شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں رہتی ہیں‘ ان کا گھر پہاڑی پر ہے‘ سامنے وادی میں انگوروں کے باغ اور وائنریز ہیں‘ وہ گھر سڑک کا آخری مکان ہے‘ شیلا نے باہر آ کر ہمارا استقبال کیا‘ میں ان کا پہلا پاکستانی مہمان تھا۔
ان کی عمر 75 سال ہو چکی ہے‘ یہ علیل بھی ہیں اور نحیف بھی‘ شیلا نے بتایا‘ امریکا کا آشرم اجڑنے کے بعد ہم سب دربدر ہو گئے‘ میں اپنے امریکن خاوند سلور مین کے ساتھ جرمنی آ گئی‘ وہاں بھی مقدمے بن گئے‘ سلور مین کا انتقال ہوا تو میں نے گرو کے شاگرد جان شیفلر سے شادی کر لی‘ وہ بھی فوت ہو گیا‘ مجھے اس دوران جیل ہو گئی۔
رہائی کے بعد میں نے برنسٹل (Birnstiel) سے شادی کر لی‘ وہ سوئس تھا‘ میں اس کے ساتھ سوئٹزر لینڈ آ گئی‘ بدقسمتی سے برنسٹل بھی انتقال کر گیاجس کے بعد میں نے بھارت‘ امریکا اور یورپ میں سارے اثاثے بیچے اور یہاں دو نرسنگ ہومز بنا لیے اور اب میں ان بوڑھوں اور معذوروں کی خدمت کرتی ہوں جنھیں ان کے اپنے بھی چھوڑ جاتے ہیں۔
شیلا نے اس کے بعد لطیف بھائی اور مجھے اپنے نرسنگ ہوم کا دورہ کرایا‘ اس کے دو نرسنگ ہومز میں 27 مریض ہیں‘ تمام مریض ذہنی امراض کا شکار ہیں اور انھیں اپنی سدھ بدھ نہیں تھی‘ شیلا اپنا نام بدل کر ماں آنند شیلا رکھ چکی ہیں لہٰذا زیادہ تر مریض انھیں ماں کہتے ہیں۔
وہ ایک اوپن ڈور نرسنگ ہوم تھا‘ مریضوں کے بیڈز کوریڈورز میں لگے تھے‘ کمروں کے دروازے بھی نہیں ہیں تاکہ مریض ایک دوسرے کو دیکھ سکیں‘ شیلا کے پاس 25 لوگوں کا اسٹاف ہے‘ کچن اوپن اور بہت خوب صورت ہے‘ نرسنگ ہوم سے پوری وادی نظر آتی ہے‘ مریض اور اسٹاف ٹیرس پر کھانا کھاتے ہیں‘ لان سے پھل بھی توڑتے ہیں۔
عمارت کی بیک سائیڈ پر شیشے کا ٹیرس تھا‘ چھت کھل جاتی تھی اور بند بھی ہو جاتی تھی‘ وہاں لمبی ڈائننگ ٹیبل تھی‘ شیلا نے ہمیں اس پر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گئی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ مریض متشدد ہو جاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ہاں کبھی کبھار لیکن ہمارے پاس ڈاکٹرز کا پینل ہے‘ ہم انھیں کال کر لیتے ہیں یا ایمبولینس میں انھیں اسپتال منتقل کر دیتے ہیں۔
میں نے پوچھا ’’کیا یہ یہاں ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں؟‘‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ سب ٹھیک ہیں‘ انسان کو بنیادی طور پر محبت چاہیے‘ محبت دنیا کا سب سے بڑا علاج ہے‘ ہم ان لوگوں کو وہ توجہ اور محبت دیتے ہیں جو انھیں ان کے اپنوں سے بھی نہیں ملتی لہٰذا یہ لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے‘ ہمارے مریض اپنے گھروں کے بجائے یہاں مرنا پسند کرتے ہیں‘ میرے یہ اسپیشل مہمان ہاتھوں میں ہاتھ رکھ کرچپ چاپ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں‘ وہ لمحہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کیوں کہ ایک ایسا زندہ شخص جس کے ساتھ ہم نے برسوں گزارے ہوں‘ وہ جب اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے کر کہتا ہے ماں میں جا رہا ہوں‘ میرا ہاتھ زور سے پکڑ لو تو آپ خود سوچیں آپ پر کیا گزرے گی؟
ان کا کہنا تھا ’’ میں مرتے ہوئے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ جاتی ہوں اور پھر آہستہ آہستہ اس ہاتھ کی گرفت اور حرارت مدہم پڑ جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’نرسنگ ہوم کا آئیڈیا آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟
ان کا جواب تھا ’’میں اپنے والدین کی خدمت نہیں کر سکی تھی‘ میرے والدین کو آپ جیسے لوگوں (صحافیوں) نے بڑی تکلیف دی‘ وہ بے چارے میرے بارے میں پڑھ پڑھ اور سن سن کر تکلیف میں رہے چناں چہ میں نے اپنی باقی زندگی ان لوگوں کے لیے وقف کر دی جنھیں کوئی سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
میں نے پوچھا ’’آپ نے یہ کام کب شروع کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں نے 2000کے شروع میں اپنے گھر میں تین مریضوں کے ساتھ یہ شروع کیا ‘ حکومت مجھے اجازت نہیں دے رہی تھی‘ مجھے اجازت کے لیے عدالتوں میں دھکے کھانا پڑے لیکن بہرحال میں کام یاب ہو گئی اور اب حکومت ہمیں امداد بھی دیتی ہے اور ہم پر فخر بھی کرتی ہے۔
