صحافی کی جیکٹ اب تحفظ نہیں، ہدف ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔ تحریر: اردشیر زابلی زادہ
آج غزہ میں ایک بے رحم جنگ جاری ہے۔ ایک ایسی جنگ جس نے جغرافیائی حدود کو توڑا اور صحافت کے پیشے کے قلب کو نشانہ بنایا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے لیکر اب تک سرکاری رپورٹس کے مطابق، غزہ میں 211 سے زیادہ صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے یہ تعداد 186 بتائی ہے اور مقامی ذرائع سے شائع ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 238 تک پہنچ گئی ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ اصل جنگ بیانیہ کی جنگ ہے اور اس بیانیے کو خاموش کرنے کے لیے صیہونی حکومت صحافیوں کے خیموں پر بمباری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
یہ شہداء غزہ کی تھکی ہوئی آواز ہیں، سچ بولنے والوں کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس بات کی زندہ گواہی ہیں کہ اصل جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ یہ بات دشمن بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ بیانیے پر قابو پانا چاہیئے، بیانیے کو خاموش کرنا چاہیئے۔ اس لیے بین الاقوامی قوانین اور صحافیوں پر حملے کی ممانعت کے باوجود الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافیوں کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کیونکہ صحافی کا بیانیہ اسکا سب سے زیادہ جارحانہ ہتھیار ہوتا ہے۔
تازہ ترین جرم میں، اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال کے ارد گرد صحافیوں کے خیموں پر براہ راست اور ٹارگٹیٹڈ حملوں میں الجزیرہ کے دو صحافیوں سمیت دیگر پانچ صحافیوں کو شہید کر دیا۔ ان میں انس الشریف، "غزہ کا راوی" بھی تھا، جس کے گھر کو پہلے نشانہ بنایا گیا تھا اور جس کے والد اس حملے میں شہید ہوئے تھے۔ انس الشریف نے اپنی شہادت سے پہلے درج ذیل وصیت کی "خدایا گواہ رہنا ان لوگوں پر جو خاموش رہے، جنہوں نے ہمارے قتل پر رضامندی ظاہر کی، اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کی بکھری لاشوں سے نہیں دہلے۔"
یہ جملہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ خطے میں عرب میڈیا کی خاموشی اور بے حسی کے خلاف ایک مستند دستاویز۔ شہید صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ایک آزاد فوٹوگرافر اور فلمساز اسماعیل ابو حاطب سے لے کر الاقصیٰ ریڈیو کی دعا شرف تک جو اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ شہید ہوئی تھی۔ ان میں سے ہر ایک نام ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ وہ راوی تھے جو آخری دم تک اپنی داستان پر یقین رکھتے تھے اور اس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس خونریزی کے سامنے میڈیا کے ادارے بھی خاموش ہیں۔ یہ خاموشی غیر جانبداری نہیں ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ احتیاط، بلکہ ظلم کے ساتھ خاموش تعاون ہے۔ وہی خاموشی جس کے بارے میں انس الشریف نے کہا تھا۔ ایک خاموشی جو قتل کی رضامندی دیتی ہے۔
آج جنگ صرف زمین کی نہیں بلکہ سچائی اور بیانیے کی ہے۔ صحافیوں کی مخصوص جیکٹ جو پریس کی مخصوص علامت ہے بین الاقوامی قانون میں جنگوں میں بھی استثنیٰ کی علامت ہے۔ صحافی کا کام واضح اور حقائق پر مبنی پیغام پہنچانا ہوتا ہے جو جنگ میں نہ تو سپاہیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور نہ ہی فریقین یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہ پیغام حق کے متلاشیوں کی آنکھوں اور آوازوں سے رائے عامہ تک پہنچتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب پریس کی جیکٹ پہنے صحافی کو گولیوں اور حملوں کے درمیان آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کی اجازت ہو اور اسکی جیکٹ قانونی ڈھال کے طور پر کام کرسکے۔
یہ جنیوا کنونشنز کے بنیادی اصول کی بھی یاد دلاتا ہے۔ میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔
تاریخ یاد رکھے گی کہ اسرائیل نے الجزیرہ کے مسلمان اور عرب صحافیوں کے بیانیے کو کھلے عام پیشہ ورانہ فرائض کے دوران خاموش کر دیا اور یہ بھی یاد رہے گا کہ انسانیت کے اس امتحان میں کچھ عرب میڈیا نے اپنی خاموشی سے اپنا حصہ ڈالا۔ آج پہلے سے زیادہ یہ جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ غزہ میں شہید ہونے والے صحافی اور انکے ساتھیوں کا بیانیہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو دشمن کے لیے کسی بھی بم یا میزائل سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت پسند پیشہ ور مسلمان صحافی اس غیر مساوی جنگ کے آخری صفحہ تک ان شہید صحافیوں کے ساتھ رہیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو خاموش کر صحافیوں کے ہونے والے کی مخصوص سے زیادہ کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کر دیا ہے اور
پڑھیں:
عاطف اسلم کے کانسرٹ روکنے پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کیوں آستینیں چڑھا لیں؟
گورنر ہاؤس کراچی میں یومِ آزادی اور معرکۂ حق کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں معروف گلوکار عاطف اسلم نے اپنی پرفارمنس سے شرکاء کو محظوظ کیا، تاہم کنسرٹ کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس کے باعث انہیں اپنی پرفارمنس روکنا پڑی۔
کانسرٹ کے دوران بھگدڑ مچنے پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری خود منظر عام پر آئے اور صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کیا میری بہنوں کی حفاظت کے لیے بھائی کم ہو گئے ہیں؟ کیا میرے بھائی اپنی بہنوں کی حفاظت نہیں کر سکتے؟
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی سیکیورٹی اہلکار نے میرے بھائیوں کو ہاتھ بھی لگایا تو میں اُسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ سب میرے بھائی اور میری فیملی ہیں۔ سیکیورٹی والے احتیاط سے کام لیں، بات پیار اور محبت سے ہوگی، کراچی والے کسی سازش کا شکار نہیں بنیں گے۔
دوسری جانب صحافیوں نے تقریب کے انتظامات پر ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر ہاؤس کے اس بڑے پروگرام میں صحافیوں کے لیے صرف 10 کرسیاں بھی دستیاب نہیں تھیں۔ صحافیوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر گورنر ہاؤس کے پاس کرسیوں کے پیسے نہیں ہیں تو ہم سے لے لیں، لیکن آئندہ تقریب میں صحافیوں کو مناسب بیٹھنے کی سہولت ضرور دیجیے گا۔
گورنر ہاؤس میں پروگرام میں صحافیوں کے لئے 10 کرسیاں بھی نہیں.
گورنر صاحب اگر کرسیوں کے پیسے نہیں ہیں تو ہم صحافیوں سے لے لیں صحافی کا جواب
یہ پروگرام تھا ???? pic.twitter.com/OFTnzpTts4
— Mohammad Omer (@PPPUmer) August 11, 2025
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عاطف اسلم کانسرٹ کامران ٹیسوری گورنر سندھ