حسان نیازی کوپتلون پکڑانے والاعلیمہ خان کابیٹاتھا،صحافی علی وارثی کادعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک )صحافی علی وارثی نے نجی خبررساں ادارے کوانٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ علیمہ خان کے بیٹے پرحسان نیازی کوپتلون دینے کاالزام ہے جوحسان نیازی نے لہرائی تھی ۔
صحافی حسن افتخار نے کہاکہ علیمہ خان کے بیٹے نے اپنے وکیل کے ذریعے پناہ کی درخواست واپس لی اور پاکستان کا رخ کیا، جس سے یہ قیاس پیدا ہوا کہ انہیں کہیں نہ کہیں سے یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ یہ کسی نہ کسی ڈیل یا سیاسی سمجھوتے کا حصہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علیمہ خان اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے پس پردہ رابطے کر رہی ہیں اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بعض معاملات میں رعایت بھی ملی ہے۔ اس تناظر میں ایک بڑا حوالہ یہ دیا جا رہا ہے کہ علیمہ خان کا بیٹا جو پہلے بیرون ملک سیاسی پناہ (Asylum) کے لیے درخواست گزار تھا، اچانک پاکستان واپس آگیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر کوئی شخص پناہ کے لیے یہ مؤقف اختیار کرے کہ اپنے ملک میں جان کو خطرہ ہے، تو اس کے بعد واپسی آسان نہیں ہوتی۔ اس عمل کو روکنے اور واپس آنے کے لیے یا تو خطرہ ختم ہو یا کسی سطح پر یقین دہانی حاصل ہو۔
وقاص حبیب رانا نے کہاکہ پارٹی کے اندرونی ڈھانچے پر نظر ڈالیں تو قیادت کی دوڑ میں بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بشریٰ بی بی اس وقت بنی گالہ میں مقیم ہیں جبکہ علیمہ خان پارٹی کے سوشل میڈیا معاملات میں اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ بعض کارکنوں کا مؤقف ہے کہ یہ دونوں شخصیات اپنی اپنی جگہ قیادت میں کردار کے لیے کوشاں ہیں اور مستقبل میں پارٹی کی سمت کا تعین اس پر بھی منحصر ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے بعد کس کو ترجیح دی جاتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہ علیمہ خان کے لیے
پڑھیں:
اپنے اپنے مفادات کی سیاست
شاہ محمود قریشی نے جیل سے بانی پی ٹی آئی کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ خالی قرار دی گئی نشستوں کو الیکشن میں خالی نہ چھوڑیں بلکہ ان پر پی ٹی آئی کے خواہش مندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیں کیوں کہ جبر اور انتقام کے باوجود ہمیں سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ الیکشن لڑنا ہی ہمارے سیاسی مفاد میں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اس سے قبل بھی بانی چیئرمین کو متعدد پیغامات بھیج چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ سینئر رہنما کی نہیں سنی جا رہی۔ انھیں جیل سے کوئی جواب ملتا ہے اور نہ ہی ان کے شکوؤں پر توجہ دی جاتی ہے اور شاہ محمود قریشی سے کہیں جونیئر رہنما اور موجودہ عہدیداران بھی ان سے ملاقات کرنے آنا نہیں چاہتے اور سب جو سیاست میں نئے اور وکلا ہیں وہ بھی اپنے سینئر رہنماؤں کی کسی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی دو سال سے قید پارٹی کے سینئرزسے جیل میں جا کر ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے موجودہ عہدیداروں کی اب پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں کہ وہ سینئر رہنماؤں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ وہ سب پی ٹی آئی سے تعلق کے باعث دو سال سے جیل بھگت رہے ہیں اور کوئی نیا رہنما ان کی رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کرتا اور باقی جو صرف بانی چیئرمین کی رہائی کا ہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
ان نئے رہنماؤں کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا اور یہ سب اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اور میڈیا میں نظر آنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور بانی نے بھی مفت وکالت کے لیے انھیں اہم عہدے دے رکھے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے لیے کوئی خدمات نہیں ہیں اور متعدد بانی کی وجہ سے اسمبلیوں میں بھی پہنچ چکے ہیں جن کا اپنا کوئی حلقہ انتخاب تک نہیں ہے مگر بانی کی مفت وکالت ہی ان کی پہچان ہے۔
جن نئے رہنماؤں نے کبھی کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا آج وہ پارٹی کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آج کی سیاست کا عوام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ آج ہر شخص صرف سیاسی مفاد کے لیے سیاسی پارٹی جوائن کرتا اور مختلف طریقے استعمال کرکے یا پارٹی کو فنڈز دے کر پارٹی قیادت کے سامنے اپنا مقام بناتا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور قیادت بھی ایسے شخص کوپارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ایک ہیں اور کسی ایک کا بھی مثالی کردار نہیں ہے کیونکہ ملک میں سیاسی پارٹیاں ہی ایسا کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر پارٹی سربراہ مفاد پرستوں کو ہی اہمیت دیتا ہے کیوں کہ پارٹی چلانا ہوتی ہے ‘ بڑے پیمانے پر عطیات دینے والے موجود ہیں۔
پی ٹی آئی ملک کی واحد پارٹی ہے جو 2013 میں صوبائی اور 2018 میں وفاقی اقتدار میں آئی اور اسے بڑا صوبہ فرمائش پر اکثریت نہ ہونے کے باوجود دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں اکثر لوگ کبھی اقتدار میں نہیں رہے اور نئے رہنما اور دوسری پارٹیوں کے لوگ اقتدار کے لیے ہی شامل ہوئے تھے جب کہ (ن) لیگ اور پی پی تین تین باریاں لے کر اپنوں کو نواز چکی تھیں۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے پہلی بار اقتدار میں آ کر خوب نوازا۔ بیرون ملک سے بھی اپنوں کو بلا کر حکومتی عہدوں سے نوازنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
پی ڈی ایم کے ذریعے اپنی آئینی برطرفی کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرپور طور استعمال کیا اور 2024میں پی ڈی ایم کی نفرت میں عوام نے کامیابی بھی دلائی مگر سانحہ 9 مئی اور بانی کے مختلف اور متنازع بیانات اور ہٹ دھرمی کی سیاست انھیں اقتدار سے دور لے جا چکی ہے اور حالیہ سزاؤں اور احتجاجی تحریک میں مسلسل ناکامیوں کے باعث ہی غالباً ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے اور ضمنی الیکشن میں انھیں اپنی پارٹی کی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ مفاد پرستوں کے لیے اب پی ٹی آئی میں کشش نظر نہیں آ رہی اور سیاسی مفاد پرستی کے لیے حکومتی پارٹیوں میں ہی جانے کو ترجیح دیں گے۔