میں نے پوچھا ’’آپ کے ساتھ اور کون کون ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں اور میری بہن نے اپنی زندگی ان کے لیے وقف کر رکھی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ان لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں‘‘ شیلا کے جواب نے مجھے حیران کر یا‘ ان کا کہنا تھا ’’محبت اور احساس سے بڑا کوئی ڈاکٹر‘ کوئی دوا نہیں ہوتی‘ یہ لوگ بھی انسان ہیں بس قدرت نے انھیں امتحان بنا کر ہمارے پاس بھجوا دیا۔
ان کے گرد موجود لوگ جب انھیں توجہ اور محبت نہیں دیتے تو یہ بیمار ہو جاتے ہیں لیکن یہ جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے حصے کی محبت بھی انھیں دیتے ہیں اور یوں یہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
وہ جب یہ بتا رہی تھیں تو ہماری میز پر بیٹھا بزرگ اٹھ کھڑا ہوا‘ وہ باہر سے چیری توڑ کر لایا تھا‘ ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور وہ مزے سے چیری کھا رہا تھا‘ وہ اٹھا تو اس کا ٹروزر ذرا سا نیچے کھسک گیا‘ شیلا اس کی طرف مڑی اور جرمن زبان میں بڑے پیار سے کہا اپنا ٹروزر ٹھیک کرلو‘ اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور فوراً اپنا پائجامہ اوپر کھسکا لیا۔
میرے سامنے ایک اور بزرگ بیٹھا تھا‘ اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا‘ وہ کھانا نہیں کھا پا رہا تھا‘ شیلا کی ایک ورکر اسے بڑے پیار سے کھانا کھلا رہی تھی‘ اس کے منہ سے لعاب گر رہا تھا مگر وہ اس کے ہونٹ رومال سے صاف کر کے اسے کھلا رہی تھی‘وہ اس سے باتیں بھی کر رہی تھی‘ مجھے وہ منظر بہت اچھا لگا۔
میں نے شیلا سے پوچھا ’’کیا یہ مریض کبھی اپنے گھر جاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ یہاں زیادہ مطمئن ہیں‘ یہ گھر جانے کی ضد نہیں کرتے ان کے عزیز رشتے دار بھی انھیں ہمارے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے‘‘ میرا دل بوجھل ہو گیا۔
شیلا نے اس کے بعد ہمیں پورے سینٹر کا وزٹ کرایا‘ وہ اوپن ڈور بلڈنگ تھی‘ مختلف کمرے تھے جن میں میڈیکل بیڈ لگے تھے‘ دو بڑی وارڈز تھیں لیکن ان میں بھی دو چار سے زیادہ بیڈ نہیں تھے‘ شیلا کا کمرہ دوسری منزل پر تھا‘ ان کا کہنا تھا میرا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے‘ کوئی بھی مریض کسی بھی وقت آ کر میرے ساتھ ملاقات کر سکتا ہے۔
شیلا کے کمرے کی دیواروں پر ان کی اوشو کے ساتھ تصویریں لگی تھیں‘ ان کی والدہ اور والد کی تصویریں بھی پورے گھر کی دیواروں پر تھیں‘ ان کے والد بھی باریش تھے اور شکل سے گرو لگتے تھے‘ شیلا کا کہنا تھا یہ بھی سوامی تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’گرو نے آخر میں آپ کو ذمے دار قرار دے کر پھنسا دیا تھا‘ وہ اگر چاہتے تو آپ جیل نہ جاتیں لیکن آپ ابھی تک ان سے عقیدت رکھتی ہیں۔
ان کا جواب تھا ’’مجھے گرو سے محبت تھی‘ میں صرف ان کی فین نہیں تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو اپنے ماضی پر شرمندگی ہے؟‘‘ شیلا نے ہنس کو جواب دیا ’’ماضی صرف ماضی ہوتا ہے‘ وہ گزر گیا‘ انسان کو اس کا غلام نہیں بننا چاہیے۔
میرے ساتھ کیا ہوا اور میں نے کیا کیا‘ کوئی فرق نہیں پڑتا‘ انسان کو آگے بڑھنا چاہیے اور میں بہت آگے آ گئی ہوں‘ وہ وقت بہت اچھا تھا لیکن وہ گزر گیا‘ اس کے بعد اس سے بھی اچھا وقت آیا اور اس کے بعد مزید اچھا آئے گا‘ میں اپنے ماضی سے بہت آگے آ گئی ہوں۔
میں نے پوچھا ’’کیا آپ مذہب پر یقین رکھتی ہیں؟‘‘ ان کا سیدھا سادا جواب تھا ’’بالکل نہیں‘ میں اب کسی مذہب کو نہیں مانتی‘ ہم انسانوں کے درمیان صرف ایک رشتہ ہونا چاہیے اور وہ ہے محبت اور خدمت‘‘ شیلا نے اس کے بعد ہمیں بڑا شان دار لنچ کرایا‘ وہ خود بھی ہمارے ساتھ سالمن فش کھا رہی تھیں‘ ان کی اسسٹنٹ میر جام(Mirjam)بھی ہمارے ساتھ تھی‘ یہ آسٹرین ہے اور 24 سال سے شیلا کے ساتھ کام کر رہی ہے‘ لکھاری اور فلنتھراپسٹ ہے۔
