Islam Times:
2025-10-04@16:55:57 GMT

صحافی کی جیکٹ اب تحفظ نہیں، ہدف ہے

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

صحافی کی جیکٹ اب تحفظ نہیں، ہدف ہے

اسلام ٹائمز: میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔ تحریر: اردشیر زابلی زادہ 

آج غزہ میں ایک بے رحم جنگ جاری ہے۔ ایک ایسی جنگ جس نے جغرافیائی حدود کو توڑا اور صحافت کے پیشے کے قلب کو نشانہ بنایا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے لیکر اب تک سرکاری رپورٹس کے مطابق، غزہ میں 211 سے زیادہ صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے یہ تعداد 186 بتائی ہے اور مقامی ذرائع سے شائع ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 238 تک پہنچ گئی ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ اصل جنگ بیانیہ کی جنگ ہے اور اس بیانیے کو خاموش کرنے کے لیے صیہونی حکومت صحافیوں کے خیموں پر بمباری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

یہ شہداء غزہ کی تھکی ہوئی آواز ہیں، سچ بولنے والوں کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس بات کی زندہ گواہی ہیں کہ اصل جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ یہ بات دشمن بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ بیانیے پر قابو پانا چاہیئے، بیانیے کو خاموش کرنا چاہیئے۔ اس لیے بین الاقوامی قوانین اور صحافیوں پر حملے کی ممانعت کے باوجود الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافیوں کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کیونکہ صحافی کا بیانیہ  اسکا سب سے زیادہ جارحانہ ہتھیار  ہوتا ہے۔

تازہ ترین جرم میں، اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال کے ارد گرد صحافیوں کے خیموں پر براہ راست اور ٹارگٹیٹڈ حملوں میں الجزیرہ کے دو صحافیوں سمیت دیگر پانچ صحافیوں کو شہید کر دیا۔ ان میں انس الشریف، "غزہ کا راوی" بھی تھا، جس کے گھر کو پہلے نشانہ بنایا گیا تھا اور جس کے والد اس حملے میں شہید ہوئے تھے۔ انس الشریف نے اپنی شہادت سے پہلے درج ذیل وصیت کی "خدایا گواہ رہنا ان لوگوں پر جو خاموش رہے، جنہوں نے ہمارے قتل پر رضامندی ظاہر کی، اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کی بکھری لاشوں سے نہیں دہلے۔"

یہ جملہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ خطے میں عرب میڈیا کی خاموشی اور بے حسی کے خلاف ایک مستند دستاویز۔ شہید صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ایک آزاد فوٹوگرافر اور فلمساز اسماعیل ابو حاطب سے لے کر الاقصیٰ ریڈیو کی دعا شرف تک جو اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ شہید ہوئی تھی۔ ان میں سے ہر ایک نام ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ وہ راوی تھے جو آخری دم تک اپنی داستان پر یقین رکھتے تھے اور اس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس خونریزی کے سامنے میڈیا کے ادارے بھی خاموش ہیں۔ یہ خاموشی غیر جانبداری نہیں ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ احتیاط، بلکہ ظلم کے ساتھ خاموش تعاون ہے۔ وہی خاموشی جس کے بارے میں انس الشریف نے کہا تھا۔ ایک خاموشی جو قتل کی رضامندی دیتی ہے۔

آج جنگ صرف زمین کی نہیں بلکہ سچائی اور بیانیے کی ہے۔ صحافیوں کی مخصوص جیکٹ جو پریس کی مخصوص علامت ہے بین الاقوامی قانون میں جنگوں میں بھی استثنیٰ کی علامت ہے۔ صحافی کا کام  واضح اور حقائق پر مبنی پیغام پہنچانا ہوتا ہے جو جنگ میں نہ تو سپاہیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور نہ ہی فریقین یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہ پیغام حق کے متلاشیوں کی آنکھوں اور آوازوں سے رائے عامہ تک پہنچتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب پریس کی جیکٹ پہنے صحافی کو گولیوں اور حملوں کے درمیان آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کی اجازت ہو اور اسکی جیکٹ قانونی ڈھال کے طور پر کام کرسکے۔

یہ جنیوا کنونشنز کے بنیادی اصول کی  بھی یاد دلاتا ہے۔ میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا  سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔ 

