فیصل آباد: بچوں سے زیادتی کا ملزم مبینہ مقابلے میں ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
فائل فوٹو
فیصل آباد میں بچوں سے زیادتی کا ملزم مبینہ مقابلے میں مارا گیا، اس کے ساتھی فرار ہوگئے۔
سی سی ڈی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سی سی ڈی ٹیم ملزم کو برآمدگی کیلئے لے جا رہی تھی۔ ملزم کے ساتھی فائرنگ کرکے اسے حراست سےچھڑوا کر فرار ہوئے۔
فائرنگ کے تبادلے میں ملزم مارا گیا، جبکہ اس کے ساتھی فرار ہوگئے۔
ہلاک ہونے والا ملزم بچوں اور بچیوں سے زیادتی کرتا، نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرتا تھا۔
سی سی ڈی کے مطابق ملزم کے موبائل سےزیادتی کی متعدد ویڈیوز بھی برآمد ہوئی تھیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
قرآنی لفظ (أَبَقَ) سے آشنائی
اسلام ٹائمز: حضرت یونسؑ کا "فرار" دراصل قوم سے اعراض تھا، نہ کہ امرِ الہیٰ سے انحراف۔۔۔۔ یہ "فرار" گناہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ بلکہ مقامِ عبودیت کی لطافت کے لحاظ سے ایک ادنیٰ سی پیشقدمی تھی، لہذا۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے لفظ "أبق" کے انتخاب سے یہ حقیقت نمایاں کی کہ اللہ کے مقرب بندے اپنی بندگی کے سفر میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ معمولی سی "پیشقدمی" بھی ان کے لیے تادیبِ کا باعث بن جاتی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔ قربِ الہیٰ جتنا بڑھتا ہے، تادیبِ ربانی بھی اتنی ہی لطیف ہو جاتی ہے۔ اردو ترجمہ و ترتیب: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
"إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ" (الصافات: 140) "جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگے۔" لفظ "أَبَقَ" قرآنِ کریم میں حضرت یونسؑ کے واقعے میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ لغوی طور پر بغیر اجازت چلے جانے یا فرار کرنے کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ مصطفوی لکھتے ہیں: "الأبق والهرب مشتركان في الذهاب من غير استئذان،" یعنی "أبق" اور "هَرب" دونوں کا مفہوم کسی مقام سے بغیر اجازت نکل جانا ہے۔ "وفي الأبق" قيد آخر۔ البتہ لفظِ "أبق" میں ایک خصوصی قید ہے۔۔۔۔۔ "وهو الهرب قبل أن يتوجه إليه خوف أو شدة من سيده" "ابق" ایسے فرار کو کہتے ہیں، جو کسی خوف، سزا یا دباؤ کے ظاہر ہونے سے پہلے انجام پائے۔۔۔۔۔
یعنی لفظ "أبق" اس مورد میں استعمال ہوتا ہے، جہاں غلام اپنے مالک کے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرار ہو جائے۔۔۔۔۔۔ قرآن میں حضرت یونسؑ کے بارے میں لفظ "أَبَقَ" کا استعمال: نہ ہی گستاخی کے معنی میں ہے۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی معصیت و نافرمانی کے معنی میں۔۔۔۔ بلکہ یہ ایک تربیتی اشارہ ہے۔۔۔۔۔ کہ مقامِ عبودیت میں ذرا سی پیش قدمی یعنی (امرِ الہیٰ سے قبل اقدام) تنبیہ کا سبب بن سکتی ہے۔ علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: "اباق به معناى فرار كردن عبد از مولايش مى باشد۔" و مراد از فرار كردن او به طرف كشتى اين است كه او از بين قوم خود بيرون آمد و از آنان اعراض كرد. و آن جناب هر چند در اين عمل خود خدا را نافرمانی نكرد و قبلا هم خدا او را از چنين كارى نهى نكرده بود و ليكن اين عمل شباهتى تام به فرار يك خدمتگزار از خدمت مولى داشت، و به همين جهت خدای تعالی او را به کیفر اين عمل بگرفت۔ (تفسیر المیزان، ترجمہ فارسی، محمد باقر موسوی، جلد 17 ص 247)
کہ حضرت یونسؑ کا "فرار" دراصل قوم سے اعراض تھا، نہ کہ امرِ الہیٰ سے انحراف۔۔۔۔ یہ "فرار" گناہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ بلکہ مقامِ عبودیت کی لطافت کے لحاظ سے ایک ادنیٰ سی پیشقدمی تھی، لہذا۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے لفظ "أبق" کے انتخاب سے یہ حقیقت نمایاں کی کہ اللہ کے مقرب بندے اپنی بندگی کے سفر میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ معمولی سی "پیشقدمی" بھی ان کے لیے تادیبِ کا باعث بن جاتی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔ قربِ الہیٰ جتنا بڑھتا ہے، تادیبِ ربانی بھی اتنی ہی لطیف ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ:
التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، علامہ حسن مصطفوی، جلد 1، ص 27