اس نے بتایا‘ میں جوانی میں شیلا کا مقدمہ دیکھنے عدالت گئی‘ اس خاتون نے جس بہادری سے ہر سوال کا جواب دیا اور اپنی ہر غلطی تسلیم کی اور سزا کے بعد جس تحمل کا مظاہرہ کیا اس نے میرا دل موہ لیا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں اس کے ساتھ ہوں۔
میر جام نے سینٹر کے بارے میں بھی بتایا‘ کھانا کھاتے کھاتے اچانک شیلا کی طبیعت خراب ہو گئی‘ اس نے مجھ سے معذرت کی اور اندر چلی گئی‘ تھوڑی دیر بعد اس کی دوسری اسسٹنٹ آئی اور اس نے بتایا‘ شیلا کا بلڈ پریشر اچانک ڈراپ ہو گیا ہے‘ میں نے اسے لٹا دیا ہے‘ وہ شاید اب باہر نہ آ سکے‘ شیلا کے شیف نے اس دوران کافی کے مگ ہمارے سامنے رکھ دیے‘ ہم نے کافی پی‘میر جام کی گفتگو انجوائے کی اور واپسی کی اجازت طلب کر لی۔
ہم واپس آ گئے‘ آج اس ملاقات کو20 دن گزر چکے ہیں لیکن ذہن میں آج بھی اس ملاقات کا ذائقہ موجود ہے‘ شیلا کیا تھی‘ وہ کیا بنی اور آج وہ کیا ہے؟ یہ عجیب داستان ہے‘ کیا یہ ایک بری عورت تھی یا پھر یہ فرشتہ ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا تاہم یہ طے ہے اس عورت نے زندگی اپنی شرطوں کے مطابق گزاری‘ اس نے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کمپرومائز نہیں کیا‘اس کی عمر اس وقت 75 سال ہے اور یہ اب بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی اس خوبی نے اسے ماں بنا دیا‘ ماں آنند شیلا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کا جواب تھا میں نے پوچھا کا کہنا تھا ہو جاتے ہیں نرسنگ ہوم اس کے بعد میں اپنے رہی تھی شیلا کا شیلا کے کے ساتھ ہیں اور شیلا نے کے لیے کیا یہ اور اس ہے اور
پڑھیں:
سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ناممکن تھا، طلال چوہدری
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل پاکستان کے لیے ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں اور ملک کی کامیاب سفارت کاری کی ایسی مثال گزشتہ 80 سال میں نہیں ملتی۔
یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف اس ماہ کے آخر میں پھر سعودی عرب جائیں گے، بڑے معاشی اقدامات کا اعلان متوقع
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان کی شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کے ساتھ مشترکہ سفارت کاری عروج پر ہے۔
ان کے مطابق قومی مفاد کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
ایمل ولی پر تنقیداپنی گفتگو میں انہوں نے ایمل ولی خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غیر ذمہ دارانہ اور ناقابل برداشت بیان دیا جو صرف ذاتی تشہیر کے لیے تھا۔
ان کے مطابق ایمل ولی کو پاکستان سے زیادہ افغانستان سے محبت ہے، وہ اپنے بڑوں کے سیاسی ورثے کی وجہ سے پارٹی سربراہ ہیں ورنہ اس قابل نہیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ اے این پی کی سیاست سے لوگ اتفاق نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کی جماعت سیٹیں ہار گئی۔
سرمایہ کاری کے لیے محفوظ پاکستانطلال چوہدری نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ ملک بنایا جائے تاکہ ملکی معیشت مزید مستحکم ہوسکے۔
نیشنل پریس کلب واقعہ اور معافیطلال چوہدری نے نیشنل پریس کلب واقعے پر حکومت، وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات نے افسوس اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس گردی کے خلاف ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا اعلان
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے صحافیوں سے غیر مشروط معافی مانگی ہے اور جو بھی اس واقعے میں ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
میڈیا اور صحافت پر مؤقفان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ صحافیوں کے بغیر نامکمل ہے، حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور پریس کلب انتظامیہ کی مشاورت سے ہی ایکشن لیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرمی ایمل ولی سعودی عرب طلال چوہدری عاصم منیر فوج نیشنل پریس کلب