تاریخ یاد رکھے گی کہ اسرائیل نے الجزیرہ کے مسلمان اور عرب صحافیوں کے بیانیے کو کھلے عام پیشہ ورانہ فرائض کے دوران خاموش کر دیا اور یہ بھی یاد رہے گا کہ انسانیت کے اس امتحان میں کچھ  عرب میڈیا نے اپنی خاموشی سے اپنا حصہ ڈالا۔ آج پہلے سے زیادہ یہ جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ غزہ میں شہید ہونے والے صحافی اور انکے  ساتھیوں کا بیانیہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو دشمن کے لیے کسی بھی بم یا میزائل سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت پسند پیشہ ور مسلمان صحافی اس غیر مساوی جنگ کے آخری صفحہ تک ان شہید صحافیوں کے ساتھ رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو خاموش کر صحافیوں کے ہونے والے کی مخصوص سے زیادہ کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کر دیا ہے اور

پڑھیں:

اسرائیلی غنڈہ گردی پر دنیا خاموش، صیہونی وزیر کا فلوٹیلا کے قیدیوں کو دہشتگردوں جیسی حالت میں رکھنے کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تل ابیب:  اسرائیل کے انتہا پسند وزیرِ قومی سلامتی اتمر بن گویر نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے لیے امداد لے جانے والی فلوٹیلا کے گرفتار کارکنوں کو وعدے کے مطابق سخت سکیورٹی جیل میں رکھا گیا ہے،  یہ کارکن دہشت گردوں کے حامی ہیں اور انہیں دہشت گردوں جیسا ہی سلوک دیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق بن گویر نے کہا کہ ان کے کپڑے بھی دہشت گردوں جیسے ہیں اور سہولتیں بھی کم سے کم دی جا رہی ہیں، یہی میں نے کہا تھا اور یہی ہو رہا ہے۔

 انہوں نے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کو فوری ملک بدر کرناغلطی ہے اور انہیں چند ماہ تک اسرائیلی جیل میں رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ فلوٹیلا کا حصہ نہ بن سکیں۔

یاد رہے کہ بدھ کی شب اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والی 42 کشتیوں پر سوار تقریباً 470 کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔

 اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے مطابق اب تک چار افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے جبکہ باقیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، گرفتار شدگان میں مختلف ممالک کے انسانی حقوق کارکن، وکلا، منتخب نمائندے اور سول سوسائٹی کے افراد شامل ہیں۔

اسرائیلی حکام کا مؤقف ہے کہ فلوٹیلا نے بحری محاصرے کی خلاف ورزی کی، منتظمین کے مطابق یہ قافلہ خالصتاً انسانیت اور علامتی امداد کے لیے بھیجا گیا تھا جس کا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ابتر صورتحال کی طرف مبذول کرانا تھا۔

واضح رہےکہ  فلوٹیلا کی گرفتاری اور کارکنوں کے ساتھ سلوک نے عالمی سطح پر شدید ردِ عمل کو جنم دیا ہے،  یورپ اور مشرق وسطیٰ کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے اور انسانی حقوق تنظیموں نے اسرائیلی رویے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ادھر بعض ملکوں نے اپنے شہریوں کی گرفتاری پر اسرائیل سے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔

خیال رہےکہ  اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کے عوام تک انسانی امداد کی راہ روکی ہے، مظاہرین نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں امریکا اور اسرائیل امداد کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بھی بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • پولیس گردی کی مذمت، صحافیوں کے ساتھ ہیں: فضل الرحمن 
  • پیپلزپارٹی آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے،راول شرجیل میمن
  • اسرائیلی غنڈہ گردی پر دنیا خاموش، صیہونی وزیر کا فلوٹیلا کے قیدیوں کو دہشتگردوں جیسی حالت میں رکھنے کا اعلان
  • مریم نواز اپنے والد کو خاموش کروا کر خود بول رہی ہیں: مولا بخش چانڈیو
  • اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر دھاوا: صحافی تنظیموں نے واقعہ دہشتگردی قرار دیدیا
  • صحافیوں پر تشدد: وزیرداخلہ محسن نقوی کا نوٹس، آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی
  • اسلام آباد پریس کلب میں پولیس داخل اور توڑ پھوڑ، ’اب تو صحافی پریس کلب میں بھی محفوظ نہیں’
  • تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان غزہ و کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے: سلمان اکرام راجہ
  • صحافی بیرون ملک میں پاکستان کا بیانیہ اور مثبت تشخص پیش کر رہے ہیں؛ عطا تارڑ
  • غزہ: موت کے سائے میں صحافت