پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق سولر پینلز اگر پانی میں ڈوب جائیں تو ان کے سلیکون خلیے اور فریم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ برقی کنکشن ناکارہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر بیٹریاں شارٹ سرکٹ یا آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں جب خراب ہوں تو زہریلے کیمیکلز مٹی اور زیر زمین پانی میں شامل ہو کر سانس، جلد، گردے اور جگر کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں لاکھوں سولر پینلز اور ہزاروں میگاواٹ گنجائش رکھنے والی بیٹریاں درآمد کیں چونکہ سولر پینلز کی اوسط عمر 20سے 25 سال اور بیٹریوں کی پانچ سے دس سال ہے، اس لیے آنے والے برسوں میں ان کے ناکارہ ہونے سے پیدا ہونے والا کچرا کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے انتظامی ڈھانچہ نہ بنایا گیا تو یہ بحران موجودہ الیکٹرانک کچرے (ای ویسٹ) کی طرح شدت اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ای ویسٹ کے دباؤ میں ہے۔ دی گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا چار لاکھ ٹن برقی آلات کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج شامل ہیں۔
پنجاب اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں پرانا سامان غیر رسمی کباڑ بازاروں میں پہنچ کر غیر محفوظ طریقوں سے تلف کیا جاتا ہے۔ ان بازاروں میں دھاتیں نکالنے کے لیے تیزاب اور آگ کا استعمال نہ صرف ماحول بلکہ مزدوروں اور بچوں کی صحت کے لیے بھی خطرناک ہے۔
سابق جیولوجسٹ ڈاکٹر نعیم مصطفی کے مطابق اس مسئلے کا ایک حل اربن مائننگ ہے، جس کے تحت شہروں میں پھینکے گئے پرانے آلات سے قیمتی دھاتیں جدید اور محفوظ طریقوں سے نکالی جا سکتی ہیں۔ ان کے بقول اگر یہ عمل منظم ہو تو معیشت کو فائدہ اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ فی الحال پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، تاہم اس پر کام جاری ہے اور جلد ایک مؤثر حکمت عملی متعارف کرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سولر تنصیبات کے لیے نئے حفاظتی معیارات وضع کیے گئے ہیں تاکہ پینلز بارش اور تیز ہوا کے اثرات برداشت کر سکیں، مگر ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
سولرپینلز کے امپورٹر میاں عبدالخالق کہتے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر سولر ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ری سائیکلنگ ڈھانچے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر توانائی کا یہ متبادل نظام اپنے ماحولیاتی فوائد کھو بیٹھے گا۔
ان کے مطابق ناکارہ پینلز اور بیٹریوں سے ایلومینیم، تانبا اور سلکان دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ری سائیکلنگ مراکز قائم کرنا ہوں گے، جنہیں ٹیکس مراعات دی جائیں تاکہ سرمایہ کار اس شعبے میں آئیں۔
ماحولیاتی وکیل التمش سعید کے مطابق یورپی یونین میں ویسٹ الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانک ایکوئپمنٹ ڈائریکٹو سختی سے نافذ ہے اور جاپان میں ری سائیکلنگ کے واضح قوانین موجود ہیں، مگر پاکستان میں اس حوالے سے ضابطہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بیسل کنونشن خطرناک کچرے کی سرحد پار منتقلی کو ریگولیٹ کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اس پر عمل درآمد کمزور ہے۔
ڈاکٹر سلمان طارق نے زور دیا کہ حکومت توسیعی ذمہ داری برائے سازندگان کے اصول کو اپنائے تاکہ کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے بعد از استعمال مرحلے کی ذمہ داری دی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوا تو نہ صرف ماحول محفوظ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ بصورت دیگر صاف توانائی کا خواب نئے ماحولیاتی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